باب : عصر کی نماز کے بعد ( جھوٹی ) قسم کھانا اور زیادہ گناہ ہے
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The taking of an oath after the Asr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2672.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نہ تو ہم کلام ہوگا اور نہ انھیں نظر رحمت ہی سے دیکھے گا، نیز انھیں گناہ سے پاکیزہ قرار نہیں دے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں فالتو پانی ہو اوروہ مسافروں کو نہ دے، دوسرا وہ شخص جو کسی دوسرے سے صرف دنیا کی خاطر بیعت کرے، اگر اس کامطلب پورا ہوتو وفا کرتا ہے اگر مطلب پورا نہ ہوتو وفا نہیں کرتا، تیسرا وہ آدمی جو کسی کے ساتھ عصر کے بعد اپنے سامان وغیرہ کا سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اسے اس مال کے اتنے اتنے ملتے تھے وہ اس کی قسم پر اعتبار کرکے سامان خرید لیتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں بیان کردہ تینوں گناہ اخلاقی اعتبار سے بہت ہی گھٹیا اور گھناؤنے ہیں۔ ان کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ امام بخاری ؒ تیسرے شخص کی وجہ سے اس جگہ یہ حدیث لائے ہیں۔ (2) خریدوفروخت میں جھوٹ بولنا اور جھوٹی قسم اٹھا کر سودا فروخت کرنا ہر وقت گناہ ہے مگر عصر کے بعد ایسی قسم اٹھانا بدتر گناہ ہے کیونکہ اس وقت رات دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نیز اس وقت لوگوں کے اعمال بھی آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، ایسے وقت میں جھوٹ بولنا یا جھوٹی قسم اٹھانا سخت گناہ ہے کہ دن کے اس آخری اور بابرکت حصے میں وہ جھوٹ بولنے سے باز نہ رہ سکا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2578
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2672
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2672
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2672
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نہ تو ہم کلام ہوگا اور نہ انھیں نظر رحمت ہی سے دیکھے گا، نیز انھیں گناہ سے پاکیزہ قرار نہیں دے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں فالتو پانی ہو اوروہ مسافروں کو نہ دے، دوسرا وہ شخص جو کسی دوسرے سے صرف دنیا کی خاطر بیعت کرے، اگر اس کامطلب پورا ہوتو وفا کرتا ہے اگر مطلب پورا نہ ہوتو وفا نہیں کرتا، تیسرا وہ آدمی جو کسی کے ساتھ عصر کے بعد اپنے سامان وغیرہ کا سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اسے اس مال کے اتنے اتنے ملتے تھے وہ اس کی قسم پر اعتبار کرکے سامان خرید لیتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں بیان کردہ تینوں گناہ اخلاقی اعتبار سے بہت ہی گھٹیا اور گھناؤنے ہیں۔ ان کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ امام بخاری ؒ تیسرے شخص کی وجہ سے اس جگہ یہ حدیث لائے ہیں۔ (2) خریدوفروخت میں جھوٹ بولنا اور جھوٹی قسم اٹھا کر سودا فروخت کرنا ہر وقت گناہ ہے مگر عصر کے بعد ایسی قسم اٹھانا بدتر گناہ ہے کیونکہ اس وقت رات دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نیز اس وقت لوگوں کے اعمال بھی آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، ایسے وقت میں جھوٹ بولنا یا جھوٹی قسم اٹھانا سخت گناہ ہے کہ دن کے اس آخری اور بابرکت حصے میں وہ جھوٹ بولنے سے باز نہ رہ سکا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا اعمش سے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین طرح کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالی ان سے بات بھی نہ کرے گا نہ ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ انہیں سخت دردناک عذاب ہوگا۔ ایک وہ شخص جو سفر میں ضرورت سے زیادہ پانی لے جارہا ہے اور کسی مسافر کو (جسے پانی کی ضرورت ہو) نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو کسی (خلیفۃ المسلمین) سے بیعت کرے اور صرف دنیا کے لیے بیعت کرے کہ جس سے اس نے بیعت کی اگر وہ اس کا مقصد پورا کردے تو یہ بھی وفاداری سے کام لے، ورنہ اس کے ساتھ بیعت و عہد کے خلاف کرے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی سے عصر کے بعد کسی سامان کا بھاو کرے اور اللہ کی قسم کھالے کہ اسے اس کا اتنا اتنا روپیہ مل رہا تھا اور خریدار اس سامان کو (اس کی قسم کی وجہ سے) لے لے۔ حالانکہ وہ جھوٹا ہے۔
حدیث حاشیہ:
تینوں گناہ جو یہاں مذکورہ ہوئے اخلاقی اعتبار سے بھی بہت ہی برے ہیں کہ ان کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ مذکورہ تیسرے شخص کی وجہ سے یہاں اس حدیث کو لائے۔ تجارت میں جھوٹ بول کر مال فروخت کرنا ہر وقت ہی گناہ ہے، مگر عصر کے بعد ایسی قسم کھانا اور بھی بدتر گناہ ہے کہ دن کے اس آخری حصہ میں بھی وہ جھوٹ بولنے سے باز نہ رہ سکا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "There are three persons whom Allah will neither talk to nor look at, nor purify from (the sins), and they will have a painful punishment. (They are): (1) A man possessed superfluous water on a way and he withheld it from the travelers. (2) a man who gives a pledge of allegiance to a Muslim ruler and gives it only for worldly gains. If the ruler gives him what he wants, he remains obedient to It, otherwise he does not abide by it, and (3) a man bargains with another man after the Asr prayer and the latter takes a false oath in the Name of Allah) claiming that he has been offered so much for the thing and the former (believes him and) buys it."