باب : جو اپنے تئیں چھپا کر گواہ بنا ہو اس کی گواہی درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The witness of an eavesdropper)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عمرو بن حریث ؓ نے اس کو جائز کہا ہے اور فرمایا کہ جھوٹے بے ایمان کے ساتھ ایسی صورت اختیار کی جاسکتی ہے ۔ شعبی ، ابن سیرین ، عطاء اور قتادہ نے کہا کہ جو کوئی کسی سے کوئی بات سنے تو اس پر گواہی دے سکتا ہے گو وہ اس کو گواہ نہ بنائے اور حسن بصرینے کہا کہ اسے اس طرح کہنا چاہئے کہ اگرچہ ان لوگوں نے مجھے گواہ نہیں بنایا لیکن میں نے اس طرح سے سنا ہے ۔ تشریح : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓا پر تہمت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک مشہور ترین حادثہ ہے۔ جس میں آنحضرت ﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ اور بہت سے اکابر صحابہ کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر اس بارے میں سورۃ نور نازل ہوئی اور اللہ پاک نے حضرت عائشہ ؓ کی پاک دامنی ظاہر کرنے کے سلسلے میں کئی شاندار بیانات دئیے۔ امام بخاری نے مطلب باب اس سے نکالا کہ حضرت اسامہ نے حضرت عائشہ ؓ کی تعدیل ان لفظوں میں بیان کی جو مقصد باب ہیں۔ اس الزام کا بانی عبداللہ بن ابی منافق مردود تھا۔ جو اسلام سے دل میں سخت کینہ رکھتا تھا۔ الزام ایک نہایت ہی پاک دامن صحابی صفوان بن معطل کے ساتھ لگایا تھا جو نہایت نیک صالح اور مرد عفیف تھا۔ یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔ حدیث افک کی اور تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
2639.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت رفاعہ قرضی ؓ کی بیوی نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی۔ میں حضرت رفاعہ ؓ کے نکاح میں تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر بالکل فارغ کردیا ہے۔ اس کے بعد میں نے حضرت عبد الرحمٰن بن زبیر ؓ سے نکاح کر لیا ہے۔ وہ تو یوں ہی ہے کیونکہ اس کے پاس تو کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے (میری جنسی خواہش پوری نہیں کر سکتا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تو رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہے؟یہ نہیں ہو سکتا حتی کہ تو اس کا مزہ چکھے اور وہ تیرامزہ چکھے۔‘‘ حضرت ابو بکر ؓ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب کہ خالد بن سعید بن عاص ؓ دروازے کے پاس اجازت کے منتظر تھے۔ انھوں نے کہا: ابو بکر ؓ! آپ اس عورت کی خرافات سن رہے ہیں، جو نبی ﷺ کے سامنے زور زور سے کہہ رہی ہے؟
تشریح:
(1) اس خاتون کا نام تمیمہ بنت وہب تھا جو پہلے حضرت رفاعہ بن سموال ؓ کے نکاح میں تھیں، انہوں نے قطعی طلاق دے کر اسے اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا۔ اس نے دوسرا نکاح حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر ؓ سے کیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس کے نامرد ہونے کی شکایت بڑے واشگاف اور صاف الفاظ میں کی۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ کو قرائن سے پتہ چلا کہ یہ میری شکایت کرے گی تو وہ اپنے دو صاجزادوں کو ساتھ لائے جو پہلی بیوی کے بطن سے تھے اور کھلے الفاظ میں اس کے موقف کی تردید کی۔ (2) حضرت خالد بن سعید ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑے عورت کی ناشائستہ گفتگو سن رہے تھے۔ انہوں نے عورت کی محض آواز سن کر اس کا نوٹس لیا اور حضرت ابوبکر ؓ کو اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر کسی قسم کا انکار نہیں کیا، لہذا حضرت خالد ؓ چھپنے والے کی طرح ہوئے جنہوں نے محض آواز سن کو گواہی دی۔ (3) دراصل وہ عورت اپنے دوسرے شوہر پر نامردی کا الزام لگا کر اس سے چھٹکارا پا کر پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے ارادے کو بھانپ لیا اور فرمایا: ’’ایسا نہیں ہو سکتا، تجھے اسی خاوند کے پاس رہنا ہو گا۔‘‘ اس نے بھی عورت کی شکایت کا دو ٹوک الفاظ میں دندان شکن جواب دیا، کوئی لگی لپٹی بات نہیں کی بلکہ واضح الفاظ میں عورت کے دعوے کی تردید کی۔ اس کی تفصیل ہم کتاب اللباس، حدیث: 5825 کے تحت بیان کریں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2547
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2639
