ترجمة الباب:
ولا يصرف من موضع إلى غيره. قضى مروان باليمين على زيد بن ثابت على المنبر فقال أحلف له مكاني. فجعل زيد يحلف، وأبى أن يحلف على المنبر، فجعل مروان يعجب منه. وقال النبي صلى الله عليه وسلم شاهداك أو يمينه . فلم يخص مكانا دون مكان.
باب : مدعیٰ علیہ پر جہاں قسم کھانے کا حکم دیا جائے وہیں قسم کھالے یہ ضروری نہیں کہ کسی دوسری جگہ پر جاکر قسم کھائے
)
Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: The defendant has to take an oath wherever it becomes legally compulsory)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور مروان بن حکم نے زید بن ثابتؓ کے ایک مقدمے کا فیصلہ منبر پر بیٹھے ہوئے کیا اور ( مدعیٰ علیہ ہونے کی وجہ سے ) ان سے کہا کہ آپ میری جگہ آ کر قسم کھائیں ۔ لیکن زید ؓ اپنی ہی جگہ سے قسم کھانے لگے اور منبر کے پاس جاکر قسم کھانے سے انکار کردیا ۔ مروان کو اس پر تعجب ہوا ۔ اور نبی کریم ﷺنے ( اشعث بن قیس سے فرمایا تھا کہ دو گواہ لا ورنہ اس ( یہ ودی ) کی قسم پر فیصلہ ہوگا ۔ آپ ﷺ نے کسی خاص جگہ کی تخصیص نہیں فرمائی ۔ مثلاً مدعی کہے کہ مسجد میں چل کر قسم کھاؤ تو مدعیٰ علیہ پر ایسا کرنا لازم نہیں۔ حنفیہ کا یہی قول ہے اور حنابلہ بھی اس کے قائل ہیں اور شافعیہ کے نزدیک اگر قاضی مناسب سمجھے تو ایسا حکم دے سکتا ہے گو مدعی اس کی خواہش نہ کرے۔ مروان کے واقعہ کو امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں وصل کیا ہے۔ زید بن ثابت اور عبداللہ بن مطیع میں ایک مکان کی بابت جھگڑا تھا۔ مروان اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا۔ اس نے زید کو منبر پر جاکر قسم کھانے کا حکم دیا۔ زید نے انکار کیا اورزید کے قول پر عمل کرنا بہترہے، مروان کی رائے پر عمل کرنے سے۔ لیکن حضرت عثمان سے بھی مروان کی رائے کے مطابق منقول ہے کہ منبر کے پاس قسم کھائی جائے، امام شافعی نے کہا، مصحف پر قسم دلانے میں قباحت نہیں۔ ( وحیدی ) اشعث بن قیس اور یہودی کا مقدمہ گزشتہ سے پیوستہ حدیث میں گزرچکا ہے، یہاں اسی طرف اشارہ ہے اگر کچھ اہمیت ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہودی سے تورات ہاتھ میں لے کر قسم کھانے کا حکم فرماتے یا ان کے گرجا میں قسم کھانے کا حکم دیتے۔ مگر شرعاً ان کی قسم کے بارے میں کوئی ضروت نہیں۔
2673.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہوتو وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پرغضبناک ہوگا۔‘‘
تشریح:
(1) زمان و مکان کی تخصیص سے اصل قسم میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے جہاں عدالت ہے، اسی جگہ مدعا علیہ سے قسم لے کر فیصلہ کر دیا جائے۔ قسم لینے کے لیے نہ کسی خاص وقت کا انتظار کیا جائے اور نہ کسی مقدس جگہ ہی کا انتخاب کیا جائے، البتہ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ قسم میں شدت پیدا کرنے کے لیے کسی خاص جگہ، مثلاً: مدینہ میں منبر نبوی، مکہ میں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان اور دیگر مقامات میں مسجد کے اندر یا کسی خاص وقت جیسا کہ عصر کے بعد یا جمعے کے دن قسم لینے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: مصحف پر قسم لینے میں کوئی خرابی نہیں۔ (فتح الباري:350/5) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ ایسی پابندی درست نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت اشعث بن قیس ؓ کے مقدمے میں یہودی سے تورات ہاتھ میں لے کر قسم لینے کا اہتمام کرتے یا ان کے عبادت خانے میں قسم لیتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اسی مقام پر قسم لے کر معاملہ ختم کر دیا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2579
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2673
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2673
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2673
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
مروان کے واقعے کو امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (الموطا للامام مالک،الاقضیۃ،حدیث:1475) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مطیع کا ایک مکان کے متعلق جھگڑا تھا۔ مروان نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو منبر پر آ کر قسم اٹھانے کے لیے کہا تو انہوں نے اس بات سے انکار کر دیا۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس واقعے سے ثابت کیا ہے کہ کسی خاص مقام پر قسم اٹھانا ضروری نہیں۔ (فتح الباری:5/350)
