Sahi-Bukhari:
Witnesses
(Chapter: Drawing lots to solve problems)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” جب وہ اپنی قلمیں ڈالنے لگے ( قرعہ اندازی کے لیے تاکہ ) فیصلہ کرسکیں کہ مریم کی کفالت کون کرے “ ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ( آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا ) کہ جب سب لوگوں نے ( نہراردن میں ) اپنے اپنے قلم ڈالے ، تو تمام قلم پانی کے بہاو کے ساتھ بہہ گئے ، لیکن زکریا ؑ کا قلم اس بہاو میں اوپر آگیا ۔ اس لیے انہوں نے ہی مریم ؑ کی تربیت اپنے ذمہ لی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد فساہم کے معنی ہیں پس انہوں نے قرعہ ڈالا ۔ فکان من المدحضین ( میں مدحضین کے معنی ہیں ) من المسہومین ( یعنی قرعہ انہیں کے نام پر نکلا ) حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺنے ( کسی مقدمہ میں مدعیٰ علیہ ہونے کی بنا پر ) کچھ لوگوں سے قسم کھانے کے لیے فرمایا ، تو وہ سب ( ایک ساتھ ) آگے بڑھے ۔ اس لیے آپ ﷺنے ان میں قرعہ ڈالنے کے لیے حکم فرمایا تاکہ فیصلہ ہو کہ سب سے پہلے قسم کون آدمی کھائے ۔ جمہور علماءکے نزدیک قطع نزاع کے لیے قرعہ ڈالنا جائز اور مشروع ہے۔ ابن منذر نے حضرت امام ابوحنیفہ سے بھی اس کا جواز نقل کیا ہے۔ پس آیات اور حدیث سے قرعہ اندازی کا ثبوت ہوا۔ اب اگر کوئی قرعہ اندازی کا انکار کرے تو وہ خود غلطی میں مبتلا ہے۔
2687.
حضرت ام علاء انصاریہ ؓ ان عورتوں میں سے ہیں جنھوں نے نبی کریم ﷺ کی بیعت کی تھی، انھوں نے خبر دی کہ جب مہاجرین کی رہائش کے لیے انصار نے قرعہ اندازی کی تو حضرت عثمان بن مظعون ؓ کا قرعہ ہمارے نام نکلا، اس بنا پر وہ ہمارے پاس رہنے لگے۔ ایک دفعہ وہ بیمار ہوگئے تو ہم نے ان کی خوب دیکھ بھال کی تاآنکہ وہ وفات پاگئے، چنانچہ ہم نے انھیں کفن دیا تو رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو میں نے کہا: اے ابو السائب! تم پر اللہ کی رحمت ہو۔ میں تیرے لیے گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ضرور اعزاز بخشے گا اور تمہارا اکرام کرے گا۔ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تمھیں کیا علم کہ اللہ تعالیٰ اسے عزت و اکرام دے گا؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوں واقعی مجھے علم نہیں ہے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! حضرت عثمان بن مظعون ؓ کو موت آچکی ہے اور میں اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے خیر کی امید کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہوں، اس کے باوجود نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔‘‘ حضرت ام علاء ؓ فرماتی ہیں: اللہ کی قسم!اس کے بعد میں نے کسی کو پاکباز نہیں کہا، البتہ ان کے متعلق اس گفتگو نے مجھے غمناک کردیا، چنانچہ ایک دن مجھے نیند آئی تو مجھے خواب میں حضرت عثمان بن مظعون ؓ کا چشمہ دکھایا گیا جس میں پانی جاری تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ(چشمہ) اس کا عمل ہے (جواب بھی جاری ہے)۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے متعلق یقینی طور پر جنتی ہونے کا دعویٰ نہ کیا جائے، ہاں جن کے متعلق قرآن کریم یا صحیح حدیث میں واضح طور پر آ چکا ہے، مثلاً: عشرہ مبشرہ وغیرہ انہیں یقینی طور پر جنتی کہا جا سکتا ہے، نیز ہر میت کے اعمال اس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں، البتہ صدقۂ جاریہ جیسا عمل قیامت تک جاری رہے گا۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو قرعہ اندازی کے جواز کے لیے پیش کیا ہے، ایسے موقع پر قرعہ اندازی جائز ہے اور اس میں شرعی طور پر کوئی خرابی نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2592
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2687
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2687
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2687
تمہید کتاب
