Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The just witnesses)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ طلاق میں فرمایا کہ ” اپنے میں سے دو عادل آدمیوں کو گواہ بنالو “ ۔ اور ( اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ ) ” گواہوں میں سے جنہیں تم پسند کرو “ ۔
2641.
حضرت عبد اللہ بن عتبہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں لوگوں سے وحی کی بنیاد پر باز پرس ہوتی تھی۔ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ لہٰذا اب ہم تمھارا مؤاخذہ تمھارے ظاہری اعمال پر کریں گے۔ جو کوئی بظاہر اچھا کام کرے گا، ہم اس پر اعتماد کریں گے اور اپنا ساتھی بنائیں گے۔ ہمیں اس کی دل کی بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہو گی کیونکہ دل کی باتوں کا اللہ تعالیٰ محاسبہ کرنے والا ہے۔ اور جس نے بظاہر کوئی براکام کیا تو ہم اس پر نہ بھروسا کریں گے اور نہ اسے سچا ہی قرار دیں گےاگرچہ وہ دعویٰ کرے کہ اس کا باطن عمدہ اور اچھا ہے۔
تشریح:
(1) اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ قبول شہادت کے لیے عدالت شرط ہے، البتہ صفتِ عدالت میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ عدالت میں انسان کے ظاہر کو دیکھا جائے گا بشرطیکہ اس کا کوئی عیب مشہور نہ ہو، باطنی معاملات پر عدالت کا دارومدار ہرگز نہیں۔ اس سلسلے میں جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ عدالت، اسلام کے علاوہ ایک سے زائد صفات کا نام ہے، یعنی وہ شرعی احکام کا پابند ہو، مستحبات پر عمل کرنے والا ہو، نیز شریعت کے ناپسندیدہ اور حرام کاموں سے بچنے والا ہو۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق ایک مسلمان کے لیے عدالت کی یہ شرط کافی ہے کہ اس کے ظاہر کو دیکھا جائے اس کے باطن کی کھوج نہ لگائی جائے۔ (3) حضرت مالک بن دخیشن ؓ کا ظاہری چال چلن نفاق پر مبنی تھا لیکن وحی نے ان کے ظاہر کی تردید کر کے ان کے ایمان کی تصدیق کر دی۔ اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، اس لیے فیصلہ کرتے وقت ظاہر کو دیکھا جائے گا۔ گواہ بظاہر اچھا ہے تو اس کے بیان کو تسلیم کیا جائے گا اور اگر ظاہر میں برا ہے تو اس کی گواہی رد کر دی جائے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2549
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2641
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2641
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2641
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
عادل گواہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آدمی معقول اور سنجیدہ ہو، نیز مسلم معاشرے میں لوگوں کے ہاں اس کی اچھی شہرت ہو۔ کم از کم وہ برے کام نہ کرتا ہو اور نہ پیشہ وارانہ گواہی دینے کا عادی ہی ہو۔ عدول کی شرائط میں مسلمان ہونا اور مسلمانوں کے ہاں پسندیدہ ہونا بھی ضروری ہے۔ ان دو آیتوں میں گواہوں کے عادل ہونے اور عدالت کی شرائط کو بیان کیا گیا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ طلاق میں فرمایا کہ ” اپنے میں سے دو عادل آدمیوں کو گواہ بنالو “ ۔ اور ( اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ ) ” گواہوں میں سے جنہیں تم پسند کرو “ ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عتبہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں لوگوں سے وحی کی بنیاد پر باز پرس ہوتی تھی۔ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے۔ لہٰذا اب ہم تمھارا مؤاخذہ تمھارے ظاہری اعمال پر کریں گے۔ جو کوئی بظاہر اچھا کام کرے گا، ہم اس پر اعتماد کریں گے اور اپنا ساتھی بنائیں گے۔ ہمیں اس کی دل کی بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہو گی کیونکہ دل کی باتوں کا اللہ تعالیٰ محاسبہ کرنے والا ہے۔ اور جس نے بظاہر کوئی براکام کیا تو ہم اس پر نہ بھروسا کریں گے اور نہ اسے سچا ہی قرار دیں گےاگرچہ وہ دعویٰ کرے کہ اس کا باطن عمدہ اور اچھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ قبول شہادت کے لیے عدالت شرط ہے، البتہ صفتِ عدالت میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ عدالت میں انسان کے ظاہر کو دیکھا جائے گا بشرطیکہ اس کا کوئی عیب مشہور نہ ہو، باطنی معاملات پر عدالت کا دارومدار ہرگز نہیں۔ اس سلسلے میں جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ عدالت، اسلام کے علاوہ ایک سے زائد صفات کا نام ہے، یعنی وہ شرعی احکام کا پابند ہو، مستحبات پر عمل کرنے والا ہو، نیز شریعت کے ناپسندیدہ اور حرام کاموں سے بچنے والا ہو۔ (2) ہمارے رجحان کے مطابق ایک مسلمان کے لیے عدالت کی یہ شرط کافی ہے کہ اس کے ظاہر کو دیکھا جائے اس کے باطن کی کھوج نہ لگائی جائے۔ (3) حضرت مالک بن دخیشن ؓ کا ظاہری چال چلن نفاق پر مبنی تھا لیکن وحی نے ان کے ظاہر کی تردید کر کے ان کے ایمان کی تصدیق کر دی۔ اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے، اس لیے فیصلہ کرتے وقت ظاہر کو دیکھا جائے گا۔ گواہ بظاہر اچھا ہے تو اس کے بیان کو تسلیم کیا جائے گا اور اگر ظاہر میں برا ہے تو اس کی گواہی رد کر دی جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے میں سے دو معتبر آدمیوں کو گواہ کر لو۔ "نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "جن گواہوں کو تم پسند کرتے ہو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے ، کہا کہ مجھ سے حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے بیان کیا ، ان سے عبداللہ بن عتبہ نے اور انہوں نے عمر بن خطاب ؓ سے سنا ۔ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہو جاتا تھا ۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا اور ہم صرف انہیں امور میں مواخذہ کریں گے جو تمہارے عمل سے ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے ۔ اس لیے جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا ، ہم اسے امن دیں گے اور اپنے قریب رکھیں گے ۔ اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہوگا ۔ اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے خواہ وہ یہی کہتا رہے کہ اس کا باطن اچھا ہے ۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ کے قول سے ان بیوقوفوں کا رد ہوا جو ایک بدکار فاسق کو درویش اور ولی سمجھیں اور یہ دعویٰ کریں کہ ظاہری اعمال سے کیا ہوتا ہے، دل اچھا ہونا چاہئے۔ کہو، جب حضرت عمر ؓ ایسے شخص کو دل کا حال معلوم نہیں ہوسکتا تھا تو تم بے چارے کس باغ کی مولی ہو۔ دل کا حال بجز اللہ کریم کے کوئی نہیں جانتا۔ پیغمبر صاحب کو بھی اس کا علم وحی یعنی اللہ کے بتلانے سے ہوتا۔ حضرت عمر ؓ نے قاعدہ بیان کیا کہ ظاہر کی رو سے جس کے اعمال شرع کے موافق ہوں اس کو اچھا سمجھو اور جس کے اعمال شرع کے خلاف ہوں ان کو برا سمجھو۔ اب اگر اس کا دل بالفرض اچھا بھی ہوگا جب بھی ہم اس کے برا سمجھنے میں کوئی مواخذہ وار نہ ہوں گے کیوں کہ ہم نے شریعت کے قاعدے پر عمل کیا۔ البتہ ہم اگر اس کو اچھا سمجھیں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ (وحیدی) ترجمہ باب اس سے نکلا کہ فاسق بدکار کی بات نہ مانی جائے گی یعنی اس کی شہادت مقبول نہ ہوگی۔ معلوم ہوا کہ شاہد کے لیے عدالت ضروری ہے۔ عدالت سے مراد یہ ہے کہ مسلمان آزاد، عاقل، بالغ، نیک ہو، تو کافر یا غلام یا مجنون یا نابالغ یا فاسق کی گواہی مقبول نہ ہوگی۔ (وحیدی) یہ بھی مقصد ہے کہ عادل گواہ کے ظاہری حالات کا درست ہونا ضروری ہے ورنہ اس کو عادل نہ مانا جائے گا۔ اسلام کا فتویٰ ظاہری حالت پر ہے۔ باطن اللہ کے حوالہ ہے۔ اس میں ان نام نہاد صوفیوں کی بھی تردید ہے جن کا ظاہر سراسر خلاف شرع ہوتا ہے اور باطن میں وہ ایمان دار عاشق خدا و رسول بنتے ہیں۔ ایسے مکار نام نہاد صوفیوں نے ایک خلقت کو گمراہ کررکھا ہے۔ ان میں سے بعض تو اتنے بے حیا واقع ہوئے ہیں کہ نماز روزہ کی کھلے لفظوں میں تحقیر کرتے ہیں، علماءکی برائیاں کرتے ہیں، شریعت اور طریقت کو الگ الگ بتلاتے ہیں۔ ایسے لوگ سراسر گمراہ ہیں۔ ہرگز ہرگز قابل قبولیت نہیں ہیں بلکہ وہ خود گمراہ اور مخلوق کے گمراہ کرنے والے ہیں۔ حضرت جنید بغدادی ؒ کا مشہور قول ہے کہ کل حقیقة لایشهد له الشرع فهو زندقة۔ ہر وہ حقیقت جس کی شہادت شریعت سے نہ ملے وہ بددینی اور بے ایمانی اور زندیقیت ہے۔نعوذ باﷲ من شرور أنفسنا ومن سیآت أعمالنا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Al-Khattab (RA): People were (sometimes) judged by the revealing of a Divine Inspiration during the lifetime of Allah's Apostle (ﷺ) but now there is no longer any more (new revelation). Now we judge you by the deeds you practice publicly, so we will trust and favor the one who does good deeds in front of us, and we will not call him to account about what he is really doing in secret, for Allah will judge him for that; but we will not trust or believe the one who presents to us with an evil deed even if he claims that his intentions were good.