Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Borrowing a horse from some people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2627.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا: ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں دشمن کا خوف ساپیدا ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے ایک گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جا تا تھا۔ آپ اس پر سوار ہوئے۔ جب واپس تشریف لائے تو فرمایا: ’’ کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔ یہ گھوڑا تو سمندر کی موج ہے۔‘‘
تشریح:
(1) عاریت، اس لین دین کو کہتے ہیں جس میں ملکیت تو منتقل نہیں ہوتی، البتہ کسی چیز کا فائدہ عارضی طور پر منتقل ہو جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کسی چیز کا فائدہ اور نفع ہبہ کرنا بھی جائز ہے۔ (2) واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مدینے میں دشمن کے آنے کی افواہ پھیلی تو رسول اللہ ﷺ نے شہر کا جائزہ لینے کے لیے حضرت ابو طلحہ ؓ کا گھوڑا عاریتاً لیا، واپسی پر بتایا کہ کوئی خطرہ نہیں ہے، البتہ گھوڑا اس طرح اڑتا ہے گویا سمندر کی موج ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کو امن و امان کی خوشخبری دینا مستحب امر ہے۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع
موضوعات
Topics
Sharing Link:
ترقیم کوڈ
اسم الترقيم
نام ترقیم
رقم الحديث(حدیث نمبر)
١
ترقيم موقع محدّث
ویب سائٹ محدّث ترقیم
2647
٢
ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
2627
٣
ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
2434
٤
ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
2627
٥
ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
2484
٦
ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2535
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2627
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2627
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2627
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا: ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں دشمن کا خوف ساپیدا ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے ایک گھوڑا مستعار لیا جسے مندوب کہا جا تا تھا۔ آپ اس پر سوار ہوئے۔ جب واپس تشریف لائے تو فرمایا: ’’ کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔ یہ گھوڑا تو سمندر کی موج ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) عاریت، اس لین دین کو کہتے ہیں جس میں ملکیت تو منتقل نہیں ہوتی، البتہ کسی چیز کا فائدہ عارضی طور پر منتقل ہو جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کسی چیز کا فائدہ اور نفع ہبہ کرنا بھی جائز ہے۔ (2) واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ مدینے میں دشمن کے آنے کی افواہ پھیلی تو رسول اللہ ﷺ نے شہر کا جائزہ لینے کے لیے حضرت ابو طلحہ ؓ کا گھوڑا عاریتاً لیا، واپسی پر بتایا کہ کوئی خطرہ نہیں ہے، البتہ گھوڑا اس طرح اڑتا ہے گویا سمندر کی موج ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کو امن و امان کی خوشخبری دینا مستحب امر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا قتادہ سے کہ میں نے انس ؓ سے سنا۔ آپ نے بیان کیا کہ مدینے پر (دشمن کے حملے کا) خوف تھا۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے ابوطلحہ ؓ سے ایک گھوڑا جس کا نام مندوب تھا مستعار لیا، پھر آپ ﷺ اس پر سوار ہوئے (صحابہ بھی ساتھ تھے) پھر جب واپس ہوئے تو فرمایا، ہمیں تو کوئی خطرہ کی چیز نظر نہ آئی، البتہ یہ گھوڑا سمندر کی طرح (تیز دوڑتا) پایا۔
حدیث حاشیہ:
دریا کی طرح تیز اور بے تکان جاتا ہے۔ دوسری روایت میں ہے۔ آپ ننگی پیٹھ پر سوار ہوئے۔ آپ کے گلے میں تلوار پڑی تھی۔ آپ اکیلے اسی طرف تشریف لے گئے جدھر سے مدینہ والوں نے آواز سنی تھی۔ سبحان اللہ! آنحضرت ﷺ کی شجاعت اس واقعہ سے معلوم ہوتی ہے کہ اکیلے تنہا دشمن کی خبر لینے کو تشریف لے گئے۔ سخاوت ایسی کہ کسی مانگنے والے کا سوال رد نہ کرتے۔ شرم اور حیا اور مروت ایسی کہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ۔ عفت ایسی کہ کبھی بدکاری کے پاس تک نہ پھٹکے، حسن اور جمال ایسا کہ سارے عرب میں کوئی آپ کا نظیر نہ تھا۔ نفاست اور نظافت ایسی کہ جدھر سے نکل جاتے، درودیوار معطر ہوجاتے۔ حسن خلق ایسا کہ دس برس تک حضرت انس ؓ خدمت میں رہے کبھی ان کو جھڑکا تک نہیں۔ عدل اور انصاف ایسا کہ اپنے سگے چچا کی بھی کوئی رعایت نہ کی۔ فرمایا اگر فاطمہ ؓ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کٹواڈالوں، عبادت اور ریاضت ایسی کہ نماز پڑھتے پڑھتے پاؤںمیں ورم آگیا۔ بے طمعی ایسی کہ لاکھ روپے آئے، سب مسجد نبوی میں ڈلوادئیے اور اسی وقت بٹوادئیے۔ صبر وقناعت ایسی کہ دو دو مہینے تک چولہا گرم نہ ہوتا۔ جو کی سوکھی روٹی اور کھجور پر اکتفاءکرتے۔ کبھی دو دو تین تین فاقے ہوتے۔ ننگے بوریے پر لیٹتے۔ بدن پر نشان پڑجاتا مگر اللہ کے شکر گزار اور خوش و خرم رہتے۔ حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔ کیا ان سب امور کے بعد کوئی احمق سے احمق بھی آپ کی نبوت اور پیغمبری میں شک کرسکتا ہے؟ صلی اللہ علیه وعلی آله و أصحابه وسلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Once the people of Madinah were frightened, so the Prophet (ﷺ) borrowed a horse from Abu Talha called Al-Mandub, and rode it. When he came back he said, "We have not seen anything (to be afraid of), but the horse was very fast (having an energy as inexhaustible as the water of the sea)."