لغوی طور پر شهادات، شهادة کی جمع ہے۔ یہ لفظ مصدر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے: شہادت، پختہ خبر اور آنکھوں دیکھے واقعے کو کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: شہادت کے لغوی معنی حضور کے ہیں، چنانچہ کہا جاتا ہے: الغنيمة لمن شهد الواقعة، یعنی غنیمت اسی کا حق ہے جو جنگ میں حاضر ہو۔ اور گواہ کو شاهد اس لیے کہتے ہیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں حاضر ہو کر غیر کی طرف سے خبر دیتا ہے۔اصطلاحی طور پر شہادت، مشاہدہ اور آنکھوں دیکھی چیز کی خبر دینا ہے، اس خبر کی بنیاد محض اندازہ اور گمان نہ ہو۔ فقہاء کے نزدیک غیر پر اپنا حق ثابت کرنا دعویٰ ہے، غیر کا حق خود پر ثابت کرنا اقرار کہلاتا ہے اور کسی کا حق کسی پر ثابت کرنا شہادت ہے۔دراصل انسان کو مختلف مراحلِ زندگی میں دیوانی، فوجداری، اخلاقی، سیاسی، اجتماعی اور انفرادی مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات اسے مدعی بننا پڑتا ہے اور کبھی مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اسے گواہی بھی دینی پڑتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری تھا کہ معاملات کے مسائل کے ساتھ شہادت کے مسائل بھی کتاب و سنت کی روشنی میں بتائے جائیں، اس لیے مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت شہادت کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کیے ہیں جس سے مذہب اسلام کی جامعیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے۔شہادت کے سلسلے میں دو چیزیں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں، انہیں نظرانداز کر دینا کبیرہ گناہ ہے:(1) امر واقعہ کے مطابق گواہی دینی چاہیے، اس سے کسی چیز کو چھپایا نہ جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ) "گواہی ہرگز نہ چھپاؤ کیونکہ جو شخص گواہی چھپاتا ہے اس کا دل گناہگار ہے۔" (البقرۃ283:2) گواہی چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ گار دل کا کرتوت بتایا ہے۔(2) کسی وقت بھی جھوٹی گواہی نہ دی جائے کیونکہ اللہ کی شریعت میں جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے بڑے گناہوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔" (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2653)اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) "اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔" (الفرقان72:25)امام بخاری رحمہ اللہ نے گواہی کے مسائل و احکام سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے چھہتر مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں گیارہ معلق اور پینسٹھ (65) موصول ہیں، ان میں اڑتالیس مکرر اور اٹھائیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تہتر (73) آثار بھی بیان کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر تیس عنوان قائم کیے ہیں۔گواہی کے علاوہ "قسم" کے مسائل بھی اس عنوان کے تحت بیان کیے ہیں، پھر آخر میں ایک خاص مناسبت، قرعہ اندازی کی اہمیت ذکر کی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار حدیثی اور اسنادی مباحث ذکر کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ حق کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الشھادات میں قرعہ اندازی اس مناسبت سے بیان کی ہے کہ جس طرح گواہوں کے ذریعے سے مقدمات کا فیصلہ ہوتا ہے اسی طرح قرعہ اندازی بھی بعض اوقات فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے سے حقوق دیے جاتے ہیں اور جھگڑوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ جمہور علماء نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے قرعہ ڈالنا جائز قرار دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مندرجہ بالا آیات و احادیث سے اس کی مشروعیت بیان کی ہے، چنانچہ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کرنے کے متعلق قرعدہ اندازی کی گئی۔ اس کے علاوہ حضرت یونس علیہ السلام کو قرعہ اندازی کے ذریعے سے سمندر کے حوالے کیا گیا۔ اگرچہ یہ دونوں واقعات ہم سے پہلی امتوں کے ہیں، تاہم ہماری شریعت میں ان کی مخالفت بیان نہیں ہوئی، لہذا قابل قبول ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر، تفسیر طبری میں موصولاً ذکر کی گئی ہے۔ (تفسیر الطبری:3/314) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الشھادات،حدیث:2674)
