باب : دیوانی اور فوجداری دونوں مقدموں میں مدعیٰ علیہ سے قسم لینا
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The defendant must take an oath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریمﷺنے ( مدعی سے ) فرمایا کہ تم اپنے دو گواہ پیش کرو ورنہ مدعیٰ علیہ کی قسم پر فیصلہ ہوگا ۔ قتیبہ نے بیان کیا ، ان سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے ( کوفہ کے قاضی ) ابن شبرمہ نے بیان کیا کہ ( مدینہ کے قاضی ) ابوالزناد نے مجھ سے مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کے ( نافذ ہوجانے کے ) بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” اور تم اپنے مردوں میں سے دو گواہ کرلیا کرو پھر اگر دونوں مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ، جن گواہوں سے کہ تم مطمئن ہو ، تاکہ اگر کوئی ایک ان دو میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے “ ۔ میں نے کہا کہ اگر مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کافی ہوتی تو پھر یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے ۔ دوسری عورت کے یاد دلانے سے فائدہ ہی کیا ہے ؟ تشریح:ابوالزناد جن کا اوپر ذکر ہوا مدینہ کے قاضی اور امام مالک کے استاد ہیں۔ اہل مدینہ ، امام شافعی ، احمد اور اہل حدیث سب اس کے قائل ہیں کہ اگر مدعی کے پاس ایک ہی گواہ ہو تو مدعی سے قسم لے کر ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کردیںگے۔ مدعی کی قسم دوسرے گواہ کے قائم مقام ہوجائے گی اور یہ امر حدیث صحیح سے ثابت ہے جس کو امام مسلم نے ابن عباس سے نکالا کہ آنحضرتﷺنے ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کیا اور اصحاب سنن نے اس کو ابوہریرہ اور جابر سے نکالا۔ ابن خزیمہ نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ ابن شبرمہ کوفہ کے قاضی تھے۔ اہل کوفہ جیسے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے جائز نہیں کہتے اور صحیح حدیث کے برخلاف آیت قرآن سے استدلال کرتے ہیں۔ حالانکہ آیت قرآن حدیث کے برخلاف نہیں ہوسکتی اور قرآن کا جاننے والا اور سمجھنے والا آنحضرتﷺ سے زیادہ کوئی نہ تھا۔ ( وحیدی ) آیت سے ابن شبرمہ نے جو استدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ قرآن مجید میں معاملہ کرنے والوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ معاملہ کرتے وقت دو مردوں یا ایک مردو و دو عورتوں کو گواہ کرلیں۔ دو عورتیں اس لیے رکھی ہیں کہ وہ ناقص العقل اور ناقص الحفظ ہوتی ہیں۔ ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے اور یہ ظاہر ہے کہ مدعی سے جو قسم لی جاتی ہے وہ اسی وقت جب نصاب شہادت کا پورا نہ ہو، اگر ایک مرد اور دو عورتیں یا دو مرد موجود ہوں تب مدعی سے قسم لینے کی ضرورت نہیں۔ امام شافعی نے فرمایا، یمین مع الشاہد کی حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ حدیث میں بیان ہے اس امر کا جس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود ہم کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم اس کے پیغمبر کے حکم پر چلیں اور جس چیز سے آپ نے منع فرمایا ہے اس سے باز رہیں۔ میں ( مولانا وحیدالزماں مرحوم ) کہتا ہوں قرآن میں تو یہ ذکر ہے کہ اپنے پاؤں وضو میں دھوؤ، پھر حنفیہ موزوں پر مسح کیوں جائز کہتے ہیں۔ اسی طرح قرآن میں یہ ذکر ہے کہ اگر پانی نہ پاؤ تو تیمم کرو اور حنفیہ اس کے برخلاف ایک ضعیف حدیث کی رو سے نبےذ تمر سے وضو کیوں جائز سمجھتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ نبےذتمر کی ضعیف اور مجہول حدیث ضعیف قرار دے کر اس سے کتاب اللہ پرزیادتی جائز سمجھتے ہیں اور یمین مع الشاہد کی صحیح اور مشہور حدیث کو رد کرتے ہیں۔ وہل ہذا لا ظلم عظیم منہ۔ ( وحیدی ) حدیث ہذا کے ذیل میں مرحوم لکھتے ہیں یعنی جب مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں۔ بیہقی نے عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مرفوعاً یوں نکالا البینۃ علی من ادعی والیمین علی من انکر معلوم ہوا کہ مدعیٰ علیہ پر ہر حال میں قسم کھانا لازم ہوگا۔ جب مدعی کے پاس شہادت نہ ہو، خواہ مدعی اور مدعی علیہ میں اختلاط اور ربط ہو یا نہ ہو۔ امام شافعی، اہل حدیث اور جمہور علماءکا یہی قول ہے، لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ مدعیٰ علیہ سے اسی وقت قسم لی جائے گی جب اس میں اور مدعی میں ارتباط اور معاملات ہوں۔ ورنہ ہر شخص شریف آدمیوں کو قسم کھلانے کے لیے جھوٹے دعوے ان پرکرے گا۔ ( وحیدی )
2669.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جو شخص کسی کامال ہتھیانے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائے گا تو اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت اتاری: ’’جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو۔ ۔ ۔ ان کے لیے المناک عذاب ہو گا۔‘‘ پھر اشعث بن قیس ؓ ہمارے پاس تشریف لائے اور انھوں نے دریافت کیا کہ ابو عبدالرحمان ؓ تمھیں کیا حدیث بیان کررہے تھے؟جو کچھ انھوں نے فرمایا تھا ہم نے انھیں بیان کیا۔ وہ فرمانے لگے: انھوں نے سچ فرمایا ہے۔ میرے باے میں ہی یہ آیت اتری تھی۔ ہوا یوں کہ میرے اور ایک (یہودی) آدمی کے درمیان کسی چیز کے متعلق جھگڑا تھا۔ ہم اس مقدمے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو آپ نے فرمایا: ’’تمہارے دو گواہ دعویٰ ثابت کریں گے یا وہ قسم ا ٹھائے گا۔‘‘ میں نے عرض کیا: یہ تو قسم اٹھا لے گا اور اس کی کوئی پروا نہیں کرے گا۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹی قسم اٹھائے تاکہ اسکے ذریعے سے مال کا مستحق ہوجائے، حالانکہ وہ اس میں جھوٹا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت ملے گاکہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔
تشریح:
(1) مذکورہ بالا مقدمے میں حضرت اشعث بن قیس ؓ مدعی تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: تمہیں اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے دو گواہ پیش کرنا ہوں گے، بصورت دیگر مدعا علیہ قسم اٹھائے گا اور مقدمہ اس کے حق میں ہو گا۔ بہرحال قسم اٹھانا مدعا علیہ کے ذمے ہے بشرطیکہ مدعی اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے دو گواہ پیش نہ کر سکے، یا کم از کم ایک گواہ اور قسم دے گا۔ اگر ایسا نہ کر سکا تو مدعا علیہ قسم اٹھا کر بری ہو جائے گا۔ (2) بعض لوگ يمين استظهار کے قائل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مدعی اپنا دعویٰ گواہوں سے ثابت کر دے تو قاضی مدعی سے قسم لے کہ اس کے گواہوں نے جو ثابت کیا ہے وہ مبنی بر حقیقت ہے، اس میں کوئی دھوکا فریب نہیں ہے۔ قاضی شریح، امام نخعی اور اوزاعی وغیرہ اس کے قائل ہیں لیکن جمہور اہل علم اس سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ قرآن و سنت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2576
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2669
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2669
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2669
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
