Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: If a group of persons gives a gift to some people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2607.
حضرت مروان بن حکم ؓ اور مسور بن مخرمہ ؓ سےروایت ہے، انھوں نے بتایا کہ جب نبی کریم ﷺ کے پاس ہوازن کا وفد مسلمان ہوکر آیا تو انھوں نے آپ سے درخواست کی کہ انھیں اپنے قیدی اور مال واپس کردیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو لوگ میرے ساتھ ہیں وہ تم دیکھ رہے ہو اور سچی بات مجھے بہت محبوب ہے۔ تم دو باتوں میں سے ایک اختیار کرلو: قیدی لے لو یا مال کاانتخاب کرلو۔ اس سلسلے میں میں نے تمہارا کافی انتظار کیا۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ طائف سے لوٹ کر آئے تو دس سے زیادہ راتیں ان کا انتظار کیا، چنانچہ ان لوگوں پر واضح ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ ایک ہی چیز واپس کریں گے۔ انھوں نے عرض کیا: ہم اپنے قیدیوں کو لیناچاہتے ہیں۔ (ان کا فیصلہ سن کر) آپ ﷺ لوگوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ’’أمابعد!تمہارے یہ بھائی ہمارے پاس مسلمان ہوکر آئے ہیں اور میں ان کو ان کے قیدی واپس کرنا چاہتا ہوں۔ تم میں سے جو راضی خوشی قیدی لوٹانا چاہے وہ لوٹا دے اور چاہے کہ اپنے حصے پر قائم رہے حتیٰ کہ ہم اسے پہلی غنیمت سے حصہ دیں جو اللہ ہمیں آئندہ دے تو وہ ایسا کرے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ہم بخوشی انھیں قیدی واپس کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین)سے فرمایا: ’’ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دے دی اور کس نے اجازت نہیں دی، اس لیے اب تم واپس چلے جاؤ، حتیٰ کہ ہمارے پاس تمہارے نمائندے تمہاری رائے پہنچائیں۔‘‘ چنانچہ وہ لوگ لوٹ گئے اور ان کے نمائندگان نے ان سے بات کی، پھر وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا کہ سب لوگ راضی خوشی قیدیوں کو واپس کرنے پر تیار ہیں۔ یہ وہ خبر ہے جوقبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق ہمیں پہنچی ہے۔ (امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ) یہ آخری قول امام زہری ؒ کا ہے، یعنی فهذا الذي بلغنا
تشریح:
غنیمت حاصل کرنے والے کئی لوگ تھے، انہوں نے قیدی وفد ہوازن کو ہبہ کیے۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے استدلال کیا ہے کہ مشترکہ چیز کا ہبہ جائز ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ شرعی ہبہ نہیں تھا کیونکہ قبیلۂ ہوازن کو ان کے قیدی واپس کیے گئے تھے۔ اگر کوئی چیز اصل مالک کو واپس کر دی جائے تو اسے ہبہ نہیں کہا جاتا۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ ہبہ ہی کی ایک صورت تھی کیونکہ وہ جنگی قیدی اب غنیمت حاصل کرنے والوں کی ملکیت تھے اور انہوں نے اپنی ملکیت وفد ہوازن کو ہبہ کی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشاع کا ہبہ جو تقسیم ہو سکتا ہے جائز ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اسے تسلیم نہیں کرتے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2517
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2607
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2607
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2607
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت مروان بن حکم ؓ اور مسور بن مخرمہ ؓ سےروایت ہے، انھوں نے بتایا کہ جب نبی کریم ﷺ کے پاس ہوازن کا وفد مسلمان ہوکر آیا تو انھوں نے آپ سے درخواست کی کہ انھیں اپنے قیدی اور مال واپس کردیا جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو لوگ میرے ساتھ ہیں وہ تم دیکھ رہے ہو اور سچی بات مجھے بہت محبوب ہے۔ تم دو باتوں میں سے ایک اختیار کرلو: قیدی لے لو یا مال کاانتخاب کرلو۔ اس سلسلے میں میں نے تمہارا کافی انتظار کیا۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ طائف سے لوٹ کر آئے تو دس سے زیادہ راتیں ان کا انتظار کیا، چنانچہ ان لوگوں پر واضح ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ ایک ہی چیز واپس کریں گے۔ انھوں نے عرض کیا: ہم اپنے قیدیوں کو لیناچاہتے ہیں۔ (ان کا فیصلہ سن کر) آپ ﷺ لوگوں میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے شایان شان حمدوثنا کی، پھر فرمایا: ’’أمابعد!تمہارے یہ بھائی ہمارے پاس مسلمان ہوکر آئے ہیں اور میں ان کو ان کے قیدی واپس کرنا چاہتا ہوں۔ تم میں سے جو راضی خوشی قیدی لوٹانا چاہے وہ لوٹا دے اور چاہے کہ اپنے حصے پر قائم رہے حتیٰ کہ ہم اسے پہلی غنیمت سے حصہ دیں جو اللہ ہمیں آئندہ دے تو وہ ایسا کرے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! ہم بخوشی انھیں قیدی واپس کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین)سے فرمایا: ’’ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دے دی اور کس نے اجازت نہیں دی، اس لیے اب تم واپس چلے جاؤ، حتیٰ کہ ہمارے پاس تمہارے نمائندے تمہاری رائے پہنچائیں۔‘‘ چنانچہ وہ لوگ لوٹ گئے اور ان کے نمائندگان نے ان سے بات کی، پھر وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا کہ سب لوگ راضی خوشی قیدیوں کو واپس کرنے پر تیار ہیں۔ یہ وہ خبر ہے جوقبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق ہمیں پہنچی ہے۔ (امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ) یہ آخری قول امام زہری ؒ کا ہے، یعنی فهذا الذي بلغنا
حدیث حاشیہ:
