باب: جس نے جماع کیا اور پھر دوبارہ کیا اور جس نے اپنی کئی بیویوں سے ہمبستر ہو کر ایک ہی غسل کیا اس کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Having sexual intercourse and repeating it. And engaging with one's own wives and taking a single bath (after doing so))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
268.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: نبی ﷺ دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور یہ گیارہ تھیں۔ راوی نے کہا: میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ اس کی طاقت رکھتے تھے؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا: ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے۔ سعید راوی نے قتادہ سے روایت کرتے ہوئے حضرت انس ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ کی نو ازواج مطہرات تھیں۔
تشریح:
1۔ عنوان سے حدیث کی مطابقت کے متعلق علامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث عائشہ ؓ سے پتہ چلتا ہے کہ احرام سے پہلے لگائی گئی خوشبو کے اثرات احرام کے بعد بھی باقی تھے۔ اگر رسول اللہ ﷺ نے ہر بیوی کے پاس الگ الگ غسل کیا ہوتا تو خوشبو کے اثرات کا باقی رہنا عادتا بعید ہے۔ اسی طرح حدیث انس میں عنوان کا ثبوت (في الساعة الواحدة) کے الفاظ سے بھی ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ ایک ساعت میں ہر ایک کے پاس جانا اور ہر ایک کے پاس الگ الگ غسل کرنا عادتا محال ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے سب سے فراغت کے بعد آخر میں ایک غسل فرمایا تھا۔ (حاشیة السندي:59/1) دونوں روایات سے عنوان کا ثبوت اشارۃ النص سے ہو رہا ہے۔ امام بخاری ؒ اپنی دقت نظر کے پیش نظر استدلال کے لیے نئے نئے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک ہی ساعت میں گیارہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لے گئے، حیرت و تعجب کے ساتھ اس سے سوال ہوا کہ آیا رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قدر طاقت تھی کہ آپ ایک وقت میں گیارہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لے جاسکتے تھے؟ حضرت انس ؓ نے جواب دیا: کیونکہ نہیں، ہمارے ہاں یہ بات مشہور تھی کہ آپ کو اس دنیا میں تیس مردوں کی قوت دی گئی۔ اسماعیلی ؒ کی روایت میں چالیس مردوں کی صراحت ہے، اگرچہ روایت شاذ ہے، مگر مراسیل طاوس میں بھی اسی طرح ہے اور اس میں (في الجماع) کا لفظ بھی ہے۔ نیزصفة الجنة لأبي نعیم میں اہل جنت کے آدمیوں کی طاقت کے الفاظ ہیں۔ حضرت زید بن ارقم کی روایت میں ہے کہ جنت کے ایک آدمی کو اکل وشرب اور جماع و شہوت کی قوت ایک سو مردوں کے برابر حاصل ہوگی۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی قوت کا حساب چار ہزارمردوں کے برابرہوتا ہے۔ (فتح الباري:491/1) اس قدر قوت جماع کے باوجود آپ نے صرف گیارہ عورتوں سے تعلق رکھا ہے۔ 3۔ ہشام کی روایت کے مطابق ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد گیارہ ہے۔ جبکہ سعید کی روایت میں نو کا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عقد زواج میں بیک وقت نو سے زیادہ ازواج جمع نہیں ہوئیں، اس بنا پر سعید کی روایت راجح ہے اور ہشام کی روایت کو ازواج کے ساتھ ماریہ اور ریحانہ کو بھی ملانے پر محمول کریں گے۔ ان تمام پر (نِسَاءَ النَّبِيِّ) کا اطلاق بطور تغلیب ہوا ہے۔ علامہ دمیاطی ؒ نے اپنی سیرت میں ان کی تعداد تیس تک بتائی ہے جن میں وہ بھی ہیں جو پوری طرح شرف زوجیت سے مشرف ہوئیں اور وہ بھی ہیں جن سے صرف عقد نکاح ہوا اور وہ بھی ہیں جن کو آپ نے قبل مصاحبت طلاق دے دی اور وہ بھی ہیں جنھیں آپ نے پیغام نکاح دیا لیکن عقد زواج نہ ہوا۔ حق یہ ہے کہ کثرت مذکورہ بوجہ اختلاف بعض اسماء ہوئی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ صحیح تعداد ان سے کہیں کم ہے۔ (فتح الباري:490/1) ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی تعداد میں اختلاف ہے، مگر گیارہ پر سب کا اتفاق ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت اُم حبیبہ ؓ ، حضرت اُم سلمہ ؓ ، حضرت حفصہ ؓ ، حضرت زینب بنت حجش ؓ، حضرت میمونہ ؓ ، حضرت زینب ؓ بنت خزیمہ ؓ ، حضرت جویریہ ؓ ، حضرت سودہ ؓ ، تزوج کے لحاظ سے ترتیب اس طرح ہے: حضرت خدیجہ ؓ، حضرت سودہ ؓ، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ، حضرت اُم سلمہ ؓ، اُ م حبیبہ ؓ، حضرت زینب بنت حجش ؓ ، حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ ، اُم المساکین، حضرت میمونہ ؓ، حضرت جویریہ ؓ ، حضرت صفیہ ؓ ۔ رسول اللہ ﷺ کی بیشتر اولاد حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے ہوئی، جن کی تفصیل یہ ہے: حضرت قاسم ؓ ، حضرت زینب ؓ ، حضرت رقیہ ؓ ، حضرت اُم کلثوم ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ ، حضرت عبد اللہ ؓ ان کے علاوہ آخری اور ساتویں اولاد حضرت ابراہیم ؓ تھے جو آپ کی لونڈی ماریہ قبطیہ کےبطن سے پیدا ہوئے، ان کا انتقال بھی صغرسنی میں ہوا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
270
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
268
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
268
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
268
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: نبی ﷺ دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور یہ گیارہ تھیں۔ راوی نے کہا: میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ اس کی طاقت رکھتے تھے؟ حضرت انس ؓ نے فرمایا: ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے۔ سعید راوی نے قتادہ سے روایت کرتے ہوئے حضرت انس ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ کی نو ازواج مطہرات تھیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ عنوان سے حدیث کی مطابقت کے متعلق علامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث عائشہ ؓ سے پتہ چلتا ہے کہ احرام سے پہلے لگائی گئی خوشبو کے اثرات احرام کے بعد بھی باقی تھے۔ اگر رسول اللہ ﷺ نے ہر بیوی کے پاس الگ الگ غسل کیا ہوتا تو خوشبو کے اثرات کا باقی رہنا عادتا بعید ہے۔ اسی طرح حدیث انس میں عنوان کا ثبوت (في الساعة الواحدة) کے الفاظ سے بھی ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ ایک ساعت میں ہر ایک کے پاس جانا اور ہر ایک کے پاس الگ الگ غسل کرنا عادتا محال ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نے سب سے فراغت کے بعد آخر میں ایک غسل فرمایا تھا۔ (حاشیة السندي:59/1) دونوں روایات سے عنوان کا ثبوت اشارۃ النص سے ہو رہا ہے۔ امام بخاری ؒ اپنی دقت نظر کے پیش نظر استدلال کے لیے نئے نئے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ 2۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک ہی ساعت میں گیارہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لے گئے، حیرت و تعجب کے ساتھ اس سے سوال ہوا کہ آیا رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قدر طاقت تھی کہ آپ ایک وقت میں گیارہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تشریف لے جاسکتے تھے؟ حضرت انس ؓ نے جواب دیا: کیونکہ نہیں، ہمارے ہاں یہ بات مشہور تھی کہ آپ کو اس دنیا میں تیس مردوں کی قوت دی گئی۔ اسماعیلی ؒ کی روایت میں چالیس مردوں کی صراحت ہے، اگرچہ روایت شاذ ہے، مگر مراسیل طاوس میں بھی اسی طرح ہے اور اس میں (في الجماع) کا لفظ بھی ہے۔ نیزصفة الجنة لأبي نعیم میں اہل جنت کے آدمیوں کی طاقت کے الفاظ ہیں۔ حضرت زید بن ارقم کی روایت میں ہے کہ جنت کے ایک آدمی کو اکل وشرب اور جماع و شہوت کی قوت ایک سو مردوں کے برابر حاصل ہوگی۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ کی قوت کا حساب چار ہزارمردوں کے برابرہوتا ہے۔ (فتح الباري:491/1) اس قدر قوت جماع کے باوجود آپ نے صرف گیارہ عورتوں سے تعلق رکھا ہے۔ 3۔ ہشام کی روایت کے مطابق ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد گیارہ ہے۔ جبکہ سعید کی روایت میں نو کا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عقد زواج میں بیک وقت نو سے زیادہ ازواج جمع نہیں ہوئیں، اس بنا پر سعید کی روایت راجح ہے اور ہشام کی روایت کو ازواج کے ساتھ ماریہ اور ریحانہ کو بھی ملانے پر محمول کریں گے۔ ان تمام پر (نِسَاءَ النَّبِيِّ) کا اطلاق بطور تغلیب ہوا ہے۔ علامہ دمیاطی ؒ نے اپنی سیرت میں ان کی تعداد تیس تک بتائی ہے جن میں وہ بھی ہیں جو پوری طرح شرف زوجیت سے مشرف ہوئیں اور وہ بھی ہیں جن سے صرف عقد نکاح ہوا اور وہ بھی ہیں جن کو آپ نے قبل مصاحبت طلاق دے دی اور وہ بھی ہیں جنھیں آپ نے پیغام نکاح دیا لیکن عقد زواج نہ ہوا۔ حق یہ ہے کہ کثرت مذکورہ بوجہ اختلاف بعض اسماء ہوئی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ صحیح تعداد ان سے کہیں کم ہے۔ (فتح الباري:490/1) ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی تعداد میں اختلاف ہے، مگر گیارہ پر سب کا اتفاق ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت اُم حبیبہ ؓ ، حضرت اُم سلمہ ؓ ، حضرت حفصہ ؓ ، حضرت زینب بنت حجش ؓ، حضرت میمونہ ؓ ، حضرت زینب ؓ بنت خزیمہ ؓ ، حضرت جویریہ ؓ ، حضرت سودہ ؓ ، تزوج کے لحاظ سے ترتیب اس طرح ہے: حضرت خدیجہ ؓ، حضرت سودہ ؓ، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ، حضرت اُم سلمہ ؓ، اُ م حبیبہ ؓ، حضرت زینب بنت حجش ؓ ، حضرت زینب بنت خزیمہ ؓ ، اُم المساکین، حضرت میمونہ ؓ، حضرت جویریہ ؓ ، حضرت صفیہ ؓ ۔ رسول اللہ ﷺ کی بیشتر اولاد حضرت خدیجہ ؓ کے بطن سے ہوئی، جن کی تفصیل یہ ہے: حضرت قاسم ؓ ، حضرت زینب ؓ ، حضرت رقیہ ؓ ، حضرت اُم کلثوم ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ ، حضرت عبد اللہ ؓ ان کے علاوہ آخری اور ساتویں اولاد حضرت ابراہیم ؓ تھے جو آپ کی لونڈی ماریہ قبطیہ کےبطن سے پیدا ہوئے، ان کا انتقال بھی صغرسنی میں ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ انھوں نے کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے قتادہ کے واسطہ سے، کہا ہم سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور یہ گیارہ تھیں۔ (نو منکوحہ اور دو لونڈیاں) راوی نے کہا: میں نے انس ؓ سے پوچھا کہ حضور ﷺ اس کی طاقت رکھتے تھے؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے اور سعید نے کہا قتادہ کے واسطہ سے کہ ہم کہتے تھے کہ انس نے ان سے نو ازواج کا ذکر کیا۔
حدیث حاشیہ:
جس جگہ راوی نے نوبیویوں کا ذکر کیا ہے، وہاں آپ کی نوازواج مطہرات ہی مراد ہیں اور جہاں گیارہ کا ذکر آیا ہے۔ وہاں ماریہ اور ریحانہ جو آپ کی لونڈیاں تھیں، ان کو بھی شامل کرلیاگیا۔ علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں:'' قَالَ ابْن خُزَيْمَة، لم يقل أحد من أَصْحَاب قَتَادَة: إِحْدَى عشرَة إلاَّ معَاذ بن هِشَام عَن أَبِيه، وَقد روى البُخَارِيّ الرِّوَايَة الْأُخْرَى عَن أنس: تسع نسْوَة، وَجمع بَينهمَا بِأَن أَزوَاجه كن تسعا فِي هَذَا الْوَقْت كَمَا فِي رِوَايَة سعيد: وسريتاه مَارِيَة وَرَيْحَانَة۔''(عمدة القاري:215/3) حدیث کے لفظ ''في الساعة الواحدة'' سے ترجمۃ الباب ثابت ہوتا ہے۔ آپ نے ایک ہی ساعت میں جملہ بیویوں سے ملاپ فرماکر آخر میں ایک ہی غسل فرمایا۔ قوتِ مردانگی جس کا ذکر روایت میں کیا گیا ہے یہ کوئی عیب نہیں ہے بلکہ نامردی کو عیب شمار کیا جاتا ہے۔ فی الواقع آپ ﷺ میں قوتِ مردانگی اس سے بھی زیادہ تھی۔ باوجود اس کے آپ نے عین عالم شباب میں صرف ایک معمربیوی حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ پر اکتفا فرمایا۔ جو آپ کے کمال ضبط کی ایک بین دلیل ہے۔ ہاں مدنی زندگی میں کچھ ایسے ملکی وسیاسی واخلاقی وسماجی مصالح تھے جن کی بناء پر آپ کی ازواج مطہرات کی تعداد نوتک پہنچ گئی۔ اس پر اعتراض کرنے والوں کو پہلے اپنے گھر کی خبرلینی چاہیے کہ ان کے مذہبی اکابر کے گھروں میں سو، سو بلکہ ہزار تک عورتیں کتب تواریخ میں لکھی ہوئی ہیں۔ کسی دوسرے مقام پر اس کی تفصیل آئے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qatada (RA): Anas bin Malik (RA) said, "The Prophet (ﷺ) used to visit all his wives in a round, during the day and night and they were eleven in number." I asked Anas (RA), "Had the Prophet (ﷺ) the strength for it?" Anas (RA) replied, "We used to say that the Prophet (ﷺ) was given the strength of thirty (men)." And Sa'id said on the authority of Qatada that Anas (RA) had told him about nine wives only (not eleven).