Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The boys attaining the age of puberty and their witness)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ جب تمہارے بچے احتلام کی عمر کو پہنچ جائیں تو پھر انہیں ( گھروں میں داخل ہوتے وقت ) اجازت لینی چاہئے ۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں احتلام کی عمر کو پہنچا تو میں بارہ سال کا تھا اور لڑکیوں کا بلوغ حیض سے معلوم ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ ” عورتیں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں “ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ان یضعن حملہن تک ۔ حسن بن صالح نے کہا کہ میں نے اپنی ایک پڑوسن کو دیکھا کہ وہ اکیس سال کی عمر میں دادی بن چکی تھیں ۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی عمر پندرہ سال کو پہنچ جائے تو وہ بالغ سمجھا جائے گا اور اس کی گواہی قبول ہوگی۔ یوں بچے بارہ سال کی عمر میں بھی بالغ ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ اتفاقی امر ہے۔ عورتوں کے لیے حیض آجانا بلوغت کی دلیل ہے۔ وقد اجمع العلماءعلی ان الحیض بلوغ فی حق النساء ( فتح ) یعنی علماءکا اجماع ہے کہ عورتوں کا بلوغ ان کا حائضہ ہونا ہی ہے۔
2664.
حضرت ابن عمر ؓ سےروایت ہے کہ وہ اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ان کی عمر چودہ برس ہوچکی تھی۔ آپ ﷺ نے مجھے جنگ میں جانے کی اجازت نہ دی۔ پھر میں خندق کے دن پیش ہواتو میری عمر پندرہ سال تھی تو آپ نے مجھے جنگ میں شمولیت کی اجازت دے دی۔ حضرت نافع کہتے ہیں: میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے پاس آیا جبکہ آپ خلیفہ تھے تو میں نے آپ سے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے فرمایا: یہ بالغ اور نابالغ کے درمیان حد ہے، انھوں نے اپنے حکام کولکھا کہ جولوگ پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں ان کے نام دیوان میں لکھ لیا کریں اور ان کے وظیفے مقرر کردیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق جب بچے کی عمر پندرہ برس ہو جائے تو اس پر بالغوں کے احکام جاری ہو جاتے ہیں۔ اس پر عبادات، حدود اور دیگر احکام شریعت بھی اسی عمر میں لازم ہوں گے۔ اس عمر میں وہ جنگ میں شریک ہو سکے گا اور مال غنیمت کا حق دار ہو گا۔ اگر وہ حربی کافر ہے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ اس عمر میں اس کی گواہی بھی قبول کی جائے گی۔ اگر اس عمر سے پہلے احتلام شروع ہو جائے تو بھی بلوغ کے احکام نافذ ہوں گے۔ (2) احتلام سے مراد اچھلنے والے پانی کا اترنا ہے، خواہ جماع سے ہو یا حالت نیند میں۔ عورتوں کے لیے حیض کی آمد ان کے بالغ ہونے کی علامت ہے۔ اس میں عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ صحت اور علاقائی اثرات کے اعتبار سے عمر مختلف ہو سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2572
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2664
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2664
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2664
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
فوائد و مسائل: (1) اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے دو باتیں بیان کی ہیں: پہلی بات یہ کہ بچے اور بچیاں کب بالغ ہوتے ہیں اور دوسری یہ کہ ان کی گواہی کے متعلق کیا حکم ہے؟ جہاں تک لڑکوں کی بلوغت کا تعلق ہے تو اس کا انحصار احتلام پر ہے، خواہ عمر کے کسی حصے میں ہو۔ اور لڑکی کو جب حیض آ جائے تو یہ اس کے بالغ ہونے کی علامت ہے۔ اس وقت ان پر عبادات، حدود وغیرہ کے احکام لاگو ہوں گے۔ (2) اگر کسی وجہ سے احتلام یا حیض دیر سے آئے تو زیر ناف بالوں کا اگنا بھی اس کی علامت ہے یا وہ اس مدت کو پہنچ جائیں کہ اس مدت کے دوسرے بچے بچیاں بالغ ہو جاتے ہیں اور وہ پندرہ سال کی عمر ہے۔ حضرت مغیرہ کو بارہ سال کی عمر میں احتلام شروع ہو گیا تھا۔ اسی طرح ایک عورت اکیس سال کی عمر میں نانی بن گئی تھی۔ اس کی یہ صورت ہو گی کہ لڑکی کو نو برس کی عمر میں حیض آ جائے اور اس کی شادی کر دی جائے۔ دس سال کی عمر میں اس کے ہاں لڑکی پیدا ہو وہ بھی نو برس کی عمر میں بالغ ہو جائے اور شادی کے بعد وہ دس سال کی عمر میں صاحب اولاد ہو جائے۔ اس صورت میں پہلی لڑکی بیس اکیس سال کی عمر میں نانی بن سکتی ہے۔ لیکن ایسے واقعات بہت کم ہی ہوتے ہیں۔ ان پر عام حالات کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ گواہی کے لیے ضروری ہے کہ ان کی عمر بلوغ کو پہنچ جائے۔ اس کے بغیر گواہی قبول نہیں ہو گی۔ واللہ اعلم
