باب : اندھے آدمی کی گواہی اور اس کے معاملہ کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The witness of a blind man, his marriage, his affairs)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اس کا اپنا نکاح کرنا یا کسی دوسرے کا نکاح کرانا ، یا اس کی خرید و فروخت یا اس کی اذان وغیرہ جیسے امامت اور اقامت بھی اندھے کی درست ہے اسی طرح اندھے کی گواہی ان تمام امور میں جو آواز سے سمجھے جاسکتے ہوں ۔ قاسم ، حسن بصری ، ابن سیرین ، زہری اور عطاءنے بھی اندھے کی گواہی جائز رکھی ہے ۔ امام شعبی نے کہا کہ اگر وہ ذہین اور سمجھدار ہے تو اس کی گواہی جائز ہے ۔ حکم نے کہا کہ بہت سی چیزوں میں اس کی گواہی جائز ہوسکتی ہے ۔ زہری نے کہا اچھا بتاو اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ کسی معاملہ میں گواہی دیں تو تم اسے رد کرسکتے ہو ؟ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ ( جب نابینا ہوگئے تھے تو ) سورج غروب ہونے کے وقت ایک شخص کو بھیجتے ( تاکہ آبادی سے باہر جاکر دیکھ آئیں کہ سورج پوری طرح غروب ہوگیا یا نہیں اور جب وہ آ کر غروب ہونے کی خبر دیتے تو ) آپ افطار کرتے تھے ۔ اسی طرح آپ طلوع فجر کے متعلق پوچھتے اور جب آپ سے کہا جاتا کہ ہاں فجر طلوع ہوگئی تو دور رکعت ( سنت فجر ) نماز پڑھتے ۔ سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضری کے لیے میں نے ان سے اجازت چاہی تو انہوں نے میری آواز پہچان لی اور کہا سلیمان اندر آجاو ۔ کیوں کہ تم غلام ہو ۔ جب تک تم پر ( مال کتابت میں سے ) کچھ بھی باقی رہ جائے گا ۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے نقاب پوش عورت کی گواہی جائز قرار دی تھی ۔ تشریح : آثار مذکورہ میں سے قاسم کے اثر کو سعید بن منصور نے اور حسن اور ابن سیرین اور زہری کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے اور عطاءکے ثر کو اثرم نے وصل کیا۔ قسطلانی نے کہا مالکیہ کا یہی مذہب ہے کہ اندھے کی گواہی قول میں اور بہرے کی گواہی فعل میں درست ہے۔ اور گواہی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ آنکھوں والا اور کانوں والا ہو۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر کو عبدالرزاق نے وصل کیا، اس آدمی کا نام معلوم نہیں ہوا۔ اس اثر سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ اندھا اپنے معاملات میں دوسرے آدمی پر اعتماد کرسکتا ہے حالانکہ وہ اس کی صورت نہیں دیکھتا۔ سلیمان بن یسار مذکور حضرت عائشہؓ کے غلام تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ غلام سے پردہ کرنا ضروری نہیں جانتی تھیں خواہ اپنا غلام ہو یا کسی اور کا۔ سلیمان بن یسار مکاتب تھے ان کا بدل کتابت ابھی ادا نہیں ہوا تھا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ جب تک بدل کتابت میں سے ایک پیسہ بھی تجھ پر باقی ہے تو غلام ہی سمجھا جائے گا۔ نقاب ڈالنے والی عورت کا نام معلوم نہیں ہوا۔ ( وحیدی )
2656.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بلال رات کو اذان کہتے ہیں، اس لیے تم سحری کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ دوسری اذان دی جائے۔‘‘ یافرمایا: ’’حتیٰ کہ تم ابن ام مکتوب ؓ کی اذان سنو۔‘‘ ابن مکتوم ؓ نابینے شخص تھے، وہ اذان نہ دیتے حتیٰ کہ لوگ ان سے کہتے: صبح ہوگئی ہے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ طریقہ تھا کہ حضرت بلال ؓ فجر کی پہلی اذان دیتے جبکہ سحری کھانے پینے کے لیے کافی وقت ہوتا تھا، پھر طلوع فجر کے عام وقت پر حضرت ابن ام مکتوم ؓ اذان دیتے اور ان کی آواز سے کھانا پینا بند کر دیا جاتا۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ لوگ ابن ام مکتوم ؓ کی اذان پر اعتماد کرتے اور کھانا پینا چھوڑ دیتے، حالانکہ وہ نابینا شخص تھے۔ اس سے بھی نابینے کی گواہی ثابت کرنا مقصود ہے۔ اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو نابینے کی گواہی قبول نہ کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ بہرحال نابینے شخص کو جس طریقے سے بھی کسی چیز کا علم ہو جائے اس کے متعلق وہ گواہی دے سکتا ہے، اس کے لیے مشاہدے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ابن ام مکتوم ؓ کے نابینا ہونے کے باوجود ان کا اذان دینا قبول کیا گیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2564
