Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The witness of male and female slaves)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ غلام اگر عادل ہے تو اس کی گواہی جائزہے ، شریح اور زرارہ بن اوفیٰ نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے ۔ ابن سیرین نے کہا کہ اس کی گواہی جائز ہے ، سوا اس صورت کے جب غلام اپنے مالک کے حق میں گواہی دے ( کیوں کہ اس میں مالک کی طرف داری کا احتمال ہے ) حسن اور ابراہیم نے معمولی چیزوں میں غلام کی گواہی کی اجازت دی ہے ۔ قاضی شریح نے کہا کہ تم میں سے ہر شخص غلاموں اور باندیوںکی اولاد ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم سب اللہ کے لونڈی غلام ہو اور اللہ ہی کے لونڈی غلاموں کی اولاد ہو، اس لیے کسی کو کسی پر فخر کرنا جائز نہیں ہے ۔ ہمارے امام احمد بن حنبل نے اسی کے موافق حکم دیا ہے کہ لونڈی غلام کی جب وہ عادل اور ثقہ ہوں، گواہی مقبول ہے۔ مگر ائمہ ثلاثہ نے اس کو جائز نہیں رکھا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ لونڈی غلاموں کی شہادت جب وہ عادل ثقہ ہو ںثابت فرمارہے ہیں۔ ترجمۃ الباب میں نقل کردہ آثار سے آپ کا مدعا بخوبی ثابت ہوتا ہے۔
2659.
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ام یحییٰ بنت ابواہاب سے شادی کرلی تو ایک سیاہ فام لونڈی آئی اور کہنے لگی: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں نے جب نبی کریم ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے اپنا رخ دوسری طرف پھیرلیا، چنانچہ میں بھی اس طرف سے ہٹ گیا۔ پھر میں نے دوبارہ آپ سے اسی بات کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اب یہ کیسے ہوسکتاہے جبکہ اس عورت کا دعویٰ ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایاہے؟‘‘ پھرآپ نے حضرت عقبہ ؓ کو اس رشتے سے روک دیا۔
تشریح:
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے ایک لونڈی کی گواہی قبول فرمائی، پھر اس گواہی کی بنیاد پر حضرت عقبہ بن حارث ؓ اور اس کی بیوی ام یحییٰ کے درمیان علیحدگی کرا دی۔ معلوم ہوا کہ اگر لونڈی کی گواہی قابل قبول نہ ہوتی تو اس پر عمل نہ کیا جاتا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2567
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2659
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2659
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2659
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ لونڈی غلام اگر نیک سیرت اور قابل اعتماد ہوں تو ان کی گواہی قبول کی جائے گی جبکہ جمہور اہل علم نے ان کی گواہی کو جائز قرار نہیں دیا۔ ہمارا رجحان یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف قرین قیاس اور قابل اعتماد ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ، قاضی شریح اور ابراہیم نخعی رحمہما اللہ کے آثار کو امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے موصولاً ذکر کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:7/192۔193) ابن سیرین رحمہ اللہ کے اثر کے لیے دیکھیے: (تغلیق التعلیق: 3/389)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ غلام اگر عادل ہے تو اس کی گواہی جائزہے ، شریح اور زرارہ بن اوفیٰ نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے ۔ ابن سیرین نے کہا کہ اس کی گواہی جائز ہے ، سوا اس صورت کے جب غلام اپنے مالک کے حق میں گواہی دے ( کیوں کہ اس میں مالک کی طرف داری کا احتمال ہے ) حسن اور ابراہیم نے معمولی چیزوں میں غلام کی گواہی کی اجازت دی ہے ۔ قاضی شریح نے کہا کہ تم میں سے ہر شخص غلاموں اور باندیوںکی اولاد ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم سب اللہ کے لونڈی غلام ہو اور اللہ ہی کے لونڈی غلاموں کی اولاد ہو، اس لیے کسی کو کسی پر فخر کرنا جائز نہیں ہے ۔ ہمارے امام احمد بن حنبل نے اسی کے موافق حکم دیا ہے کہ لونڈی غلام کی جب وہ عادل اور ثقہ ہوں، گواہی مقبول ہے۔ مگر ائمہ ثلاثہ نے اس کو جائز نہیں رکھا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ لونڈی غلاموں کی شہادت جب وہ عادل ثقہ ہو ںثابت فرمارہے ہیں۔ ترجمۃ الباب میں نقل کردہ آثار سے آپ کا مدعا بخوبی ثابت ہوتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ام یحییٰ بنت ابواہاب سے شادی کرلی تو ایک سیاہ فام لونڈی آئی اور کہنے لگی: میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں نے جب نبی کریم ﷺ سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے اپنا رخ دوسری طرف پھیرلیا، چنانچہ میں بھی اس طرف سے ہٹ گیا۔ پھر میں نے دوبارہ آپ سے اسی بات کاذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اب یہ کیسے ہوسکتاہے جبکہ اس عورت کا دعویٰ ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایاہے؟‘‘ پھرآپ نے حضرت عقبہ ؓ کو اس رشتے سے روک دیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے ایک لونڈی کی گواہی قبول فرمائی، پھر اس گواہی کی بنیاد پر حضرت عقبہ بن حارث ؓ اور اس کی بیوی ام یحییٰ کے درمیان علیحدگی کرا دی۔ معلوم ہوا کہ اگر لونڈی کی گواہی قابل قبول نہ ہوتی تو اس پر عمل نہ کیا جاتا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: معتبر اور عادل غلام کی گواہی جائزہے۔ قاضی شریح اور زراوہ بن اوفیٰ نے بھی اسے جائز قرار دیاہے۔ ابن سیرین نے بھی غلام کی گواہی کو جائز بتایا ہے، تاہم مالک کے حق میں اس کی گواہی کا اعتبارنہیں ہوگا۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اور ابراہیم نخعی نے معمولی معاملات میں غلام کی گواہی کو جائز کہا ہے۔ قاضی شریح نے کہا: تم سب لوگ لونڈی غلاموں کی اولاد ہو۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے، وہ ابن بی ملیکہ سے ، ان سے عقبہ بن حارث ؓ نے (دوسری سند) امام بخاری نے کہا اور ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا ، ان سے ابن جریج نے بیان کیا کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، کہا کہ مجھ سے عقبہ بن حارث ؓ نے بیان کیا، یا (یہ کہا کہ) میں نے یہ حدیث ان سے سنی کہ انہوں نے ام یحییٰ بنت ابی اہاب سے شادی کی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر ایک سیاہ رنگ والی باندی آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا، تو آپ نے میری طرف سے منه پھیر لیا پس میں جدا ہوگیا۔ میں نے پھر آپ کے سامنے جاکر اس کا ذکر کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا، اب (نکاح) کیسے (باقی رہ سکتا ہے) جبکہ تمہیں اس عورت نے بتادیا ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا تھا۔ چنانچہ آپ نے انہیں ام یحییٰ کو اپنے ساتھ رکھنے سے منع فرمادیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ذکر ہے کہ ایک لونڈی کی شہادت آنحضرت ﷺ نے قبول فرمائی اور اس کی بنا پر ایک صحابی عقبہ بن حارث ؓ اور ان کی عورت میں جدائی کرادی، معلوم ہوا کہ لونڈی غلاموں کی شہادت قبول کی جاسکتی ہے، جو لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں ان کا قول درست نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Uqba bin Al-Harith (RA): That he had married Um Yahya bint Abu Ihab. He said. "A black slave-lady came and said, 'I suckled you both.' I then mentioned that to the Prophet (ﷺ) who turned his face aside." Uqba further said, "I went to the other side and told the Prophet (ﷺ) about it. He said, 'How can you (keep her as your wife) when the lady has said that she suckled both of you (i.e. you and your wife?)" So, the Prophet (ﷺ) ordered him to divorce her.