ترجمة الباب:
وقال عمر إن مقاطع الحقوق عند الشروط، ولك ما شرطت. وقال المسور سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ذكر صهرا له فأثنى عليه في مصاهرته فأحسن قال حدثني وصدقني ووعدني فوفى لي .
Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: The terms and the conditions of Mahr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ حقوق کی اقطعیت شرائط کے پورا کرنے ہی سے ہوتی ہے اور تمہیں شرط کے مطابق ہی ملے گا ۔ مسور نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ سے میں نے سنا کہ آپ نے اپنے ایک داماد کا ذکر فرمایا اور ( حقوق ) دامادی ( کی ادائیگی میں ) ان کی بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جب بھی کوئی بات کہی تو سچ کہی اور وعدہ کیا تو اس میں پورے نکلے ۔
2721.
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ شرطیں جن کا پورا کرنا تمھارے لیے ضروری ہے وہ ہیں جن کو تم نکاح میں طے کر کے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔‘‘
تشریح:
شرائط کے متعلق دو باتیں قابل غور ہیں: ٭ یہ شرائط واجب اور ضروری ہیں یا ان کو پورا کرنا مستحب ہے؟ راجح بات یہ ہے کہ ان شرائط کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہے الا یہ کہ فریقین میں افہام و تفہیم ہو جائے۔ ٭ دوسری بات یہ ہے کہ ان شرائط کا تعلق صرف عقد نکاح سے ہے، جیسے مہر کی ادائیگی اور اخراجات وغیرہ یا اس سے مراد وہ تمام شرائط ہیں جو عقد نکاح کے وقت طے پا جائیں؟ اس بارے میں علماء کی دونوں رائے ہیں۔ ہمارا رجحان یہ ہے کہ نکاح کے وقت جو شرائط طے ہو جائیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ وہ کتاب و سنت کے خلاف نہ ہوں کیونکہ حدیث مطلق ہے، اسے صرف نکاح سے متعلق شرائط کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2624
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2721
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2721
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2721
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آثار کو کتاب النکاح میں بھی بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،النکاح،قبل حدیث:5151) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:6/101) حضرت مسور رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں داماد سے مراد حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ ہیں جو سیدہ زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شوہر تھے۔ وہ غزوۂ بدر میں گرفتار ہوئے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکرام کے پیش نظر انہیں فدیے کے بغیر ہی چھوڑ دیا۔ مشرکین کے کہنے پر وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو مکہ مکرمہ لے گئے لیکن مشرکین کے اصرار کے باوجود اسے طلاق نہ دی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدے کے مطابق انہیں جلدی مدینہ طیبہ پہنچا دیا۔ فتح مکہ کے وقت وہ مسلمان ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح سابق سے اپنی بیٹی اس کے ساتھ روانہ کر دی اور اس کی احسان مندی کا شکریہ ادا کیا، نیز وعدہ پورا کرنے پر اس کی تعریف کی۔ حضرت مسور کی حدیث کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاری،فرض الخمس،حدیث:3110)
اور حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ حقوق کی اقطعیت شرائط کے پورا کرنے ہی سے ہوتی ہے اور تمہیں شرط کے مطابق ہی ملے گا ۔ مسور نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ سے میں نے سنا کہ آپ نے اپنے ایک داماد کا ذکر فرمایا اور ( حقوق ) دامادی ( کی ادائیگی میں ) ان کی بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جب بھی کوئی بات کہی تو سچ کہی اور وعدہ کیا تو اس میں پورے نکلے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ شرطیں جن کا پورا کرنا تمھارے لیے ضروری ہے وہ ہیں جن کو تم نکاح میں طے کر کے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
شرائط کے متعلق دو باتیں قابل غور ہیں: ٭ یہ شرائط واجب اور ضروری ہیں یا ان کو پورا کرنا مستحب ہے؟ راجح بات یہ ہے کہ ان شرائط کو پورا کرنا واجب اور ضروری ہے الا یہ کہ فریقین میں افہام و تفہیم ہو جائے۔ ٭ دوسری بات یہ ہے کہ ان شرائط کا تعلق صرف عقد نکاح سے ہے، جیسے مہر کی ادائیگی اور اخراجات وغیرہ یا اس سے مراد وہ تمام شرائط ہیں جو عقد نکاح کے وقت طے پا جائیں؟ اس بارے میں علماء کی دونوں رائے ہیں۔ ہمارا رجحان یہ ہے کہ نکاح کے وقت جو شرائط طے ہو جائیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ وہ کتاب و سنت کے خلاف نہ ہوں کیونکہ حدیث مطلق ہے، اسے صرف نکاح سے متعلق شرائط کے ساتھ خاص کرنا صحیح نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر ؓ نے فرمایا: حقوق کے فیصلے شرائط کے مطابق ہوں گے۔ یعنی حقوق کی قطعیت شرط کے پوراہونے کے وقت ہوتی ہے اور تمھیں وہی کچھ ملے گا جو تم نے شرط کی ہے۔ حضرت مسورؓ عنہ نے کہا : میں نے نبی ﷺ سے سنا کہ آپ نے اپنے داماد کا ذکر کیا۔ اس کی دامادی کو سراہا اور اس کی خوب تعریف فرمائی۔ مزید فرمایا کہ اس نے جو بات مجھ سے کی اسے سچا کر دیکھا یا اور مجھ سے جو وعدہ کیا اسے پورا کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، وہ شرطیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، پوری کی جانے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
حدیث حاشیہ:
جن میں ایجاب و قبول اور مہر کی شرطیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ کوئی شخص مہر بندھواتے وقت دل میں نہ ادا کرنے کا خیال رکھتا ہو تو عنداللہ اس کا نکاح حلال نہ ہوگا۔ قسطلانی نے کہا مراد وہ شرطیں ہیں جو عقد نکاح کے مخالف نہیں ہیں، جیسے مباشرت یا نان و نفقہ کے متعلق شرطیں، لیکن اس قسم کی شرطیں کہ دوسرا نکاح نہ کرے گا یا لونڈی نہ رکھے گا، یا سفر میں نہ لے جائے گا، پوری کرنا ضروری نہیں بلکہ یہ شرطیں لغو ہوں گی۔ امام احمد اور اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ ہر قسم کی شرطیں پوری کرنی پڑیں گی، کیوں کہ حدیث مطلق ہے۔مگر وہ شرطیں جو کتاب و سنت کے خلاف ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Uqba bin Amir (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "From among all the conditions which you have to fulfill, the conditions which make it legal for you to have sexual relations (i.e. the marriage contract) have the greatest right to be fulfilled."