ترجمة الباب:
فيه عن أبي سفيان، وقال عوف بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم ثم تكون هدنة بينكم وبين بني الأصفر . وفيه سهل بن حنيف وأسماء والمسور عن النبي صلى الله عليه وسلم.
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: To make peace with Al-Mushrikun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس باب میں ابوسفیانؓ کی حدیث ہے ۔ عوف بن مالک ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ ایک دن آئے گا کہ پھر تمہاری رومیوں سے صلح ہو جائے گی ۔ اس باب میں سہل بن حنیف اسماءاور مسور رضی اللہ عنہم کی بھی نبی کریم ﷺسے روایات ہیں ۔
2702.
حضرت سہل بن ابی حشمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ؓ خیبر کی طرف گئے، خیبر کے یہودیوں سے ان دنوں مسلمانوں کی صلح تھی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2606
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2702
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2702
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2702
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے شاہ روم ہرقل کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں قریش سے صلح کر لی ہے۔ (صحیح البخاری،الایمان،حدیث:7) حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کی ہے جس میں رومیوں سے صلح کا بیان ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ،حدیث:3176) حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت بھی صحیح بخاری میں ہے۔ (صحیح البخاری،الجزیۃ،حدیث:3181) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی روایت کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، جس میں ان کی والدہ کے مدینہ طیبہ آنے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2620) حضرت مسور رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی آئندہ آ رہی ہے۔ (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2712) ان روایات میں کفار و مشرکین سے صلح کا ذکر ہے، بوقت ضرورت ان سے صلح کا معاہدہ ہو سکتا ہے۔
اس باب میں ابوسفیانؓ کی حدیث ہے ۔ عوف بن مالک ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ ایک دن آئے گا کہ پھر تمہاری رومیوں سے صلح ہو جائے گی ۔ اس باب میں سہل بن حنیف اسماءاور مسور رضی اللہ عنہم کی بھی نبی کریم ﷺسے روایات ہیں ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن ابی حشمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ؓ خیبر کی طرف گئے، خیبر کے یہودیوں سے ان دنوں مسلمانوں کی صلح تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
اس کے متعلق حضرت ابو سفیانؓ سے مروی ایک حدیث ہے۔ حضرت عوف بن مالک ؓ نبی کریم ﷺسے بیان کرتے ہیں: "پھر تمہاری رومیوں سے صلح ہوجائےگی۔ "اسکے متعلق حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے وہ دن بھی دیکھا جب ابو جندل کو بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں، نیز حضرت اسماء اور حضرت مسورؓ کی بھی نبی کریم ﷺسے روایات ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر بن یسار نے اور ان سے سہل بن ابی حثمہ ؓ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ؓ خیبر گئے۔ خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی ان دنوں صلح تھی۔
حدیث حاشیہ:
اسی سے کافروں کے ساتھ صلح کرنا ثابت ہوا۔ صلح کے متعلق اسلام نے خاص ہدایات اسی لیے دی ہیں کہ اسلام سراسر امن اور صلح کا علمبردار ہے۔ اسلام نے جنگ و جدال کو کبھی پسند نہیں کیا، قرآن مجید میں صاف ہدایت ہے۔ ﴿وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا﴾(الأنفال:61) اگر دشمن صلح کرنا چاہے تو آپ ضرور صلح کے لیے جھک جائیے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی جنگی احکامات ہیں وہ صرف مدافعت کے لیے ہیں۔ جارحانہ ہدایت کہیں بھی نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Abu Hathma (RA): Abdullah bin Sahl and Muhaiyisa bin Mas'ud bin Zaid went to Khaibar when it had a peace treaty (with the Muslims).