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2656
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2656
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2656
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
جب نابینا آدمی زندگی کے دوسرے معاملات میں ایک عام انسان کی طرح حصہ لیتا ہے، نکاح کرتا ہے، گھر کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے، اذان دیتا ہے، امامت کراتا ہے تو گواہی بھی دے سکتا ہے۔ امام شعبی رحمہ اللہ نے اس کا عقل مند اور سمجھ دار ہونا ضروری قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذہین و فطین ہو اور معاملات کی باریکیوں کو جاننے والا ہو، بصورت دیگر صرف عقل مند ہونے کی پابندی تو بینا آدمی کے لیے بھی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ عمر کے آخری حصے میں نابینا ہو گئے تھے۔ امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: کیا اتنے بڑے آدمی کی گواہی رد کر دی جائے گی؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعلق اس اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ طلوع و غروب کے لیے اگر نابینا شخص کسی کی بات مانتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بہرحال عدالت اپنے طریق کار کے مطابق نابینا شخص کی گواہی کو رد یا قبول کرے گی اور اس کے اس جسمانی نقص کا لحاظ رکھے گی۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کسی ذریعے سے اس نقاب پوش کو عورت پہچان لیا ہو گا، اس لیے اس کی گواہی کو جائز قرار دیا۔ محض آواز کا اعتبار اس لیے نہیں کیا جاتا کہ اس میں اشتباہ اور دھوکے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ جب شک و شبہ دور ہو جائے تو گواہی معتبر ہو گی۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نابینے شخص کی گواہی جائز ہے۔ ان کے نزدیک گواہی دینے اور خبر دینے میں کوئی فرق نہیں اگرچہ گواہی میں خبر سے زیادہ تاکید ہوتی ہے۔ امام قاسم، حسن بصری، ابن سیرین، زہری، شعبی اور حکم رحمہم اللہ کے آثار کو امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے موصولاً ذکر کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:7/319،318) دیگر آثار کے لیے دیکھیے: (تغلیق التعلیق: 3/387)
اور اس کا اپنا نکاح کرنا یا کسی دوسرے کا نکاح کرانا ، یا اس کی خرید و فروخت یا اس کی اذان وغیرہ جیسے امامت اور اقامت بھی اندھے کی درست ہے اسی طرح اندھے کی گواہی ان تمام امور میں جو آواز سے سمجھے جاسکتے ہوں ۔ قاسم ، حسن بصری ، ابن سیرین ، زہری اور عطاءنے بھی اندھے کی گواہی جائز رکھی ہے ۔ امام شعبی نے کہا کہ اگر وہ ذہین اور سمجھدار ہے تو اس کی گواہی جائز ہے ۔ حکم نے کہا کہ بہت سی چیزوں میں اس کی گواہی جائز ہوسکتی ہے ۔ زہری نے کہا اچھا بتاو اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ کسی معاملہ میں گواہی دیں تو تم اسے رد کرسکتے ہو ؟ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ ( جب نابینا ہوگئے تھے تو ) سورج غروب ہونے کے وقت ایک شخص کو بھیجتے ( تاکہ آبادی سے باہر جاکر دیکھ آئیں کہ سورج پوری طرح غروب ہوگیا یا نہیں اور جب وہ آ کر غروب ہونے کی خبر دیتے تو ) آپ افطار کرتے تھے ۔ اسی طرح آپ طلوع فجر کے متعلق پوچھتے اور جب آپ سے کہا جاتا کہ ہاں فجر طلوع ہوگئی تو دور رکعت ( سنت فجر ) نماز پڑھتے ۔ سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضری کے لیے میں نے ان سے اجازت چاہی تو انہوں نے میری آواز پہچان لی اور کہا سلیمان اندر آجاو ۔ کیوں کہ تم غلام ہو ۔ جب تک تم پر ( مال کتابت میں سے ) کچھ بھی باقی رہ جائے گا ۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے نقاب پوش عورت کی گواہی جائز قرار دی تھی ۔ تشریح : آثار مذکورہ میں سے قاسم کے اثر کو سعید بن منصور نے اور حسن اور ابن سیرین اور زہری کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے اور عطاءکے ثر کو اثرم نے وصل کیا۔ قسطلانی نے کہا مالکیہ کا یہی مذہب ہے کہ اندھے کی گواہی قول میں اور بہرے کی گواہی فعل میں درست ہے۔ اور گواہی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ آنکھوں والا اور کانوں والا ہو۔ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اثر کو عبدالرزاق نے وصل کیا، اس آدمی کا نام معلوم نہیں ہوا۔ اس اثر سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ اندھا اپنے معاملات میں دوسرے آدمی پر اعتماد کرسکتا ہے حالانکہ وہ اس کی صورت نہیں دیکھتا۔ سلیمان بن یسار مذکور حضرت عائشہؓ کے غلام تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ غلام سے پردہ کرنا ضروری نہیں جانتی تھیں خواہ اپنا غلام ہو یا کسی اور کا۔ سلیمان بن یسار مکاتب تھے ان کا بدل کتابت ابھی ادا نہیں ہوا تھا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ جب تک بدل کتابت میں سے ایک پیسہ بھی تجھ پر باقی ہے تو غلام ہی سمجھا جائے گا۔ نقاب ڈالنے والی عورت کا نام معلوم نہیں ہوا۔ ( وحیدی )
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’بلال رات کو اذان کہتے ہیں، اس لیے تم سحری کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ دوسری اذان دی جائے۔‘‘ یافرمایا: ’’حتیٰ کہ تم ابن ام مکتوب ؓ کی اذان سنو۔‘‘ ابن مکتوم ؓ نابینے شخص تھے، وہ اذان نہ دیتے حتیٰ کہ لوگ ان سے کہتے: صبح ہوگئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ طریقہ تھا کہ حضرت بلال ؓ فجر کی پہلی اذان دیتے جبکہ سحری کھانے پینے کے لیے کافی وقت ہوتا تھا، پھر طلوع فجر کے عام وقت پر حضرت ابن ام مکتوم ؓ اذان دیتے اور ان کی آواز سے کھانا پینا بند کر دیا جاتا۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ لوگ ابن ام مکتوم ؓ کی اذان پر اعتماد کرتے اور کھانا پینا چھوڑ دیتے، حالانکہ وہ نابینا شخص تھے۔ اس سے بھی نابینے کی گواہی ثابت کرنا مقصود ہے۔ اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو نابینے کی گواہی قبول نہ کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ بہرحال نابینے شخص کو جس طریقے سے بھی کسی چیز کا علم ہو جائے اس کے متعلق وہ گواہی دے سکتا ہے، اس کے لیے مشاہدے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ابن ام مکتوم ؓ کے نابینا ہونے کے باوجود ان کا اذان دینا قبول کیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
سیدنا قاسم، حسن بصری، ابن سیرین، زہری اور عطاء رحمۃ اللہ علیہ نے نابینے کی گواہی کو جائز قراردیا ہے۔ حضرت شعبی کا کہنا ہے نابینے کی شہادت اس وقت جائز ہو گی جب وہ عقل مند ہو۔ حضرت حکم کا کہنا ہے: متعدد معاملات میں نابینے کو رعایت دینی پڑے گی۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بتاؤ اگر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی معاملے میں گواہی دیں تو کیا تم اسے رد کروگے؟حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی آدمی کو بھیجتے اگر وہ کہتا کہ سورج غروب ہو گیا ہے تو روزہ افطار کردیتے، نیز طلوع فجر کے متعلق سوال کرتے، اگر ان سے کہا جاتا کہ فجر طلوع ہو چکی ہے تو وہ(صبح کی) دو رکعت پڑھتے۔ سلیمان بن یسار کا کہنا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ اُم المومنین عائشہؓ سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت چاہی تو انھوں نے میری آواز سن کر فرمایا: سلمان اندر آجاؤکیونکہ جب تک تم پر کچھ رقم باقی ہے تم غلام ہو۔حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نقاب پوش خاتون کی شہادت کو جائز قراردیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبردی سالم بن عبداللہ سے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، بلال ؓ رات میں اذان دیتے ہیں۔ اس لیے تم لوگ سحری کھاپی سکتے ہو یہاں تک کہ (فجر کے لیے) دوسری اذان پکاری جائے۔ یا (یہ فرمایا) یہاں تک کہ عبداللہ ابن ام مکتوم ؓ کی اذان سن لو۔ عبداللہ ابن ام مکتوم ؓ نابینا تھے اور جب تک ان سے کہا نہ جاتا صبح ہوگئی ہے، وہ اذان نہیں دیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت باب سے ظاہر ہے کہ لوگ ابن ام مکتوم ؓ کی اذان پر اعتماد کرتے، کھانا پینا چھوڑدیتے، حالانکہ وہ نابینا تھے۔ اس سے بھی نابینا کی گواہی کا اثبات مقصود ہے اور ان لوگوں کی تردید جو نابینا کی گواہی قبول نہ کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, " Bilal (RA) pronounces the Adhan when it is still night (before dawn), so eat and drink till the next Adhan is pronounced (or till you hear Ibn Um Maktum's Adhan)." Ibn Um Maktum was a blind man who would not pronounce the Adhan till he was told that it was dawn.