باب : زنا کی تہمت لگانے والے اور چور اور حرام کار کی گواہی کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The witness of a person falsely accusing somebody of illegal sexual intercourse and the witness of a thief or an adulterer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
تشریح : غرض امام بخاری کی باب اور تفصیلات ذیل سے یہ ہے کہ قاذف اگر توبہ کرے تو آئندہ اس کی گواہی مقبول ہوگی۔ آیت سے یہی نکلتا ہے اور جمہور علماءکا بھی یہی قول ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ توبہ کرنے سے وہ فاسق نہیں رہتا، لیکن اس کی گواہی کبھی مقبول نہ ہوگی۔ بعضوں نے کہا اگر اس کو حد لگ گئی تو گواہی قبول ہوگی حد سے پہلے مقبول نہ ہوگی۔ تفصیلات مذکورہ میں مغیرہ بن شعبہ کوفہ کے حاکم تھے۔ مذکورہ تینوں شخصوں نے ان کی نسبت بیان کیا کہ انہوں نے ام جمیل نامی عورت سے زنا کیا ہے لیکن چوتھے گواہ زیاد نے یہ بیان کیا کہ میں نے دونوں کو ایک چادر میں دیکھا، مغیرہ کی سانس چڑھ رہی تھی، اس سے زیادہ میں نے کچھ نہیں دیکھا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان تینوں کو حد قذف لگائی۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ قاذف کی گواہی قبول نہیں کرتے تھے۔ لیکن نکاح میں قاذف کی شہادت کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ نکاح کا معاملہ بھی کچھ غیراہم نہیں ہے۔ ایک مرد مسلمان کے لیے عمر بھر بلکہ اولاد در اولاد حلال حرام کا سوال ہے۔ لیکن امام صاحب قاذف کی گواہی نکاح میں قبول مانتے ہیں اسی طرح رمضان کے چاند میں بھی قاذف کی شہادت کے قائل ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ ان کا پہلا قول کہ قاذف کی شہادت قابل قبول نہیں وہ قول غلط ہے۔ جس کی غلطی خود ان ہی کے دیگر اقوال صحیحہ سے ہورہی ہے۔ اس باب میں مسلک سلف ہی صحیح اور واجب التسلیم ہے کہ قاذف کی شہادت مقبول ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر سلف کا یہ قول ہے کہ قاذف جب تک اپنے تئیں جھٹلائے نہیں اس کی توبہ صحیح نہ ہوگی۔ اور امام مالک کا قول یہ ہے کہ جب وہ نیک کام زیادہ کرنے لگے تو ہم سمجھ جائیں گے کہ اس نے توبہ کی اب اپنے تئیں جھٹلانا ضروری نہیں۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی روایت غزوہ تبوک میں مذکور ہوگی۔ ان سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ قاذف کو سزا ہوجانا بھی یہی توبہ ہے۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زانی کو اور کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں کو سزا دینے کے بعد توبہ کی تکلیف نہیں دی۔ الفاظ ترجمۃ الباب وقال بعض الناس کے تحت حضرت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ہذا منقول عن الحنفیۃ واحتجوا فی رد شہادۃ المحدود باحادیث قال الحفاظ لا یصح منہا شی الخ یعنی یہاں حنفیہ مراد ہیں جن سے یہ منقول ہے کہ قاذف کی شہادت جائز نہیں اگرچہ اس نے توبہ کرلی ہو اس بارے میں انہوں نے چند احادیث سے استدلال کیا ہے، مگر حفاظ حدیث کا کہنا یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی حدیث جو وہ اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں صحیح نہیں ہے۔ ان میں زیادہ مشہور حدیث عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی ہے۔ جس کے لفظ یہ ہیں۔ لاتجوز شہادۃ خائن ولا خائنۃ ولا محدود فی الاسلام اس حدیث کو ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کے مثل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے لا یصح یعنی یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اور ابوزرع نے اسے منکر کہا ہے۔ (ترجمہ) اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ نور میں ) فرمایا ، اےسے تہمت لگانے والوں کی گواہی کبھی نہ مانو ، یہی لوگ تو بدکار ہیں ، مگر جو توبہ کرلیں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکرہ ، شبل بن معبد ( ان کے ماں جائے بھائی ) اور نافع بن حارث کو حد لگائی مغیرہ پر تہمت رکھنے کی وجہ سے ۔ پھر ان سے توبہ کرائی اور کہا جو کوئی توبہ کرلے اس کی گواہی قبول ہوگی ۔ اور عبداللہ بن عتبہ ، عمر بن عبدالعزیز ، سعید بن جبیر ، طاو¿س ، مجاہد ، شعبی ، عکرمہ ، زہری ، محارب بن دثار ، شریح اور معاو یہ بن قرہ نے بھی توبہ کے بعد اس کی گواہی کو جائز رکھا ہے اور ابوالزناد نے کہا ہمارے نزدیک مدینہ طیبہ میں تو یہ حکم ہے جب قاذف اپنے قول سے پھر جائے اور استغفار کرے تو اس کی گواہی قبول ہوگی اور شعبی اور قتادہ نے کہا جب وہ اپنے تئیں جھٹلائے اور اس کو حد پڑجائے تو اس کی گواہی قبول ہوگی ۔ اور سفیان ثوری نے کہا جب غلام کو حد قذف پڑے اس کے بعد وہ آزاد ہوجائے تو اس کی گواہی قبول ہوگی ۔ اور جس کو حد قذف پڑی ہو اگر وہ قاضی بنایا جائے تو اس کا فیصلہ نافذ ہوگا ۔ اوربعض لوگ ( امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) کہتے ہیں قاذف کی گواہی قبول نہ ہوگی گو وہ توبہ کرلے ۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ بغیر دو گواہوں کے نکاح درست نہیں ہوتا اور اگر حد قذف پڑے ہوئے گواہوں کی گواہی سے نکاح کیا تو نکاح درست ہوگا ۔ اگر دو غلاموں کی گواہی سے کیا تو درست نہ ہوگا اور ان ہی لوگوں نے حد قذف پڑے ہوئے لوگوں کی اور لونڈی غلام کی گواہی رمضان کے چاند کے لیے درست رکھی ہے ۔ اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ قاذف کی توبہ کیوں کر معلوم ہو گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو زانی کو ایک سال کے لیے اخراج کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دو ساتھیوں سے منع کردیا کوئی بات نہ کرے ۔ پچاس راتیں اسی طرح گزریں ۔ ( حالانکہ یہ بھی ایک قسم کی گواہی ہے۔ تو جب محدود فی القذف کی گواہی حنفیہ نے ناجائز رکھی ہے تو اس کو کیو ںجائز رکھتے ہیں )
2649.
حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے غیرشادی شدہ زانی کے متعلق سو کوڑے لگانے اور ایک سال تک ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔
تشریح:
(1) زنا کرنے سے بھی انسان کی عدالت مجروح ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ گواہی کے قابل نہیں رہتا۔ جب اس پر گناہ کی حد لگ جائے تو یہ اس جرم کا کفارہ ہے اور وہ گواہی کے قابل ہو جاتا ہے۔ (2) عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زانی پر صرف حد لگائی ہے کہ اسے سو کوڑے مارے ہیں اور ایک سال کے لیے وطن سے نکال دیا۔ اس کے علاوہ علیحدہ طور پر توبہ وغیرہ کا ذکر احادیث میں منقول نہیں۔ معلوم ہوا کہ ایک سال تک جلا وطن رہنا ہی اس کی توبہ ہے۔ جلا وطن کرنے کا اصل مقصد اس شخص کو ایک سال کے لیے ماحول سے کاٹ دینا ہے، سزا بھگتنے کے بعد اس کی گواہی قبول ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2557
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2649
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2649
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2649
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تشریح : غرض امام بخاری کی باب اور تفصیلات ذیل سے یہ ہے کہ قاذف اگر توبہ کرے تو آئندہ اس کی گواہی مقبول ہوگی۔ آیت سے یہی نکلتا ہے اور جمہور علماءکا بھی یہی قول ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ توبہ کرنے سے وہ فاسق نہیں رہتا، لیکن اس کی گواہی کبھی مقبول نہ ہوگی۔ بعضوں نے کہا اگر اس کو حد لگ گئی تو گواہی قبول ہوگی حد سے پہلے مقبول نہ ہوگی۔ تفصیلات مذکورہ میں مغیرہ بن شعبہ کوفہ کے حاکم تھے۔ مذکورہ تینوں شخصوں نے ان کی نسبت بیان کیا کہ انہوں نے ام جمیل نامی عورت سے زنا کیا ہے لیکن چوتھے گواہ زیاد نے یہ بیان کیا کہ میں نے دونوں کو ایک چادر میں دیکھا، مغیرہ کی سانس چڑھ رہی تھی، اس سے زیادہ میں نے کچھ نہیں دیکھا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان تینوں کو حد قذف لگائی۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ قاذف کی گواہی قبول نہیں کرتے تھے۔ لیکن نکاح میں قاذف کی شہادت کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ نکاح کا معاملہ بھی کچھ غیراہم نہیں ہے۔ ایک مرد مسلمان کے لیے عمر بھر بلکہ اولاد در اولاد حلال حرام کا سوال ہے۔ لیکن امام صاحب قاذف کی گواہی نکاح میں قبول مانتے ہیں اسی طرح رمضان کے چاند میں بھی قاذف کی شہادت کے قائل ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ ان کا پہلا قول کہ قاذف کی شہادت قابل قبول نہیں وہ قول غلط ہے۔ جس کی غلطی خود ان ہی کے دیگر اقوال صحیحہ سے ہورہی ہے۔ اس باب میں مسلک سلف ہی صحیح اور واجب التسلیم ہے کہ قاذف کی شہادت مقبول ہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر سلف کا یہ قول ہے کہ قاذف جب تک اپنے تئیں جھٹلائے نہیں اس کی توبہ صحیح نہ ہوگی۔ اور امام مالک کا قول یہ ہے کہ جب وہ نیک کام زیادہ کرنے لگے تو ہم سمجھ جائیں گے کہ اس نے توبہ کی اب اپنے تئیں جھٹلانا ضروری نہیں۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی روایت غزوہ تبوک میں مذکور ہوگی۔ ان سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ قاذف کو سزا ہوجانا بھی یہی توبہ ہے۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زانی کو اور کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں کو سزا دینے کے بعد توبہ کی تکلیف نہیں دی۔ الفاظ ترجمۃ الباب وقال بعض الناس کے تحت حضرت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ہذا منقول عن الحنفیۃ واحتجوا فی رد شہادۃ المحدود باحادیث قال الحفاظ لا یصح منہا شی الخ یعنی یہاں حنفیہ مراد ہیں جن سے یہ منقول ہے کہ قاذف کی شہادت جائز نہیں اگرچہ اس نے توبہ کرلی ہو اس بارے میں انہوں نے چند احادیث سے استدلال کیا ہے، مگر حفاظ حدیث کا کہنا یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی حدیث جو وہ اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں صحیح نہیں ہے۔ ان میں زیادہ مشہور حدیث عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی ہے۔ جس کے لفظ یہ ہیں۔ لاتجوز شہادۃ خائن ولا خائنۃ ولا محدود فی الاسلام اس حدیث کو ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کے مثل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے لا یصح یعنی یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اور ابوزرع نے اسے منکر کہا ہے۔ (ترجمہ) اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ نور میں ) فرمایا ، اےسے تہمت لگانے والوں کی گواہی کبھی نہ مانو ، یہی لوگ تو بدکار ہیں ، مگر جو توبہ کرلیں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکرہ ، شبل بن معبد ( ان کے ماں جائے بھائی ) اور نافع بن حارث کو حد لگائی مغیرہ پر تہمت رکھنے کی وجہ سے ۔ پھر ان سے توبہ کرائی اور کہا جو کوئی توبہ کرلے اس کی گواہی قبول ہوگی ۔ اور عبداللہ بن عتبہ ، عمر بن عبدالعزیز ، سعید بن جبیر ، طاو¿س ، مجاہد ، شعبی ، عکرمہ ، زہری ، محارب بن دثار ، شریح اور معاو یہ بن قرہ نے بھی توبہ کے بعد اس کی گواہی کو جائز رکھا ہے اور ابوالزناد نے کہا ہمارے نزدیک مدینہ طیبہ میں تو یہ حکم ہے جب قاذف اپنے قول سے پھر جائے اور استغفار کرے تو اس کی گواہی قبول ہوگی اور شعبی اور قتادہ نے کہا جب وہ اپنے تئیں جھٹلائے اور اس کو حد پڑجائے تو اس کی گواہی قبول ہوگی ۔ اور سفیان ثوری نے کہا جب غلام کو حد قذف پڑے اس کے بعد وہ آزاد ہوجائے تو اس کی گواہی قبول ہوگی ۔ اور جس کو حد قذف پڑی ہو اگر وہ قاضی بنایا جائے تو اس کا فیصلہ نافذ ہوگا ۔ اوربعض لوگ ( امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) کہتے ہیں قاذف کی گواہی قبول نہ ہوگی گو وہ توبہ کرلے ۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ بغیر دو گواہوں کے نکاح درست نہیں ہوتا اور اگر حد قذف پڑے ہوئے گواہوں کی گواہی سے نکاح کیا تو نکاح درست ہوگا ۔ اگر دو غلاموں کی گواہی سے کیا تو درست نہ ہوگا اور ان ہی لوگوں نے حد قذف پڑے ہوئے لوگوں کی اور لونڈی غلام کی گواہی رمضان کے چاند کے لیے درست رکھی ہے ۔ اور اس باب میں یہ بیان ہے کہ قاذف کی توبہ کیوں کر معلوم ہو گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو زانی کو ایک سال کے لیے اخراج کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دو ساتھیوں سے منع کردیا کوئی بات نہ کرے ۔ پچاس راتیں اسی طرح گزریں ۔ ( حالانکہ یہ بھی ایک قسم کی گواہی ہے۔ تو جب محدود فی القذف کی گواہی حنفیہ نے ناجائز رکھی ہے تو اس کو کیو ںجائز رکھتے ہیں )
حدیث ترجمہ:
حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے غیرشادی شدہ زانی کے متعلق سو کوڑے لگانے اور ایک سال تک ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) زنا کرنے سے بھی انسان کی عدالت مجروح ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ گواہی کے قابل نہیں رہتا۔ جب اس پر گناہ کی حد لگ جائے تو یہ اس جرم کا کفارہ ہے اور وہ گواہی کے قابل ہو جاتا ہے۔ (2) عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زانی پر صرف حد لگائی ہے کہ اسے سو کوڑے مارے ہیں اور ایک سال کے لیے وطن سے نکال دیا۔ اس کے علاوہ علیحدہ طور پر توبہ وغیرہ کا ذکر احادیث میں منقول نہیں۔ معلوم ہوا کہ ایک سال تک جلا وطن رہنا ہی اس کی توبہ ہے۔ جلا وطن کرنے کا اصل مقصد اس شخص کو ایک سال کے لیے ماحول سے کاٹ دینا ہے، سزا بھگتنے کے بعد اس کی گواہی قبول ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ایسے تہمت لگانے والوں کی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور یہی لوگ تو بد کار ہیں مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور(اپنی)اصلاح کرلیں۔ "حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شبل بن معبد اور نافع بن حارث کو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تہمت لگانے کی بنا پر حد لگائی۔ پھر ان سے توبہ کرائی اور فرمایا: جو کوئی توبہ کر لے گا تو میں اس کی گواہی قبول کر لوں گا۔حضرت عبد اللہ بن عتبہ عمر بن عبد العزیز ، سعید بن جبیر ، حضرت طاؤس ، امام مجاہد ، امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت عکرمہ ، امام زہری جناب محارب بن دثار، قاضی شریح اور معاویہ بن قرہ نے بھی توبہ کے بعد تہمت لگانے والے کی گواہی کو جائز قراردیا ہے،ابو زناد بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں مدینہ طیبہ میں یہ فتوی ہے کہ جب قاذف اپنے قول سے رجوع کر لے اور اپنے رب سے استغفار کر لے تو اس کی گواہی قبول ہو گی۔حضرت شعبی اور قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: جب تہمت لگانے والا خودکو جھٹلادے اور اس کو کوڑےلگادیے جائیں تو اس کے بعد اس کی گواہی قبول ہو گی۔حضرت سفیان ثوری نے کہا: جب غلام کو کوڑے لگ جائیں اور اس کے بعد وہ آزاد ہو جائے تو اس کی گواہی قبول ہو گی۔ اور جس شخص کو حد قذف لگی ہواگروہ قاضی بنا دیا جائے تو اس کے فیصلےجائز ہوں گے۔
بعض لوگ کہتے ہیں: تہمت لگانے والے کی گواہی قبول نہیں ہوگی اگرچہ وہ توبہ کرلے۔ پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ دو گواہوں کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا۔ اور اگر کسی نے حد قذف لگے ہوئے گواہوں کی گواہی کی بنا پر نکاح کیا تو نکاح درست ہوگا۔ اگر نکاح دو غلاموں کی گواہی سے کیا تو درست نہ ہوگا۔ ان حضرات نے ان لوگوں کی گواہی جن پر حد جاری ہو چکی ہو اور لونڈی، غلام کی گواہی سے رؤیت ہلال کو درست قرار دیا ہے۔ نیز (اس عنوان میں یہ بیان ہو گا کہ)قاذف کی توبہ کیسے معلوم ہو گی؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے توزانی کو ایک سال کے لیے جلاوطن کیا تھا۔ اس کے علاوہ نبی ﷺنے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے دونوں ساتھیوں سے کلام کرنے سے پچاس راتوں کے لیے لوگوں کو روک دیا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا عقیل سے ، وہ ابن شہاب سے ، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور ان سے زید بن خالد ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے لیے جو شادی شدہ نہ ہوں اور زنا کریں۔ یہ حکم دیا تھا کہ انہیں سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کامقصد اس روایت کے لانے سے یہ ہے کہ جب حدیث میں غیر محصن کی سزا یہی مذکور ہوئی کہ سوکوڑے مارو اور ایک سال کے لیے جلاوطن کرو اور توبہ کا علحدہ ذکر نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا ایک سال تک بے وطن رہنا یہی توبہ ہے۔ اس کے بعد اس کی شہادت قبول ہوگی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Khalid (RA): Allah's Apostle (ﷺ) ordered that an unmarried man who committed illegal sexual intercourse be scourged one hundred lashes and sent into exile for one year.