باب : سورۃ نساء میں اللہ کا یہ فرمانا اگر میاں بیوی صلح کرلیں تو صلح ہی بہتر ہے
)
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: The Statement of Allah azza'wajal: "... If they make terms of peace between themselves; and making peace is better...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2694.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے درج ذیل آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر کوئی عورت ا پنے خاوند سے بے توجہی یا روگردانی کا اندیشہ رکھتی ہو۔‘‘ اس سے مراد ایسا شوہر ہے جو اپنی بیوی میں ایسی چیز دیکھے جو اسے پسند نہ ہو، مثلاً: بڑھاپا وغیرہ اور وہ اس کے پیش نظر اسے جدا کرنا چاہتا ہو تو عورت اسے پیشکش کرے کہ مجھے اپنے پاس رکھو اور جو چاہو دیتے رہو۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ’’اگر وہ دونوں راضی ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں۔‘‘
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ صلح ہی میں خیر و برکت ہے اگرچہ اپنے کسی حق کو ختم ہی کرنا پڑے۔ درج بالا صورت حال کے پیش نظر اگر مرد طے شدہ قرار داد کے مطابق اس کی باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس رہے یا اس کے خرچے میں کچھ کمی کر دے تو گناہ گار نہیں ہو گا کیونکہ عورت نے اپنی رضا مندی سے اپنا حق ختم کیا ہے۔ میاں بیوی کا صلح و صفائی سے رہنا اسلام میں بہت اہمیت رکھتا ہے جیسا کہ حضرت سودہ ؓ نے اپنی باری سیدہ عائشہ ؓ کو ہبہ کر دی تھی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2599
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2694
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2694
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2694
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے درج ذیل آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر کوئی عورت ا پنے خاوند سے بے توجہی یا روگردانی کا اندیشہ رکھتی ہو۔‘‘ اس سے مراد ایسا شوہر ہے جو اپنی بیوی میں ایسی چیز دیکھے جو اسے پسند نہ ہو، مثلاً: بڑھاپا وغیرہ اور وہ اس کے پیش نظر اسے جدا کرنا چاہتا ہو تو عورت اسے پیشکش کرے کہ مجھے اپنے پاس رکھو اور جو چاہو دیتے رہو۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ’’اگر وہ دونوں راضی ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ صلح ہی میں خیر و برکت ہے اگرچہ اپنے کسی حق کو ختم ہی کرنا پڑے۔ درج بالا صورت حال کے پیش نظر اگر مرد طے شدہ قرار داد کے مطابق اس کی باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس رہے یا اس کے خرچے میں کچھ کمی کر دے تو گناہ گار نہیں ہو گا کیونکہ عورت نے اپنی رضا مندی سے اپنا حق ختم کیا ہے۔ میاں بیوی کا صلح و صفائی سے رہنا اسلام میں بہت اہمیت رکھتا ہے جیسا کہ حضرت سودہ ؓ نے اپنی باری سیدہ عائشہ ؓ کو ہبہ کر دی تھی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے (اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں فرمایا) ”اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے بے توجہی دیکھے“ تو اس سے مراد ایسا شوہر ہے جو اپنی بیوی میں ایسی چیزیں پائے جو اسے پسند نہ ہوں، عمر کی زیادتی وغیرہ اور اس لیے اسے اپنے سے جدا کرنا چاہتا ہو اور عورت کہے کہ مجھے جدا نہ کرو (نفقہ وغیرہ) جس طرح تم چاہو دیتے رہنا، تو انہوں نے فرمایا کہ اگر دونوں اس پر راضی ہوجائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
پھر اگر مرد قرار داد کے موافق اس کی باری میں دوسری عورت کے پاس رہے یا اس کو خرچ کم دے تو گنہگار نہ ہوگا۔ کیوں کہ عورت نے اپنی رضا مندی سے اپنا حق ساقط کردیا، جیسا کہ حضرت سودہ ؓ نے اپنی رضا سے اپنی باری حضرت عائشہ ؓ کو دے دی تھی اور آنحضرت ﷺ ان کی باری کے دن حضرت عائشہ ؓ کے یہاں رہا کرتے تھے۔ میاں بیوی کا باہمی طور پر صلح صفائی سے رہنا اسلام میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): The following Verse: If a woman fears cruelty or desertion on her husband's part (i.e. the husband notices something unpleasant about his wife, such as old age or the like, and wants to divorce her, but she asks him to keep her and provide for her as he wishes). (4.128) "There is no blame on them if they reconcile on such basis."