باب : لوگوں میں آپس میں ملاپ کرانے اور انصاف کرنے کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Peacemaking
(Chapter: The superoirity of making peace and establishing justice among the people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2707.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے لوگوں کے تمام جوڑوں پر صدقہ ہے اور لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے۔‘‘
تشریح:
(1) انسان کی ہڈیاں اور جوڑ اس کا اصل وجود ہے۔ انہی کے ذریعے سے وہ حرکت کرتا ہے۔ اس لیے ہڈیاں اور جوڑ اللہ کے بہت بڑے احسان ہیں اور ہر احسان پر اللہ کا شکر واجب ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرمائی ہے کہ لوگوں کے درمیان صلح کرا دینے اور ان میں عدل و انصاف کرنے سے اس کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے۔ عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ فیصلہ کرنے سے مقصود عدل و انصاف کا قائم کرنا اور جھگڑا ختم کرنا ہے، نیز سب لوگ حاکم نہیں ہوتے۔ حکام کا عدل و انصاف کرنے کا حکم ہے اور جو حکمران نہیں ہیں وہ لوگوں کے درمیان اصلاح کا فریضہ ادا کریں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2611
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2707
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2707
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2707
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے لفظ صلح مصالحت کا اسم مصدر ہے۔ لڑائی جھگڑے کے برعکس امن و آشتی اس کے معنی ہیں۔ شریعت میں اس سے مراد وہ معاہدہ ہے جس کے ذریعے اور مدعا علیہ کے درمیان جھگڑا ختم کرایا جاتا ہے۔ صلح کے مقابلے میں لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہے جس کی سنگینی کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥﴾) "اور اللہ تعالیٰ جھگڑے اور فساد کو پسند نہیں کرتا۔" (البقرۃ205:2)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے؟" صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ضرور بتلائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کیا ہے؟ آپس میں صلح و آشتی سے رہنا۔ باہمی فساد تو نیکیاں ختم کر دیتا ہے۔" (مسند احمد:6/445،444) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صلح کی کئی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:(1) مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ صلح کہ وہ ایک دوسرے کو بلاوجہ تنگ نہیں کریں گے۔(2) میاں بیوی کے درمیان صلح کہ وہ دونوں گھر میں پیار محبت سے رہیں گے۔(3) باغی گروہ اور عدل پسند جماعت کے درمیان صلح۔ اس کی قرآن نے ترغیب دی ہے۔(4) آپس میں ناراض ہونے والوں کے درمیان صلح کرانا۔ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔(5) زخمی ہونے والے کو قصاص، یعنی بدلہ لینے کے بجائے مال پر صلح کے لیے آمادہ کرنا۔(6) آئندہ لڑائی جھگڑے کا دروازہ بند کرنے کے لیے لوگوں کے مابین صلح کرانا۔یہ آخری قسم املاک اور مشترک چیزوں میں صلح کی ہو سکتی ہے، جیسے راستے وغیرہ۔ فقہ کی کتابوں میں اس آخری قسم کی فروعات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صلح کے متعلق انتہائی قیمتی معلومات اور احکام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ مذکورہ قسموں میں سے اکثر پر عنوان بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اکتیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے بارہ معلق اور انیس متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں انیس مکرر اور بارہ خالص ہیں۔ تین احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے تین آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ واضح رہے کہ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو انتہائی اہم اور دور حاضر کی ضرورت ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں صلح کی اہمیت و افادیت، فضیلت و منقبت، آداب و شرائط اور احکام و مسائل بیان کیے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو پڑھتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کس حد تک ان پر عمل پیرا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن محدثین کے گروہ میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے لوگوں کے تمام جوڑوں پر صدقہ ہے اور لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) انسان کی ہڈیاں اور جوڑ اس کا اصل وجود ہے۔ انہی کے ذریعے سے وہ حرکت کرتا ہے۔ اس لیے ہڈیاں اور جوڑ اللہ کے بہت بڑے احسان ہیں اور ہر احسان پر اللہ کا شکر واجب ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرمائی ہے کہ لوگوں کے درمیان صلح کرا دینے اور ان میں عدل و انصاف کرنے سے اس کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے۔ عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ فیصلہ کرنے سے مقصود عدل و انصاف کا قائم کرنا اور جھگڑا ختم کرنا ہے، نیز سب لوگ حاکم نہیں ہوتے۔ حکام کا عدل و انصاف کرنے کا حکم ہے اور جو حکمران نہیں ہیں وہ لوگوں کے درمیان اصلاح کا فریضہ ادا کریں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، انسان کے بدن کے (تین سو ساٹھ جوڑوں میں سے) ہر جوڑ پر ہر اس دن کا صدقہ واجب ہے جس میں سورج طلوع ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی جو صدقہ واجب تھا وہ لوگوں کے درمیان عدل کرنے سے بھی ادا ہوجاتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ بھی ہے کہ لوگوں کے درمیان انصاف کیا جائے یہ بھی ایک طرح کا صدقہ ہی ہے جس کے نتائج بہت دور رس ہوتے ہیں، اسی لیے آپس میں میل ملاپ کرادینے کو نفل نماز اور نفلی روزہ سے بھی زیادہ اہم عمل بتلایا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "There is a Sadaqa to be given for every joint of the human body; and for every day on which the sun rises there is a reward of a Sadaqa (i.e. charitable gift) for the one who establishes justice among people