باب : اگر ظلم کی بات پر لوگ گواہ بننا چاہیں تو گواہ نہ بنے
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: Do not be a witness for injustice, if asked for that)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2650.
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میری والدہ نے میرے باپ سے میرے لیے کچھ مال ہبہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ والد نے کچھ سوچ و بچار کے بعد اسے میرے لیے کچھ مال دے دیا۔ پھر والدہ نے کہا: جب تک نبی ﷺ کو اس بات پر گواہ نہ کرلو میں راضی نہیں، چنانچہ میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا کیونکہ میں اس وقت کمسن بچہ تھا۔ اور مجھے نبی ﷺ کے پاس لے آئے اور عرض کیا: اس لڑکے کی ماں بنت رواحہ نے اس کے لیے مجھ سے ہبہ کا مطالبہ کیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ’’ کیا اس کے علاوہ تمھاری اور اولاد بھی ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں!حضرت نعمان ؓ کہتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اس ظلم پر گواہ نہ بناؤ۔‘‘ ابو حریز کی شعبی سے بیان کردہ روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔‘‘
تشریح:
(1) بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے پر ظلم کرتا ہے یا کسی کا حق مارتا ہے، پھر وہ اپنی زیادتی پر کسی کی تائید بھی حاصل کرنا چاہتا ہے، کچھ احباب اس مقصد کے لیے تیار بھی ہو جاتے ہیں۔ ایسا کرنا خود ایک زیادتی اور جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ظالم کے حق میں ہرگز گواہی نہ دے بصورت دیگر وہ بھی اس گناہ میں شریک ہو جائے گا۔ (2) ہبہ کے معاملے میں تمام بچوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا ایک ناپسندیدہ عمل ہے جس کی مذکورہ حدیث سے ممانعت ثابت ہے۔ ابو حریز کی روایت کو امام ابن حبان ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح ابن حبان(ابن بلبان):11/506)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2558
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2650
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2650
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2650
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میری والدہ نے میرے باپ سے میرے لیے کچھ مال ہبہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ والد نے کچھ سوچ و بچار کے بعد اسے میرے لیے کچھ مال دے دیا۔ پھر والدہ نے کہا: جب تک نبی ﷺ کو اس بات پر گواہ نہ کرلو میں راضی نہیں، چنانچہ میرے والد نے میرا ہاتھ پکڑا کیونکہ میں اس وقت کمسن بچہ تھا۔ اور مجھے نبی ﷺ کے پاس لے آئے اور عرض کیا: اس لڑکے کی ماں بنت رواحہ نے اس کے لیے مجھ سے ہبہ کا مطالبہ کیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ’’ کیا اس کے علاوہ تمھاری اور اولاد بھی ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں!حضرت نعمان ؓ کہتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اس ظلم پر گواہ نہ بناؤ۔‘‘ ابو حریز کی شعبی سے بیان کردہ روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے پر ظلم کرتا ہے یا کسی کا حق مارتا ہے، پھر وہ اپنی زیادتی پر کسی کی تائید بھی حاصل کرنا چاہتا ہے، کچھ احباب اس مقصد کے لیے تیار بھی ہو جاتے ہیں۔ ایسا کرنا خود ایک زیادتی اور جرم میں شریک ہونے کے مترادف ہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ظالم کے حق میں ہرگز گواہی نہ دے بصورت دیگر وہ بھی اس گناہ میں شریک ہو جائے گا۔ (2) ہبہ کے معاملے میں تمام بچوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا ایک ناپسندیدہ عمل ہے جس کی مذکورہ حدیث سے ممانعت ثابت ہے۔ ابو حریز کی روایت کو امام ابن حبان ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح ابن حبان(ابن بلبان):11/506)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبردی ، کہا ہم کو ابوحیان تیمی ( حییٰ بن سعید) نے ، انہیں شعبی نے ، اور ان سے نعمان بن بشیر ؓ نے بیان کیا کہ میری ماں نے میرے باپ سے مجھے ایک چیز ہبہ دینے کے لیے کہا (پہلے تو انہوں نے انکار کیا کیوں کہ دوسری بیوی کے بھی اولاد تھی) پھر راضی ہوگئے اور مجھے وہ چیز ہبہ کردی۔ لیکن ماں نے کہا کہ جب تک آپ نبی کریم ﷺ کو اس معاملہ میں گواہ نہ بنائیں میں اس پر راضی نہ ہوں گی۔ چنانچہ والد میرا ہاتھ پکڑ کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں ابھی نوعمر تھا ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے کی ماں عمرہ بنت رواحہ ؓ مجھ سے ایک چیز اسے ہبہ کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا اس کے علاوہ اور بھی تمہارے لڑکے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں، ہیں۔ نعمان ؓ! نے بیان کیا، میرا خیال ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس پر فرمایا تو مجھ کو ظلم کی بات پر گواہ نہ بنا۔ اور ابوحریز نے شعبی سے یہ نقل کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں ظلم کی بات پر گواہ نہیں بنتا۔
حدیث حاشیہ:
گواہ پر اگر یہ ظاہر ہے کہ یہ ظلم ہے تو اس کا فرض ہے کہ اس کے حق میں ہرگز گواہی نہ دے ورنہ وہ بھی اس گناہ میں شریک ہوجائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated An-Nu'man bin Bashir (RA): My mother asked my father to present me a gift from his property; and he gave it to me after some hesitation. My mother said that she would not be satisfied unless the Prophet (ﷺ) was made a witness to it. I being a young boy, my father held me by the hand and took me to the Prophet (ﷺ) . He said to the Prophet, "His mother, bint Rawaha, requested me to give this boy a gift." The Prophet (ﷺ) said, "Do you have other sons besides him?" He said, "Yes." The Prophet (ﷺ) said, "Do not make me a witness for injustice." Narrated Ash-Shabi that the Prophet (ﷺ) said, "I will not become a witness for injustice."