غنیمت حاصل کرنے والے کئی لوگ تھے، انہوں نے قیدی وفد ہوازن کو ہبہ کیے۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے استدلال کیا ہے کہ مشترکہ چیز کا ہبہ جائز ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ شرعی ہبہ نہیں تھا کیونکہ قبیلۂ ہوازن کو ان کے قیدی واپس کیے گئے تھے۔ اگر کوئی چیز اصل مالک کو واپس کر دی جائے تو اسے ہبہ نہیں کہا جاتا۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ ہبہ ہی کی ایک صورت تھی کیونکہ وہ جنگی قیدی اب غنیمت حاصل کرنے والوں کی ملکیت تھے اور انہوں نے اپنی ملکیت وفد ہوازن کو ہبہ کی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشاع کا ہبہ جو تقسیم ہو سکتا ہے جائز ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اسے تسلیم نہیں کرتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے، کہا ہم سے عقیل نے ابن شہاب سے، وہ عروہ سے کہ مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ ؓ نے انہیں خبر دی کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں جب ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا اور آپ سے درخواست کی کہ ان کے اموال اور قیدی انہیں واپس کر دئیے جائیں تو آپ نے ان سے فرمایا میرے ساتھ جتنی بڑی جماعت ہے اسے بھی تم دیکھ رہے ہو اور سب سے زیادہ سچی بات ہی مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اس لیے تم لوگ ان دو چیزوں میں سے ایک ہی لے سکتے ہو، یا اپنے قیدی لے لو یا اپنا مال۔ میں نے تمہارا پہلے ہی انتظار کیا تھا۔ اور نبی کریم ﷺ طائف سے واپسی پر تقریباً دس دن تک (مقام جعرانہ میں) ان لوگوں کا انتظار فرماتے رہے۔ پھر جب ان لوگوں کے سامنے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ آنحضرت ﷺ ان کی صرف ایک ہی چیز واپس فرماسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدیوں ہی کو (واپس لینا) پسند کرتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے کھڑے ہوکر مسلمانوں کو خطاب کیا، آپ نے اللہ کی اس کی شان کے مطابق تعریف بیان کی اور فرمایا، أما بعد ! یہ تمہارے بھائی ہمارے پاس اب توبہ کرکے آئے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ انہیں ان کے قیدی واپس کردوں۔ اس لیے جو صاحب اپنی خوشی سے واپس کرنا چاہیں وہ ایسا کرلیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہوں کہ اپنے حصے کو نہ چھوڑیں بلکہ ہم انہیں اس کے بدلے میں سب سے پہلی غنیمت کے مال میں سے معاوضہ دیں، تو وہ بھی (اپنے موجودہ قیدیوں کو) واپس کردیں۔ سب صحابہ نے اس پر کہا، یا رسول اللہ! ہم اپنی خوشی سے انہیں واپس کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا لیکن واضح طور پر اس وقت یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کون اپنی خوشی سے دینے کے لیے تیار ہے اور کون نہیں۔ اس لیے سب لوگ (اپنے خیموں میں) واپس جائیں اور تمہارے چودھری لوگ تمہارا معاملہ لاکر پیش کریں۔ چنانچہ سب لوگ واپس ہوگئے اور نمائندوں نے ان سے گفتگوکی اور واپس ہوکر آنحضرت ﷺ کو بتایا کہ تمام لوگوں نے خوشی سے اجازت دے دی ہے۔ قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق ہمیں یہ ی بات معلوم ہوئی ہے۔ یہ زہری ؒ کا آخری قول تھا۔ یعنی یہ کہ ’’قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق ہمیں یہ ی بات معلوم ہوئی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ صحابہ نے جو متعدد لوگ تھے، ہوازن کے لوگوں کو جو متعدد تھے، قیدیوں کا ہبہ کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama (RA): When the delegates of the tribe of Hawazin came to the Prophet (ﷺ) they requested him to return their property and their captives. He said to them, "This concerns also other people along with me as you see, and the best statement to me is the true one, so you may choose one of two alternatives; either the captives or the property and (I have not distributed the booty for) I have been waiting for you." When the Prophet (ﷺ) had returned from Ta'if, he waited for them for more than ten nights. When they came to know that the Prophet (ﷺ) would not return except one of the two, they chose their captives. The Prophet (ﷺ) then stood up amongst the Muslims, Glorified and Praised Allah as He deserved, and then said, "Then after: These brothers of yours have come to you with repentance and I see it proper to return their captives, so whoever amongst you likes to do that as a favor, then he can do it, and whoever of you wants to stick to his share till we pay him from the very first Fai (i.e. war booty) which Allah will give us, then he can do so." The people said, "We return (the captives) to them willingly as a favor, O Allah's Apostle! (ﷺ) " The Prophet (ﷺ) said, "I do not know who of you has given his consent and who has not; so go back and your leaders may present your decision to me." The people went away, and their leaders discussed the matter with them, and then came to the Prophet (ﷺ) to tell him that all of them had given their consent (to return the captives) willingly. (Az-Zuhn, the sub-narrator said, "This is what we know about the captives, of Hawazin.")