اور مروان بن حکم نے زید بن ثابتؓ کے ایک مقدمے کا فیصلہ منبر پر بیٹھے ہوئے کیا اور ( مدعیٰ علیہ ہونے کی وجہ سے ) ان سے کہا کہ آپ میری جگہ آ کر قسم کھائیں ۔ لیکن زید ؓ اپنی ہی جگہ سے قسم کھانے لگے اور منبر کے پاس جاکر قسم کھانے سے انکار کردیا ۔ مروان کو اس پر تعجب ہوا ۔ اور نبی کریم ﷺنے ( اشعث بن قیس سے فرمایا تھا کہ دو گواہ لا ورنہ اس ( یہ ودی ) کی قسم پر فیصلہ ہوگا ۔ آپ ﷺ نے کسی خاص جگہ کی تخصیص نہیں فرمائی ۔ مثلاً مدعی کہے کہ مسجد میں چل کر قسم کھاؤ تو مدعیٰ علیہ پر ایسا کرنا لازم نہیں۔ حنفیہ کا یہی قول ہے اور حنابلہ بھی اس کے قائل ہیں اور شافعیہ کے نزدیک اگر قاضی مناسب سمجھے تو ایسا حکم دے سکتا ہے گو مدعی اس کی خواہش نہ کرے۔ مروان کے واقعہ کو امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں وصل کیا ہے۔ زید بن ثابت اور عبداللہ بن مطیع میں ایک مکان کی بابت جھگڑا تھا۔ مروان اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا۔ اس نے زید کو منبر پر جاکر قسم کھانے کا حکم دیا۔ زید نے انکار کیا اورزید کے قول پر عمل کرنا بہترہے، مروان کی رائے پر عمل کرنے سے۔ لیکن حضرت عثمان سے بھی مروان کی رائے کے مطابق منقول ہے کہ منبر کے پاس قسم کھائی جائے، امام شافعی نے کہا، مصحف پر قسم دلانے میں قباحت نہیں۔ ( وحیدی ) اشعث بن قیس اور یہودی کا مقدمہ گزشتہ سے پیوستہ حدیث میں گزرچکا ہے، یہاں اسی طرف اشارہ ہے اگر کچھ اہمیت ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہودی سے تورات ہاتھ میں لے کر قسم کھانے کا حکم فرماتے یا ان کے گرجا میں قسم کھانے کا حکم دیتے۔ مگر شرعاً ان کی قسم کے بارے میں کوئی ضروت نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہوتو وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پرغضبناک ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) زمان و مکان کی تخصیص سے اصل قسم میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے جہاں عدالت ہے، اسی جگہ مدعا علیہ سے قسم لے کر فیصلہ کر دیا جائے۔ قسم لینے کے لیے نہ کسی خاص وقت کا انتظار کیا جائے اور نہ کسی مقدس جگہ ہی کا انتخاب کیا جائے، البتہ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ قسم میں شدت پیدا کرنے کے لیے کسی خاص جگہ، مثلاً: مدینہ میں منبر نبوی، مکہ میں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان اور دیگر مقامات میں مسجد کے اندر یا کسی خاص وقت جیسا کہ عصر کے بعد یا جمعے کے دن قسم لینے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں: مصحف پر قسم لینے میں کوئی خرابی نہیں۔ (فتح الباري:350/5) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ ایسی پابندی درست نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ حضرت اشعث بن قیس ؓ کے مقدمے میں یہودی سے تورات ہاتھ میں لے کر قسم لینے کا اہتمام کرتے یا ان کے عبادت خانے میں قسم لیتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اسی مقام پر قسم لے کر معاملہ ختم کر دیا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
مروان رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت زید بن ثابت ؓ کے متعلق منبر پر قسم اٹھانے کا فیصلہ کیا تو انھوں نے فرمایا: میں اس کے لیے اپنی جگہ پر ہی قسم اٹھاؤں گا، پھر حضرت زید بن ثابت ؓنے(وہیں) قسم اٹھانا شروع کردی اور منبر پر آکر قسم اٹھانے سے انکار کردیا۔ اس سے مروان تعجب کرنے لگے۔ نبی کریم ﷺ نے(حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) فرمایا تھا: "دوگواہ لاؤ ورنہ اس(یہودی) کی قسم پر فیصلہ ہوگا۔ "آپ نے کسی خاص جگہ کی تخصیص نہیں فرمائی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسمٰعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاحد نے بیان کیا اعمش سے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جو شخص قسم اس لیے کھاتا ہے تا کہ اس کے ذریعہ کسی کا مال (ناجائز طور پر) ہضم کر جائے تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ پاک اس پر غضبناک ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
قسم میں تاکید و تغلظ کسی خاص مکان جیسے مسجد وغیرہ یا کسی خاص وقت جیسے عصر یا جمعہ کے دن وغیرہ سے نہیں پیدا ہوئی۔ جہاں عدالت ہے اور قانون شریعت کے اعتبار سے مدعیٰ علہ پر قسم واجب ہوئی ہے، اس سے قسم اسی وقت اور وہیں لی جائے، قسم لینے کے لیے نہ کسی خاص وقت کا انتظار کیاجائے اور نہ کسی مقدس جگہ اسے لے جایا جائے۔ اس لیے کہ مکان وزمان سے اصل قسم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امام بخاری ؒ یہی بتلانا چاہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Mas'ud (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever takes a (false) oath in order to grab (others) property, then Allah will be angry with him when he will meet Him."