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2639
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2639
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اگر کسی نے ایک آدمی کا قرض دینا ہے، وہ بظاہر اس کا اقرار نہیں کرتا، قرض خواہ اسے کسی تنہائی کے مقام پر لے جاتا ہے جہاں ایک آدمی چھپا ہوا ہے، وہاں وہ مقروض اپنے قرض کا اقرار کرتا ہے اور چھپ کر بیٹھنے والا شخص اس اقرار کو سن لیتا ہے، ایسے شخص کی گواہی معتبر ہے یا نہیں؟ یعنی کیا شہادت میں صرف سننا کافی ہے یا جس سے سنا گیا ہو اسے دیکھنا بھی ضروری ہے؟ مصنف ابن ابی شیبہ (7/475) میں ہے کہ قاضی شریح چھپ کر بات سننے والے کی گواہی قبول نہیں کرتے تھے، البتہ عمرو بن حریث اسے جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ خیانت پیشہ ظالم کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے گا۔ اس کے بغیر وہ قانون کی زد میں نہیں آ سکتا۔ عمرو بن حریث کے اثر کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی:10/251) امام شعبی رحمہ اللہ وغیرہ کے آثار کے لیے دیکھیے: (تغلیق التعلیق، لابن حجر: 3/347، 375) امام حسن بصری رحمہ اللہ کے اثر کو بھی امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:7/474) فرماتے ہیں: اگر کوئی کسی سے بات سنے تو قاضی کے پاس آئے اور کہے کہ اگرچہ مجھے گواہ نہیں بنایا گیا، تاہم میں نے یہ سنا ہے۔ یہ تفصیل اچھی ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ) "تم گواہی مت چھپاؤ۔" (فتح الباری:5/309)
اور عمرو بن حریث ؓ نے اس کو جائز کہا ہے اور فرمایا کہ جھوٹے بے ایمان کے ساتھ ایسی صورت اختیار کی جاسکتی ہے ۔ شعبی ، ابن سیرین ، عطاء اور قتادہ نے کہا کہ جو کوئی کسی سے کوئی بات سنے تو اس پر گواہی دے سکتا ہے گو وہ اس کو گواہ نہ بنائے اور حسن بصرینے کہا کہ اسے اس طرح کہنا چاہئے کہ اگرچہ ان لوگوں نے مجھے گواہ نہیں بنایا لیکن میں نے اس طرح سے سنا ہے ۔ تشریح : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓا پر تہمت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک مشہور ترین حادثہ ہے۔ جس میں آنحضرت ﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ اور بہت سے اکابر صحابہ کو بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر اس بارے میں سورۃ نور نازل ہوئی اور اللہ پاک نے حضرت عائشہ ؓ کی پاک دامنی ظاہر کرنے کے سلسلے میں کئی شاندار بیانات دئیے۔ امام بخاری نے مطلب باب اس سے نکالا کہ حضرت اسامہ نے حضرت عائشہ ؓ کی تعدیل ان لفظوں میں بیان کی جو مقصد باب ہیں۔ اس الزام کا بانی عبداللہ بن ابی منافق مردود تھا۔ جو اسلام سے دل میں سخت کینہ رکھتا تھا۔ الزام ایک نہایت ہی پاک دامن صحابی صفوان بن معطل کے ساتھ لگایا تھا جو نہایت نیک صالح اور مرد عفیف تھا۔ یہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔ حدیث افک کی اور تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت رفاعہ قرضی ؓ کی بیوی نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی۔ میں حضرت رفاعہ ؓ کے نکاح میں تھی۔ اس نے مجھے طلاق دے کر بالکل فارغ کردیا ہے۔ اس کے بعد میں نے حضرت عبد الرحمٰن بن زبیر ؓ سے نکاح کر لیا ہے۔ وہ تو یوں ہی ہے کیونکہ اس کے پاس تو کپڑے کے پھندنے کی طرح ہے (میری جنسی خواہش پوری نہیں کر سکتا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تو رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہے؟یہ نہیں ہو سکتا حتی کہ تو اس کا مزہ چکھے اور وہ تیرامزہ چکھے۔‘‘ حضرت ابو بکر ؓ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب کہ خالد بن سعید بن عاص ؓ دروازے کے پاس اجازت کے منتظر تھے۔ انھوں نے کہا: ابو بکر ؓ! آپ اس عورت کی خرافات سن رہے ہیں، جو نبی ﷺ کے سامنے زور زور سے کہہ رہی ہے؟
حدیث حاشیہ:
