باب : حاکم لوگوں سے کہے ہم کو لے چلو ہم صلح کرا دیں
)
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: "Let us go to bring about a (re)conciliation.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2693.
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اہل قباء ایک مرتبہ لڑ پڑے یہاں تک انھوں نے ایک دوسرے کو پتھر مارے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا: "ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم ان کی آپس میں صلح کرادیں۔ "
تشریح:
(1) سنگین اختلافات کے وقت قابل اعتبار اہل علم اور اثرورسوخ کی حامل شخصیات کو چاہیے کہ وہ صلح میں اپنا کردار ادا کریں اور اس بات کا انتظار نہ کریں کہ کوئی انہیں صلح کروانے کی دعوت دے تو پھر وہ جائیں گے۔ اگرچہ امام اور حاکم وقت کا کام مناسب کاروائی کرنا اور سزا وغیرہ دینا ہے لیکن اگر وہ فیصلہ کرنے کے بجائے فریقین میں صلح کرا دے تو اس کا یہ اقدام بہتر ہے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جائے وقوعہ پر پہنچ کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ نتیجے تک پہنچنے میں آسانی ہو اور صلح کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2598
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2693
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2693
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2693
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اہل قباء ایک مرتبہ لڑ پڑے یہاں تک انھوں نے ایک دوسرے کو پتھر مارے۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا: "ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم ان کی آپس میں صلح کرادیں۔ "
حدیث حاشیہ:
(1) سنگین اختلافات کے وقت قابل اعتبار اہل علم اور اثرورسوخ کی حامل شخصیات کو چاہیے کہ وہ صلح میں اپنا کردار ادا کریں اور اس بات کا انتظار نہ کریں کہ کوئی انہیں صلح کروانے کی دعوت دے تو پھر وہ جائیں گے۔ اگرچہ امام اور حاکم وقت کا کام مناسب کاروائی کرنا اور سزا وغیرہ دینا ہے لیکن اگر وہ فیصلہ کرنے کے بجائے فریقین میں صلح کرا دے تو اس کا یہ اقدام بہتر ہے۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جائے وقوعہ پر پہنچ کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ نتیجے تک پہنچنے میں آسانی ہو اور صلح کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی اور اسحاق بن محمد فروی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ قباء کے لوگوں نے آپس میں جھگڑا کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک نے دوسرے پر پتھر پھینکے، آنحضرت ﷺ کو جب اس کی اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا۔ چلو ہم ان میں صلح کرائیں گے۔
حدیث حاشیہ:
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کے لیے خود پیش قدمی فرمائی، یہی باب کا مقصد ہے۔ باہمی جھگڑے کا ہونا ہر وقت ممکن ہے، مگر اسلام کا تقاضا بلکہ انسانیت کا تقاضا ہے کہ حسن تدبیر سے ایسے جھگڑوں کو ختم کرکے باہمی اتفاق کرادیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA): Once the people of Quba fought with each other till they threw stones on each other. When Allah's Apostle (ﷺ) was informed about it, he said, "Let us go to bring about a reconciliation between them."