ابو زناد کا موقف یہ ہے کہ اگر مدعی کے پاس دو گواہ نہ ہوں صرف ایک گواہ ہو تو مدعی سے قسم لے کر اس کے حق میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم سے فیصلہ فرمایا تھا۔ (صحیح مسلم،الاقضیۃ،حدیث:4472(1712)) اہل مدینہ کا عمل بھی اس پر ہے۔ لیکن ابن شبرمہ کا موقف یہ ہے کہ ایک گواہ اور قسم فیصلے کے لیے کافی نہیں بلکہ مدعی دو گواہ پیش کرے، بصورت دیگر مدعا علیہ سے قسم لے کر فیصلہ کر دیا جائے گا۔ اگر مدعی کی طرف سے ایک گواہ اور قسم کافی ہوتی تو پھر قرآن مجید میں دوسری عورت کی قید کیوں لگائی جاتی؟ دو عورتوں کو گواہی کے لیے ضروری قرار دینا اور پھر یہ وجہ بیان کرنا کہ ایک بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کی خاص اہمیت ہے۔ لیکن ابن شبرمہ رحمہ اللہ کا استدلال محل نظر ہے کیونکہ قرآن مجید میں مستقل نصاب شہادت ذکر کیا گیا کہ ایک مرد دو عورتیں اور حدیث میں ایک دوسرا نصاب یوں ذکر کیا گیا: ایک مرد + مدعی کی قسم۔ اس لیے دونوں میں کوئی تعارض نہیں بلکہ اپنی اپنی جگہ پر مستقل نصاب شہادت ہے۔
اور نبی کریمﷺنے ( مدعی سے ) فرمایا کہ تم اپنے دو گواہ پیش کرو ورنہ مدعیٰ علیہ کی قسم پر فیصلہ ہوگا ۔ قتیبہ نے بیان کیا ، ان سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے ( کوفہ کے قاضی ) ابن شبرمہ نے بیان کیا کہ ( مدینہ کے قاضی ) ابوالزناد نے مجھ سے مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کے ( نافذ ہوجانے کے ) بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” اور تم اپنے مردوں میں سے دو گواہ کرلیا کرو پھر اگر دونوں مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ، جن گواہوں سے کہ تم مطمئن ہو ، تاکہ اگر کوئی ایک ان دو میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے “ ۔ میں نے کہا کہ اگر مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کافی ہوتی تو پھر یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے ۔ دوسری عورت کے یاد دلانے سے فائدہ ہی کیا ہے ؟ تشریح:ابوالزناد جن کا اوپر ذکر ہوا مدینہ کے قاضی اور امام مالک کے استاد ہیں۔ اہل مدینہ ، امام شافعی ، احمد اور اہل حدیث سب اس کے قائل ہیں کہ اگر مدعی کے پاس ایک ہی گواہ ہو تو مدعی سے قسم لے کر ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کردیںگے۔ مدعی کی قسم دوسرے گواہ کے قائم مقام ہوجائے گی اور یہ امر حدیث صحیح سے ثابت ہے جس کو امام مسلم نے ابن عباس سے نکالا کہ آنحضرتﷺنے ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کیا اور اصحاب سنن نے اس کو ابوہریرہ اور جابر سے نکالا۔ ابن خزیمہ نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ ابن شبرمہ کوفہ کے قاضی تھے۔ اہل کوفہ جیسے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے جائز نہیں کہتے اور صحیح حدیث کے برخلاف آیت قرآن سے استدلال کرتے ہیں۔ حالانکہ آیت قرآن حدیث کے برخلاف نہیں ہوسکتی اور قرآن کا جاننے والا اور سمجھنے والا آنحضرتﷺ سے زیادہ کوئی نہ تھا۔ ( وحیدی ) آیت سے ابن شبرمہ نے جو استدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ قرآن مجید میں معاملہ کرنے والوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ معاملہ کرتے وقت دو مردوں یا ایک مردو و دو عورتوں کو گواہ کرلیں۔ دو عورتیں اس لیے رکھی ہیں کہ وہ ناقص العقل اور ناقص الحفظ ہوتی ہیں۔ ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے اور یہ ظاہر ہے کہ مدعی سے جو قسم لی جاتی ہے وہ اسی وقت جب نصاب شہادت کا پورا نہ ہو، اگر ایک مرد اور دو عورتیں یا دو مرد موجود ہوں تب مدعی سے قسم لینے کی ضرورت نہیں۔ امام شافعی نے فرمایا، یمین مع الشاہد کی حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ حدیث میں بیان ہے اس امر کا جس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود ہم کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم اس کے پیغمبر کے حکم پر چلیں اور جس چیز سے آپ نے منع فرمایا ہے اس سے باز رہیں۔ میں ( مولانا وحیدالزماں مرحوم ) کہتا ہوں قرآن میں تو یہ ذکر ہے کہ اپنے پاؤں وضو میں دھوؤ، پھر حنفیہ موزوں پر مسح کیوں جائز کہتے ہیں۔ اسی طرح قرآن میں یہ ذکر ہے کہ اگر پانی نہ پاؤ تو تیمم کرو اور حنفیہ اس کے برخلاف ایک ضعیف حدیث کی رو سے نبےذ تمر سے وضو کیوں جائز سمجھتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ نبےذتمر کی ضعیف اور مجہول حدیث ضعیف قرار دے کر اس سے کتاب اللہ پرزیادتی جائز سمجھتے ہیں اور یمین مع الشاہد کی صحیح اور مشہور حدیث کو رد کرتے ہیں۔ وہل ہذا لا ظلم عظیم منہ۔ ( وحیدی ) حدیث ہذا کے ذیل میں مرحوم لکھتے ہیں یعنی جب مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں۔ بیہقی نے عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مرفوعاً یوں نکالا البینۃ علی من ادعی والیمین علی من انکر معلوم ہوا کہ مدعیٰ علیہ پر ہر حال میں قسم کھانا لازم ہوگا۔ جب مدعی کے پاس شہادت نہ ہو، خواہ مدعی اور مدعی علیہ میں اختلاط اور ربط ہو یا نہ ہو۔ امام شافعی، اہل حدیث اور جمہور علماءکا یہی قول ہے، لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ مدعیٰ علیہ سے اسی وقت قسم لی جائے گی جب اس میں اور مدعی میں ارتباط اور معاملات ہوں۔ ورنہ ہر شخص شریف آدمیوں کو قسم کھلانے کے لیے جھوٹے دعوے ان پرکرے گا۔ ( وحیدی )
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جو شخص کسی کامال ہتھیانے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائے گا تو اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت اتاری: ’’جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو۔ ۔ ۔ ان کے لیے المناک عذاب ہو گا۔‘‘ پھر اشعث بن قیس ؓ ہمارے پاس تشریف لائے اور انھوں نے دریافت کیا کہ ابو عبدالرحمان ؓ تمھیں کیا حدیث بیان کررہے تھے؟جو کچھ انھوں نے فرمایا تھا ہم نے انھیں بیان کیا۔ وہ فرمانے لگے: انھوں نے سچ فرمایا ہے۔ میرے باے میں ہی یہ آیت اتری تھی۔ ہوا یوں کہ میرے اور ایک (یہودی) آدمی کے درمیان کسی چیز کے متعلق جھگڑا تھا۔ ہم اس مقدمے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو آپ نے فرمایا: ’’تمہارے دو گواہ دعویٰ ثابت کریں گے یا وہ قسم ا ٹھائے گا۔‘‘ میں نے عرض کیا: یہ تو قسم اٹھا لے گا اور اس کی کوئی پروا نہیں کرے گا۔ یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹی قسم اٹھائے تاکہ اسکے ذریعے سے مال کا مستحق ہوجائے، حالانکہ وہ اس میں جھوٹا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت ملے گاکہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی، پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ بالا مقدمے میں حضرت اشعث بن قیس ؓ مدعی تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: تمہیں اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے دو گواہ پیش کرنا ہوں گے، بصورت دیگر مدعا علیہ قسم اٹھائے گا اور مقدمہ اس کے حق میں ہو گا۔ بہرحال قسم اٹھانا مدعا علیہ کے ذمے ہے بشرطیکہ مدعی اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے دو گواہ پیش نہ کر سکے، یا کم از کم ایک گواہ اور قسم دے گا۔ اگر ایسا نہ کر سکا تو مدعا علیہ قسم اٹھا کر بری ہو جائے گا۔ (2) بعض لوگ يمين استظهار کے قائل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مدعی اپنا دعویٰ گواہوں سے ثابت کر دے تو قاضی مدعی سے قسم لے کہ اس کے گواہوں نے جو ثابت کیا ہے وہ مبنی بر حقیقت ہے، اس میں کوئی دھوکا فریب نہیں ہے۔ قاضی شریح، امام نخعی اور اوزاعی وغیرہ اس کے قائل ہیں لیکن جمہور اہل علم اس سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ قرآن و سنت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ابن شبرمہ کہتے ہیں کہ ابو الزناد نے مجھ سے ایک گواہ اور مدعی کی قسم کے متعلق گفتگو کی تو میں نے کہا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے مردوں میں سے دو گواہ بناؤ۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں، ان لوگوں میں سے ہوں جن کو تم گواہی کے لیے پسند کرتے ہو، تاکہ ان میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے۔ "میں نے کہا: اگر ایک گواہ کی گواہی اور مدعی کی قسم کافی ہوتی تو ان میں سے ایک کے دوسرے کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں تھی، ایسےحالات میں دوسری عورت کے یاد دلانے سے کیا فائدہ ہوگا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا منصور سے، ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ عبداللہ ؓ نے کہا کہ جو شخص (جھوٹی) قسم کسی کا مال حاصل کرنے کے لیے کھائے گا تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ اللہ پاک اس پر غضبناک ہوگا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے (اس حدیث کی) تصدیق کے لیے یہ آیت نازل فرمائی۔ ” جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں سے تھوڑی پونجی خریدتے ہیں۔‘‘"عذاب ألیم'' تک۔ پھر اشعث بن قیس ؓ ہماری طرف تشریف لائے اور پوچھنے لگے کہ ابوعبدالرحمن (عبداللہ بن مسعود ؓ) تم سے کون سی حدیث بیان کررہے تھے۔ ہم نے ان کی یہی حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے صحیح بیان کی، یہ آیت میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرا ایک شخص سے جھگڑا تھا۔ ہم اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یا تم دو گواہ لاو، ورنہ اس کی قسم پر فیصلہ ہوگا۔ میں نے کہا کہ (گواہ میرے پاس نہیں ہیں لیکن اگر فیصلہ اس کی قسم پر ہوا) پھر تو یہ ضرور ہی قسم کھالے گا اور کوئی پروانہ کرے گا۔ نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ جو شخص بھی کسی کا مال لینے کے لیے (جھوٹی) قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہوگا۔ اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت نازل فرمائی تھی، پھر انہوں نے یہی آیت تلاوت کی۔
حدیث حاشیہ:
بعض حنفیہ نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ یمین مع الشاهد پر فیصلہ کرنا درست نہیں اور یہ استدلال فاسد ہے کہ یمین مع الشاهد کی شق میں داخل ہے تو مطلب یہ ہے کہ دو گواہ لا اس طرح سے کہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں یا ایک مرد اور ایک قسم ورنہ مدعیٰ علیہ سے قسم لے۔ یہ حنفیہ اتنا غور نہیں کرتے کہ اللہ اور پیغمبر کے کلام کو باہم ملانا بہتر ہے یا ان میں مخالفت ڈالنا، ایک پر عمل کرنا، ایک کو ترک کرنا۔ (وحیدی)الحمد للہ کہ حرم نبوی مدینۃ المنورہ میں 9 اپریل 1970 ءکو حضور ﷺ کے مواجہ شریف میں بیٹھ کر یہاں تک متن کو بغور پڑھا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Wail (RA): Abdullah (bin Mas'ud) said, "Whoever takes a (false) oath in order to grab some property (unjustly), Allah will be angry with him when he will meet Him. Allah confirmed that through His Divine Revelation: "Verily! Those who purchase a little gain at the cost of Allah's covenant and their oaths . . . they will have a painful punishment." (3.77) Al-Ash'ath bin Qais came to us and asked, 'What is Abu Abdur-Rahman (i.e. 'Abdullah) telling you? 'We told him what he was narrating to us. He said, 'He was telling the truth; this Divine Verse was revealed in connection with me. There was a dispute between me and another man about something and the case was filed before Allah's Apostle (ﷺ) who said, 'Produce your two witnesses or else the defendant is to take an oath.' I said, The defendant will surely take a (false) oath caring for nothing.' The Prophet (ﷺ) said, 'Whoever takes a false oath in order to grab (other's) property, then Allah will be angry with him when he will meet Him.' Then Allah revealed its confirmation. Al-Ashath then recited the above Divine Verse." (3.77)