باب : نسب اور رضاعت میں جو مشہور ہو ، اسی طرح پرانی موت پر گواہی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: To give witness concerning lineage, foster suckling relations and dead persons)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اور ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کو ثوب یہ ( ابولہب کی باندی ) نے دودھ پلایا تھا ۔ اور رضاعت میں احتیاط کرنا ۔ تشریح : یعنی جب تک رضاعت اچھی طرح ثابت نہ ہو سنی سنائی بات پر عمل نہ کرنا۔ مقصود امام بخاری کا اشارہ ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف جو آگے اس کتاب میں مذکور ہے کہ سوچ سمجھ کر کسی کو اپنا رضائی بھائی قرار دو۔ منعقدہ باب کے جملہ مضامین سے مطلب امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ ان چیزوں میں صرف بر بنائے شہرت شہادت دینا درست ہے گو گواہ نے اپنی آنکھ سے ان واقعات کو نہ دیکھا ہو۔ پرانی موت سے مراد یہ ہے کہ اس کو چالیس یا پچاس برس گزرچکے ہوں۔
2644.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت افلح ؓ نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے اسے اجازت نہ دی۔ وہ کہنے لگے۔ تم مجھ سے پردہ کرتی ہو، حالانکہ میں تو تمھارا چچا ہوں۔ میں نے کہا: وہ کیسے ؟ انھوں نے کہا: میرے بھائی کی بیوی نےتمھیں دودھ پلایا ہے وہ دودھ میرے بھائی کی وجہ سے تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا: میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپنے فرمایا: ’’افلح سچ کہتا ہے (اسے اندر آنے کی) اجازت دو۔‘‘
تشریح:
(1) عرب معاشرے میں رضاعت کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ اسلامی شریعت نے اسے برقرار رکھا۔ محرمات نکاح میں اس کا عمل دخل تسلیم کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں وہ رضاعت کے تعلق کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں، اسی طرح جو رشتے نسب کے باعث محرم ہیں وہ رضاعت کے تعلق سے بھی محرم بن جاتے ہیں۔‘‘ حضرت افلح ؓ بھی اسی تعلق کی وجہ سے حضرت عائشہ ؓ کے چچا تھے۔ اس سلسلے میں مشہور ہونے کی وجہ سے صرف اکیلے افلح کے کہنے کا اعتبار کر لیا گیا۔ (2) رضاعت جو زمانۂ جاہلیت میں تھی اور وہاں کے لوگوں میں مشہور تھا کہ فلاں نے فلاں کا دودھ پیا ہے تو اس قسم کی رضاعت پر شرعی احکام جاری ہوئے۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محرم کو بھی اندر آنے کے لیے اجازت لینا ضروری ہے کیونکہ شاید محرمہ ایسی حالت میں ہو کہ محرم کو دیکھنا ایسی حالت میں جائز نہ ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2552
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2644
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2644
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2644
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ مشہور و معروف ہونے کی وجہ سے مذکورہ چیزوں کے متعلق گواہی دینا درست ہے اگرچہ گواہی دینے والے نے بچشم خود ان واقعات کو نہ دیکھا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،النکاح،حدیث:5101)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اور ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کو ثوب یہ ( ابولہب کی باندی ) نے دودھ پلایا تھا ۔ اور رضاعت میں احتیاط کرنا ۔ تشریح : یعنی جب تک رضاعت اچھی طرح ثابت نہ ہو سنی سنائی بات پر عمل نہ کرنا۔ مقصود امام بخاری کا اشارہ ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف جو آگے اس کتاب میں مذکور ہے کہ سوچ سمجھ کر کسی کو اپنا رضائی بھائی قرار دو۔ منعقدہ باب کے جملہ مضامین سے مطلب امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ ان چیزوں میں صرف بر بنائے شہرت شہادت دینا درست ہے گو گواہ نے اپنی آنکھ سے ان واقعات کو نہ دیکھا ہو۔ پرانی موت سے مراد یہ ہے کہ اس کو چالیس یا پچاس برس گزرچکے ہوں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت افلح ؓ نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو میں نے اسے اجازت نہ دی۔ وہ کہنے لگے۔ تم مجھ سے پردہ کرتی ہو، حالانکہ میں تو تمھارا چچا ہوں۔ میں نے کہا: وہ کیسے ؟ انھوں نے کہا: میرے بھائی کی بیوی نےتمھیں دودھ پلایا ہے وہ دودھ میرے بھائی کی وجہ سے تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا: میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپنے فرمایا: ’’افلح سچ کہتا ہے (اسے اندر آنے کی) اجازت دو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) عرب معاشرے میں رضاعت کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ اسلامی شریعت نے اسے برقرار رکھا۔ محرمات نکاح میں اس کا عمل دخل تسلیم کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں وہ رضاعت کے تعلق کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں، اسی طرح جو رشتے نسب کے باعث محرم ہیں وہ رضاعت کے تعلق سے بھی محرم بن جاتے ہیں۔‘‘ حضرت افلح ؓ بھی اسی تعلق کی وجہ سے حضرت عائشہ ؓ کے چچا تھے۔ اس سلسلے میں مشہور ہونے کی وجہ سے صرف اکیلے افلح کے کہنے کا اعتبار کر لیا گیا۔ (2) رضاعت جو زمانۂ جاہلیت میں تھی اور وہاں کے لوگوں میں مشہور تھا کہ فلاں نے فلاں کا دودھ پیا ہے تو اس قسم کی رضاعت پر شرعی احکام جاری ہوئے۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محرم کو بھی اندر آنے کے لیے اجازت لینا ضروری ہے کیونکہ شاید محرمہ ایسی حالت میں ہو کہ محرم کو دیکھنا ایسی حالت میں جائز نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم کو حکم نے خبر دی ، انہیں عراک بن مالک نے ، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ (پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد) افلح ؓ نے مجھ سے (گھر میں آنے کی) اجازت چاہی تو میں نے ان کو اجازت نہیں دی ۔ وہ بولے کہ آپ مجھ سے پردہ کرتی ہیں حالانکہ میں آپ کا (دودھ) کا چچا ہوں ۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ میرے بھائی (وائل) کی عورت نے آپ کو میرے بھائی کا ہی دودھ پلایا تھا ۔ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ افلح نے سچ کہا ہے ۔ انہیں (اندر آنے کی) اجازت دے دیا کرو (ان سے پردہ نہیں ہے)۔
حدیث حاشیہ:
رضاعت میں صرف اکیلے افلح ؓ کی گواہی کو تسلیم کیاگیا، باب کا یہی مقصد ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ گواہ کو پرکھنا بھی ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Aflah asked the permission to visit me but I did not allow him. He said, "Do you veil yourself before me although I am your uncle?" 'Aisha (RA) said, "How is that?" Aflah replied, "You were suckled by my brother's wife with my brother's milk." I asked Allah's Apostle (ﷺ) about it, and he said, "Allah is right, so permit him to visit you."