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” جب وہ اپنی قلمیں ڈالنے لگے ( قرعہ اندازی کے لیے تاکہ ) فیصلہ کرسکیں کہ مریم کی کفالت کون کرے “ ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ( آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا ) کہ جب سب لوگوں نے ( نہراردن میں ) اپنے اپنے قلم ڈالے ، تو تمام قلم پانی کے بہاو کے ساتھ بہہ گئے ، لیکن زکریا ؑ کا قلم اس بہاو میں اوپر آگیا ۔ اس لیے انہوں نے ہی مریم ؑ کی تربیت اپنے ذمہ لی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد فساہم کے معنی ہیں پس انہوں نے قرعہ ڈالا ۔ فکان من المدحضین ( میں مدحضین کے معنی ہیں ) من المسہومین ( یعنی قرعہ انہیں کے نام پر نکلا ) حضرت ابوہریرہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺنے ( کسی مقدمہ میں مدعیٰ علیہ ہونے کی بنا پر ) کچھ لوگوں سے قسم کھانے کے لیے فرمایا ، تو وہ سب ( ایک ساتھ ) آگے بڑھے ۔ اس لیے آپ ﷺنے ان میں قرعہ ڈالنے کے لیے حکم فرمایا تاکہ فیصلہ ہو کہ سب سے پہلے قسم کون آدمی کھائے ۔ جمہور علماءکے نزدیک قطع نزاع کے لیے قرعہ ڈالنا جائز اور مشروع ہے۔ ابن منذر نے حضرت امام ابوحنیفہ سے بھی اس کا جواز نقل کیا ہے۔ پس آیات اور حدیث سے قرعہ اندازی کا ثبوت ہوا۔ اب اگر کوئی قرعہ اندازی کا انکار کرے تو وہ خود غلطی میں مبتلا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ام علاء انصاریہ ؓ ان عورتوں میں سے ہیں جنھوں نے نبی کریم ﷺ کی بیعت کی تھی، انھوں نے خبر دی کہ جب مہاجرین کی رہائش کے لیے انصار نے قرعہ اندازی کی تو حضرت عثمان بن مظعون ؓ کا قرعہ ہمارے نام نکلا، اس بنا پر وہ ہمارے پاس رہنے لگے۔ ایک دفعہ وہ بیمار ہوگئے تو ہم نے ان کی خوب دیکھ بھال کی تاآنکہ وہ وفات پاگئے، چنانچہ ہم نے انھیں کفن دیا تو رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو میں نے کہا: اے ابو السائب! تم پر اللہ کی رحمت ہو۔ میں تیرے لیے گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ضرور اعزاز بخشے گا اور تمہارا اکرام کرے گا۔ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تمھیں کیا علم کہ اللہ تعالیٰ اسے عزت و اکرام دے گا؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !میرے ماں باپ آپ پرفدا ہوں واقعی مجھے علم نہیں ہے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! حضرت عثمان بن مظعون ؓ کو موت آچکی ہے اور میں اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے خیر کی امید کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول ہوں، اس کے باوجود نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔‘‘ حضرت ام علاء ؓ فرماتی ہیں: اللہ کی قسم!اس کے بعد میں نے کسی کو پاکباز نہیں کہا، البتہ ان کے متعلق اس گفتگو نے مجھے غمناک کردیا، چنانچہ ایک دن مجھے نیند آئی تو مجھے خواب میں حضرت عثمان بن مظعون ؓ کا چشمہ دکھایا گیا جس میں پانی جاری تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ(چشمہ) اس کا عمل ہے (جواب بھی جاری ہے)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے متعلق یقینی طور پر جنتی ہونے کا دعویٰ نہ کیا جائے، ہاں جن کے متعلق قرآن کریم یا صحیح حدیث میں واضح طور پر آ چکا ہے، مثلاً: عشرہ مبشرہ وغیرہ انہیں یقینی طور پر جنتی کہا جا سکتا ہے، نیز ہر میت کے اعمال اس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں، البتہ صدقۂ جاریہ جیسا عمل قیامت تک جاری رہے گا۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو قرعہ اندازی کے جواز کے لیے پیش کیا ہے، ایسے موقع پر قرعہ اندازی جائز ہے اور اس میں شرعی طور پر کوئی خرابی نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جب وہ قرعہ اندازی کے لیے ا پنے قلم ڈالنے لگے کہ کون مریم کی کفالت کرے۔ "حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: جب سب لوگوں نے اپنے اپنے قلم(دریائے اردن میں) پھینکے تو تمام قلم پانی کے بہاؤ میں بہہ نکلے لیکن حضرت زکریا ؑ کا قلم اس بہاؤ میں اوپر تیرنے لگا۔ اس بنا پر حضرت زکریا علیہ السلام نے ان(مریم علیہ السلام ) کی تربیت وپرورش اپنے ذمے لی۔ قرآن مجید میں سَاهَمَکے معنی قرعہ اندازی کے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ: فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ کے معنی ہیں: اس کے نام قرعہ نکل آیا۔حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا: نبی کریمﷺ نے کسی قوم پر قسم پیش کی(قسم اٹھانے کا کہا) تو قسم اٹھانے میں تمام لوگ جلدی کرنے لگے۔ تب آپ نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کرنے کاحکم دیا تاکہ جس کے نام قرعہ نکلے وہی قسم اٹھائے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبردی زہری سے، ان سے خارجہ بن زید انصاری نے بیان کیا کہ ان کی رشتہ دار ایک عورت ام علاء نامی ؓنے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت بھی کی تھی، انہیں خبر دی کہ انصار نے مہاجرین کو اپنے یہاں ٹھہرانے کے لیے پانسے ڈالے تو عثمان بن مظعون ؓ کا قیام ہمارے حصے میں آیا۔ ام علاءؓ نے کہا کہ پھر عثمان بن مظعون ؓ ہمارے گھر ٹھہرے اور کچھ مدت بعد وہ بیمار پڑگئے۔ ہم نے ان کی تیمار داری کی مگر کچھ دن بعد ان کی وفات ہوگئی۔ جب ہم انہیں کفن دے چکے تو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ میں نے کہا، ابوالسائب! (عثمان ؓ کی کنیت) تم پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، میری گواہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے یہاں تمہاری ضرور عزت اور بڑائی کی ہوگی۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ بات تمہیں کیسے معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت اور بڑائی کی ہوگی۔ میں نے عرض کیا، میرے ماں اور باپ آپ پر فدا ہوں، مجھے یہ بات کسی ذریعہ سے معلوم نہیں ہوئی ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا، عثمان کا جہاں تک معاملہ ہے، تو اللہ گواہ ہے کہ ان کی وفات ہوچکی اور میں ان کے بارے میں اللہ سے خیرہی کی امید رکھتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول ہونے کے باوجود مجھے بھی یہ علم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ ام علاءؓ کہنے لگیں، اللہ کی قسم! اب اس کے بعد میں کسی شخص کی پاکی کبھی بیان نہیں کروں گی۔ اس سے مجھے رنج بھی ہوا (کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے میں نے ایک ایسی بات کہی جس کا مجھے حقیقی علم نہیں تھا) انہوں نے کہا (ایک دن) میں سورہی تھی، میں نے خواب میں حضرت عثمان ؓ کے لیے ایک بہتا ہوا چشمہ دیکھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ سے خواب بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ان کا عمل (نیک) تھا۔
حدیث حاشیہ:
کسی بھی بزرگ کے لیے قطعی جنتی ہونے کا حکم لگانا یہ منصب صرف اللہ اور رسول ہی کو حاصل ہے اور کسی کو بھی حق نہیں کہ کسی کو مطلق جنتی کہہ سکے۔ روایت میں قسم کے لیے لفظ واللہ بار بار آیا ہے اسی غرض سے امام بخاری ؒ اس کو یہاں لائے ہیں۔ دوسری روایت میں یوں ہے۔ میرا حال کیا ہونا ہے اور عثمان کا حال کیا ہونا ہے۔ یہ موافق ہے اس آیت کے جو سورۃ احقاف میں ہے ﴿وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ﴾(الأحقاف:9)یعنی میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔ حدیث میں قرعہ اندازی کا ذکر ہے، باب کے مطابق یہ بھی ایک توجیہ ہے۔ پادریوں کا یہ اعتراض کہ تمہارے پیغمبر کو جب اپنی نجات کا علم نہ تھا تو دوسروں کی نجات وہ کیسے کراسکتے ہیں۔ محض لغو اعتراض ہے۔ اس لیے کہ اگر آپ سچے پیغمبر نہ ہوتے تو ضرور اپنی تسلی کے لیے یوں فرماتے کہ میں ایسا کروں گا ویسا کروں گا، مجھے سب اختیار ہے۔ سچے راست باز ہمیشہ انکساری سامنے رکھتے ہیں۔ اسی بنا پر آپ ﷺنے ایسا فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Al-Ala (RA): That when the Ansar drew lots as to which of the emigrants should dwell with which of the Ansar, the name of Uthman bin Mazun came out (to be in their lot). Um Al-Ala further said, "Uthman stayed with us, and we nursed him when he got sick, but he died. We shrouded him in his clothes, and Allah's Apostle (ﷺ) came to our house and I said, (addressing the dead 'Uthman), 'O Abu As-Sa'ib! May Allah be merciful to you. I testify that Allah has blessed you.' The Prophet (ﷺ) said to me, "How do you know that Allah has blessed him?" I replied, 'I do not know O Allah's Apostle (ﷺ) ! May my parents be sacrificed for you.' Allah's Apostle (ﷺ) said, 'As regards Uthman, by Allah he has died and I really wish him every good, yet, by Allah, although I am Allah's Apostle, I do not know what will be done to him.' Um Al-Ala added, 'By Allah I shall never attest the piety of anybody after him. And what Allah's Apostles said made me sad." Um Al-Ala further said, "Once I slept and saw in a dream, a flowing stream for Uthman. So I went to Allah's Apostle (ﷺ) and told him about it, he said, 'That is (the symbol of) his deeds."