(1) اس خاتون کا نام تمیمہ بنت وہب تھا جو پہلے حضرت رفاعہ بن سموال ؓ کے نکاح میں تھیں، انہوں نے قطعی طلاق دے کر اسے اپنی زوجیت سے فارغ کر دیا۔ اس نے دوسرا نکاح حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر ؓ سے کیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس کے نامرد ہونے کی شکایت بڑے واشگاف اور صاف الفاظ میں کی۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ کو قرائن سے پتہ چلا کہ یہ میری شکایت کرے گی تو وہ اپنے دو صاجزادوں کو ساتھ لائے جو پہلی بیوی کے بطن سے تھے اور کھلے الفاظ میں اس کے موقف کی تردید کی۔ (2) حضرت خالد بن سعید ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑے عورت کی ناشائستہ گفتگو سن رہے تھے۔ انہوں نے عورت کی محض آواز سن کر اس کا نوٹس لیا اور حضرت ابوبکر ؓ کو اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر کسی قسم کا انکار نہیں کیا، لہذا حضرت خالد ؓ چھپنے والے کی طرح ہوئے جنہوں نے محض آواز سن کو گواہی دی۔ (3) دراصل وہ عورت اپنے دوسرے شوہر پر نامردی کا الزام لگا کر اس سے چھٹکارا پا کر پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے ارادے کو بھانپ لیا اور فرمایا: ’’ایسا نہیں ہو سکتا، تجھے اسی خاوند کے پاس رہنا ہو گا۔‘‘ اس نے بھی عورت کی شکایت کا دو ٹوک الفاظ میں دندان شکن جواب دیا، کوئی لگی لپٹی بات نہیں کی بلکہ واضح الفاظ میں عورت کے دعوے کی تردید کی۔ اس کی تفصیل ہم کتاب اللباس، حدیث: 5825 کے تحت بیان کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
عمرو بن حریث نے چھپ کر بات سننے یا واقعہ دیکھنے والے کی گواہی کو جائز قراردیا ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ خائن اور فاجرآدمی کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا جائے۔ امام شعبی ابن سیرین ، عطاء اور قتادہ نے کہا: سن لینا بھی گواہی ہے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں۔ لوگوں نے مجھے کسی چیز پر گواہ تو نہیں بنایا، البتہ میں نے ایسا، ایسا سنا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا زہری سے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ رفاعہ قرظی ؓ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کی نکاح میں تھی ۔ پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق دے دی ۔ پھر میں نے عبدالرحمن بن زبیر ؓ سے شادی کرلی ۔ لیکن ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت کیا کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے لیکن تو اس وقت تک ان سے اب شادی نہیں کرسکتی جب تک تو عبدالرحمن بن زبیر کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں ۔ اس وقت ابوبکر ؓ خدمت نبوی میں موجود تھے اور خالد بن سعید بن عاص ؓ دروازے پر اپنے لیے (اندر آنے کی) اجازت کا انتظار کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا ، ابوبکر ! کیا اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم ﷺ کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کہہ رہی ہے ۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒنے یہیں سے یہ نکالا کہ چھپ کر گواہ بننا درست ہے۔ کیوں کہ خالد دروازے کے باہر تھے۔ عورت کے سامنے نہ تھے۔ باوجود اس کے خالد نے ایک قول کی نسبت اس عورت کی طرف کی اور آنحضرت ﷺ نے خالد پر اعتراض نہیں کیا۔ عبدالرحمن بن زبیر ؓصاحب اولاد تھے مگر اس وقت شاید وہ مریض ہوں.... اسی وجہ سے اس عورت نے اس کو کپڑے کی گانٹھ سے تعبیر کیا جس میں کچھ بھی حرکت نہیں ہوتی، یعنی وہ جماع نہیں کرسکتے۔ مگر حضرت ابن زبیر ؓنے عورت کے اس بیان کی تردید کی تھی۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب تک مطلقہ عورت از خود کسی دوسرے مرد کے نکاح میں جاکر اس سے جماع نہ کرائے اور وہ خود اس کو طلاق نہ دے دے وہ پہلے خاوند کے نکاح میں دوبارہ نہیں جاسکتی۔ فرضی حلالہ کرانے والوں پر لعنت آئی ہے۔ جیسا کہ فقہائے حنفیہ کے ہاں رواج ہے کہ وہ تین طلاق والی عورت کو فرضی حلالہ کرانے کا فتویٰ دیا کرتے ہیں، جو باعث لعنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): The wife of Rifa'a Al-Qurazi came to the Prophet (ﷺ) and said, "I was Rifa'a's wife, but he divorced me and it was a final irrevocable divorce. Then I married AbdurRahman bin Az-Zubair but he is impotent." The Prophet (ﷺ) asked her 'Do you want to remarry Rifa'a? You cannot unless you had a complete sexual relation with your present husband." Abu Bakr (RA) was sitting with Allah's Apostle (ﷺ) and Khalid bin Said bin Al-'As was at the door waiting to be admitted. He said, "O Abu Bakr! Do you hear what this (woman) is revealing frankly before the Prophet (ﷺ) ?"