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ جب تمہارے بچے احتلام کی عمر کو پہنچ جائیں تو پھر انہیں ( گھروں میں داخل ہوتے وقت ) اجازت لینی چاہئے ۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں احتلام کی عمر کو پہنچا تو میں بارہ سال کا تھا اور لڑکیوں کا بلوغ حیض سے معلوم ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ ” عورتیں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہیں “ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ان یضعن حملہن تک ۔ حسن بن صالح نے کہا کہ میں نے اپنی ایک پڑوسن کو دیکھا کہ وہ اکیس سال کی عمر میں دادی بن چکی تھیں ۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچے کی عمر پندرہ سال کو پہنچ جائے تو وہ بالغ سمجھا جائے گا اور اس کی گواہی قبول ہوگی۔ یوں بچے بارہ سال کی عمر میں بھی بالغ ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ اتفاقی امر ہے۔ عورتوں کے لیے حیض آجانا بلوغت کی دلیل ہے۔ وقد اجمع العلماءعلی ان الحیض بلوغ فی حق النساء ( فتح ) یعنی علماءکا اجماع ہے کہ عورتوں کا بلوغ ان کا حائضہ ہونا ہی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سےروایت ہے کہ وہ اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ان کی عمر چودہ برس ہوچکی تھی۔ آپ ﷺ نے مجھے جنگ میں جانے کی اجازت نہ دی۔ پھر میں خندق کے دن پیش ہواتو میری عمر پندرہ سال تھی تو آپ نے مجھے جنگ میں شمولیت کی اجازت دے دی۔ حضرت نافع کہتے ہیں: میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے پاس آیا جبکہ آپ خلیفہ تھے تو میں نے آپ سے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے فرمایا: یہ بالغ اور نابالغ کے درمیان حد ہے، انھوں نے اپنے حکام کولکھا کہ جولوگ پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں ان کے نام دیوان میں لکھ لیا کریں اور ان کے وظیفے مقرر کردیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کے مطابق جب بچے کی عمر پندرہ برس ہو جائے تو اس پر بالغوں کے احکام جاری ہو جاتے ہیں۔ اس پر عبادات، حدود اور دیگر احکام شریعت بھی اسی عمر میں لازم ہوں گے۔ اس عمر میں وہ جنگ میں شریک ہو سکے گا اور مال غنیمت کا حق دار ہو گا۔ اگر وہ حربی کافر ہے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ اس عمر میں اس کی گواہی بھی قبول کی جائے گی۔ اگر اس عمر سے پہلے احتلام شروع ہو جائے تو بھی بلوغ کے احکام نافذ ہوں گے۔ (2) احتلام سے مراد اچھلنے والے پانی کا اترنا ہے، خواہ جماع سے ہو یا حالت نیند میں۔ عورتوں کے لیے حیض کی آمد ان کے بالغ ہونے کی علامت ہے۔ اس میں عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ صحت اور علاقائی اثرات کے اعتبار سے عمر مختلف ہو سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: " جب لڑکے سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ بھی(گھر آنے کے لیے) اجازت لیا کریں۔ "حضرت مغیرہ ؓ نے کہا: جب مجھے احتلام ہوا تو میری عمر بارہ برس تھی۔اور عورتوں کا بالغ ہونا حیض سے ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تمہاری جو عورتیں حیض سے نااُمید ہوچکی ہوں(اگر تمھیں کچھ شبہ ہوتو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنھیں حیض آنا شروع ہوا ہو اور حمل والی عورتوں کی عدت) وضع حمل ہے۔"حسن بن صالح نے کہا: میں نے اپنی ایک ہمسائی کو دیکھا وہ اکیس برس کی عمر میں نانی بن چکی تھی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی کے موقع پر وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے (جنگ پر جانے کے لیے) پیش ہوئے تو انہیں اجازت نہیں ملی ، اس وقت ان کی عمر چودہ سال تھی۔ پھر غزوہ خندق کے موقع پر پیش ہوئے تو اجازت مل گئی۔ اس وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی۔ نافع نے بیان کیا کہ جب میں عمر بن عبدالعزیز کے یہاں ان کی خلافت کے زمانے میں گیا تو میں نے ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ چھوٹے اور بڑے کے درمیان (پندرہ سال ہی کی) حد ہے ۔ پھر انہوں نے اپنے حاکموں کو لکھا کہ جس بچے کی عمر پندرہ سال کی ہوجائے (اس کا فوجی وظیفہ) بیت المال سے مقرر کردیں۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ پندرہ سال کی عمر ہونے پر بچے پر شرعی احکام جاری ہوجاتے ہیں اور اس عمر میں وہ گواہی کے قابل ہوسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) called me to present myself in front of him or the eve of the battle of Uhud, while I was fourteen years of age at that time, and he did not allow me to take part in that battle, but he called me in front of him on the eve of the battle of the Trench when I was fifteen years old, and he allowed me (to join the battle)." Nafi' said, "I went to 'Umar bin 'Abdul Aziz (RA) who was Caliph at that time and related the above narration to him, He said, "This age (fifteen) is the limit between childhood and manhood," and wrote to his governors to give salaries to those who reached the age of fifteen.