باب : دیت پر صلح کرنا ( یعنی قصاص معاف کرکے دیت پر راضی ہوجانا )
)
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: Agreement about Diya (blood money))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2703.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ حضرت ربیع ؓ جونضر کی دختر تھیں، انھوں نے کسی نوجوان لڑکی کا اگلا دانت توڑ دیا تو لڑکی کے ورثاء نے تاوان کا مطالبہ کردیا۔ ربیع کے خاندان نے معافی کی درخواست کی تو انھوں نے انکار کردیا اور وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے قصاص لینے کا حکم دیا۔ حضرت انس بن نضر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ربیع کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے انس ؓ ! کتاب اللہ کا فیصلہ تو قصاص ہی ہے۔‘‘ یہ سن کر دوسرے لوگ راضی ہوگئے اور انھوں نے قصاص معاف کردیا۔ تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں، اگر وہ اللہ پر یقین محکم رکھتے ہوئے قسم اٹھالیں توا للہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرمادیتا ہے۔‘‘ (راوی حدیث) فزاری نے حضرت انس ؓ سے یہ الفاظ زائد نقل کیے ہیں، قوم راضی ہوگئی اور انھوں نے دیت قبول کرلی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2607
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2703
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2703
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2703
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ حضرت ربیع ؓ جونضر کی دختر تھیں، انھوں نے کسی نوجوان لڑکی کا اگلا دانت توڑ دیا تو لڑکی کے ورثاء نے تاوان کا مطالبہ کردیا۔ ربیع کے خاندان نے معافی کی درخواست کی تو انھوں نے انکار کردیا اور وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے قصاص لینے کا حکم دیا۔ حضرت انس بن نضر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا ربیع کا دانت توڑ دیا جائے گا؟ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے انس ؓ ! کتاب اللہ کا فیصلہ تو قصاص ہی ہے۔‘‘ یہ سن کر دوسرے لوگ راضی ہوگئے اور انھوں نے قصاص معاف کردیا۔ تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں، اگر وہ اللہ پر یقین محکم رکھتے ہوئے قسم اٹھالیں توا للہ تعالیٰ ان کی قسم پوری فرمادیتا ہے۔‘‘ (راوی حدیث) فزاری نے حضرت انس ؓ سے یہ الفاظ زائد نقل کیے ہیں، قوم راضی ہوگئی اور انھوں نے دیت قبول کرلی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا مجھ سے حمید نے بیان کیا اوران سے انس ؓ نے بیان کیا کہ نضر کی بیٹی ربیع ؓ نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے۔ اس پر لڑکی والوں نے تاوان مانگا اور ان لوگوں نے معافی چاہی، لیکن معاف کرنے سے انہوں نے انکار کیا۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے بدلہ لینے کا حکم دیا۔ (یعنی ان کا بھی دانت توڑ دیا جائے) انس بن نضر ؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ربیع کا دانت کس طرح توڑا جاسکے گا۔ نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا انس! کتاب اللہ کا فیصلہ تو بدلہ لینے (قصاص) ہی کا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ راضی ہوگئے اور معاف کردیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ خودان کی قسم پوری کرتا ہے۔ فزاری نے (اپنی روایت میں) حمید سے، اور انہوں نے انس ؓ سے یہ زیادتی نقل کی ہے کہ وہ لو گ راضی ہوگئے اور تاوان لے لیا۔
حدیث حاشیہ:
دیت پر صلح کرنا ثابت ہوا۔ حضرت انس بن نضر ؓ نے اللہ کی قسم اس امید پر کھائی کہ وہ ضرور ضرور فریق ثانی کے دل موڑدے گا اور وہ قصاص کے بدلہ دیت پر راضی ہوجائیں گے۔ چنانچہ اللہ نے ان کی قسم کو پورا کردیا اور فریق ثانی دیت لینے پر راضی ہوگیا، جس پر آنحضرت ﷺ نے کچھ مقبولان بارگاہ الٰہی کی نشا ندہی فرمائی کہ وہ ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ پاک سے متعلق اپنے دلوں میں کوئی سچا عزم کرلیں اور اس کو پورے بھروسے پر درمیان میں لے آئیں تو ضرور ضرور ان کا عزم پورا کردیتا ہے اور وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ انبیاء ؑ اور اولیائے کاملین میں ایسی بہت سی مثالیں تاریخ عالم کے صفحات پر موجود ہیں اور قدرت کا یہ قانون اب بھی جاری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Ar-Rabi, the daughter of An-Nadr broke the tooth of a girl, and the relatives of Ar-Rabi' requested the girl's relatives to accept the Irsh (compensation for wounds etc.) and forgive (the offender), but they refused. So, they went to the Prophet (ﷺ) who ordered them to bring about retaliation. Anas bin An-Nadr asked, "O Allah"; Apostle (ﷺ) ! Will the tooth of Ar-Rabi' be broken? No, by Him Who has sent you with the Truth, her tooth will not be broken." The Prophet (ﷺ) said, "O Anas! Allah"; law ordains retaliation." Later the relatives of the girl agreed and forgave her. The Prophet (ﷺ) said, "There are some of Allah's slaves who, if they take an oath by Allah, are responded to by Allah i.e. their oath is fulfilled). Anas added, "The people agreed and accepted the Irsh."