باب : کسی کے لیے حلال نہیں کہ اپنا دیا ہوا ہدیہ یا صدقہ واپس لے لے
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Not to take back presents or Sadaqa)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2623.
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے فی سبیل اللہ ایک شخص کو سواری کے لیے گھوڑا دیا تو جس کے پاس وہ گھوڑا تھا اس نے (اس کی حفاظت نہ کی بلکہ) اسے خراب کر ڈالا۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس سے وہ گھوڑا خرید لوں اور گمان یہ تھا کہ وہ مجھے سستے داموں فروخت کردے گا۔ میں نے نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے مت خریدو، اگرچہ وہ تمھیں ایک درہم کے عوض دے کیونکہ صدقے کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے اس کو چاٹ جاتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑا فروخت کرنے والے کی طرف سے کچھ نہ کچھ سہولت کی امید ضرور تھی، چنانچہ بیچنے والے کی طرف سے تھوڑی سی سہولت فروخت کردہ چیز کے بعض اجزاء میں رجوع کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اقدام کو عود في الصدقة کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ (2) اگر صدقہ کیا ہوا مال بطور وراثت حصے میں آ جائے تو اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ لینا جائز ہے۔ (3) واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے وہ گھوڑا جہاد کے لیے وقف نہیں کیا تھا کیونکہ وقف کی ہوئی چیز کی خریدوفروخت ممنوع ہوتی ہے بلکہ اس کی ملکیت میں دے دیا تھا۔ حدیث کے الفاظ سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ وقف نہیں بلکہ ہبہ کیا تھا۔ (فتح الباري:291/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2531
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2623
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2623
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2623
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے فی سبیل اللہ ایک شخص کو سواری کے لیے گھوڑا دیا تو جس کے پاس وہ گھوڑا تھا اس نے (اس کی حفاظت نہ کی بلکہ) اسے خراب کر ڈالا۔ میں نے ارادہ کیا کہ اس سے وہ گھوڑا خرید لوں اور گمان یہ تھا کہ وہ مجھے سستے داموں فروخت کردے گا۔ میں نے نبی ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے مت خریدو، اگرچہ وہ تمھیں ایک درہم کے عوض دے کیونکہ صدقے کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کرکے اس کو چاٹ جاتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑا فروخت کرنے والے کی طرف سے کچھ نہ کچھ سہولت کی امید ضرور تھی، چنانچہ بیچنے والے کی طرف سے تھوڑی سی سہولت فروخت کردہ چیز کے بعض اجزاء میں رجوع کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اقدام کو عود في الصدقة کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ (2) اگر صدقہ کیا ہوا مال بطور وراثت حصے میں آ جائے تو اس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ لینا جائز ہے۔ (3) واضح رہے کہ حضرت عمر ؓ نے وہ گھوڑا جہاد کے لیے وقف نہیں کیا تھا کیونکہ وقف کی ہوئی چیز کی خریدوفروخت ممنوع ہوتی ہے بلکہ اس کی ملکیت میں دے دیا تھا۔ حدیث کے الفاظ سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ وقف نہیں بلکہ ہبہ کیا تھا۔ (فتح الباري:291/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا زید بن اسلم سے، ان سے ان کے باپ نے کہ انہوں نے عمر بن خطاب ؓ سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک گھوڑا اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے (ایک شخص کو) دیا۔ جسے میں نے وہ گھوڑا دیا تھا، اس نے اسے دبلا کردیا۔ اس لیے میرا ارادہ ہوا کہ اس سے اپنا وہ گھوڑا خرید لوں، میرا یہ بھی خیال تھا کہ وہ شخص وہ گھوڑا سستے داموں پر بیچ دے گا۔ لیکن جب میں نے اس کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ تم اسے نہ خریدو، خواہ تمہیں وہ ایک ہی درہم میں کیوں نہ دے۔ کیوں کہ اپنے صدقہ کو واپس لینے والا شخص اس کتے کی طرح ہے جو اپنی ہی قے خود چاٹتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس گھوڑے کا نام ورد تھا۔ یہ تمیم داری نے آنحضرت ﷺ کو تحفہ گزرانا تھا اور آنحضرت ﷺ نے اسے حضرت عمر ؓ کو بخش دیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Al-Khattab (RA): I gave a horse in Allah's Cause. The person to whom it was given, did not look after it. I intended to buy it from him, thinking that he would sell it cheap. When I asked the Prophet (ﷺ) he said, "Don't buy it, even if he gives it to you for one Dirham, as the person who takes back what he has given in charity, is like a dog that swallows back its vomit."