مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یعنی طلاق کو مقدم کرے شرط اس کے بعد کہے۔ مثلاً یوں کہے انت طالق ان دخلت الدار شرط کو مقدم کرکے طلاق بعد میں رکھے۔ مثلاً یوں کہے ان دخلت الدار فانت طالق ہر حال میں طلاق جب ہی پڑے گی جب شرط پائی جائے، یعنی وہ عورت گھر میں جائے، ان تینوں اثروں کو عبدالرزاق نے وصل کیا ہے۔ ( وحیدی )
2727.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے تجارتی قافلوں کو باہر جا کر ملنے، شہری کا دیہاتی کے لیے بیع کرنے، عورت کا اپنی بہن کی طلاق کی شرط کرنے، کسی شخص کا اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ کرنے، بلاوجہ قیمت زیادہ کرنے اور (خریدار کو دھوکا دینے کے لیے ) دودھ والے جانور کا دودھ اس کے تھنو ں میں روکنے سے منع فرمایاہے۔ معاذ اور عبد الصمد نے شعبہ سے روایت کرنے میں محمد بن عرعرہ کی متابعت کی ہے۔ غندر اور عبدالرحمٰن کی روایت میں نهى, (صیغہ مجہول ) کا لفظ ہے۔ آدم کی روایت میں نُهينا یعنی ہمیں منع کیا گیا جبکہ نضر اور حجاج بن منہال نےنهى (صیغہ معلوم ) کا لفظ بیان کیا ہے۔
تشریح:
اگر عورت کسی سے نکاح کے وقت اپنی اسلامی بہن کی طلاق کی شرط لگائے اور خاوند اس کی شرط کے مطابق اسے طلاق دے دے تو طلاق ہو جائے گی کیونکہ معلق طلاق میں شرط پوری ہونے پر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اگر مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہ ہو تو اس سے منع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ معاذ، عبدالصمد اور غندر کی روایات کو امام مسلم ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، البیوع، حدیث:3817،3816(1515)) اسی طرح نضر کی روایت کو اسحاق بن راہویہ نے اور حجاج بن منہال کی روایت کو امام بیہقی ؒ نے موصولاً ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:399/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2629
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2727
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2727
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2727
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
مشروط طلاق کو طلاق معلق کہتے ہیں۔ طلاق دیتے وقت لفظ طلاق کو پہلے لائے، یعنی أنت طالق إن دخلت الدار، یا شرط کو پہلے بیان کر دے، یعنی إن دخلت الدار فأنت طالق، تو اس تقدیم و تاخیر سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پیش کیے گئے آثار کو مصنف ابن ابی شیبہ میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:6/412۔413)
یعنی طلاق کو مقدم کرے شرط اس کے بعد کہے۔ مثلاً یوں کہے انت طالق ان دخلت الدار شرط کو مقدم کرکے طلاق بعد میں رکھے۔ مثلاً یوں کہے ان دخلت الدار فانت طالق ہر حال میں طلاق جب ہی پڑے گی جب شرط پائی جائے، یعنی وہ عورت گھر میں جائے، ان تینوں اثروں کو عبدالرزاق نے وصل کیا ہے۔ ( وحیدی )
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے تجارتی قافلوں کو باہر جا کر ملنے، شہری کا دیہاتی کے لیے بیع کرنے، عورت کا اپنی بہن کی طلاق کی شرط کرنے، کسی شخص کا اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ کرنے، بلاوجہ قیمت زیادہ کرنے اور (خریدار کو دھوکا دینے کے لیے ) دودھ والے جانور کا دودھ اس کے تھنو ں میں روکنے سے منع فرمایاہے۔ معاذ اور عبد الصمد نے شعبہ سے روایت کرنے میں محمد بن عرعرہ کی متابعت کی ہے۔ غندر اور عبدالرحمٰن کی روایت میں نهى, (صیغہ مجہول ) کا لفظ ہے۔ آدم کی روایت میں نُهينا یعنی ہمیں منع کیا گیا جبکہ نضر اور حجاج بن منہال نےنهى (صیغہ معلوم ) کا لفظ بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اگر عورت کسی سے نکاح کے وقت اپنی اسلامی بہن کی طلاق کی شرط لگائے اور خاوند اس کی شرط کے مطابق اسے طلاق دے دے تو طلاق ہو جائے گی کیونکہ معلق طلاق میں شرط پوری ہونے پر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ اگر مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہ ہو تو اس سے منع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ معاذ، عبدالصمد اور غندر کی روایات کو امام مسلم ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، البیوع، حدیث:3817،3816(1515)) اسی طرح نضر کی روایت کو اسحاق بن راہویہ نے اور حجاج بن منہال کی روایت کو امام بیہقی ؒ نے موصولاً ذکر کیا ہے۔ (فتح الباري:399/5)
ترجمۃ الباب:
ابن مسیب، حضرت حسن بصری اور حضرت عطاءفرماتے ہیں کہ طلاق کو شرط سے پہلے لائے یا شرط کے بعد ذکر کرے۔ وہ حسب شرط نافذ ہو جائے گی
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے (تجارتی قافلوں کی) پیشوائی سے منع فرمایا تھا اور اس سے بھی کہ کوئی شہری کسی د یہاتی کا سامان تجارت بیچے اور اس سے بھی کہ کوئی عورت اپنی (دینی یا نسبی) بہن کے طلاق کی شرط لگائے اور اس سے کہ کوئی اپنے کسی بھائی کے بھاو پر بھاو لگائے، اسی طرح آپ نے نجش اور تصریہ سے بھی منع فرمایا۔ محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس حدیث کو معاذ بن معاذ اور عبدالصمد بن عبدالوارث نے بھی شعبہ سے روایت کیا ہے اور غندر اور عبدالرحمن بن مہدی نے یوں کہا کہ ممانعت کی گئی تھی (مجہول کے صیغے کے ساتھ) آدم بن ابی ایاس نے یو ں کہا کہ ہمیں منع کیا گیا تھا نضر اور حجاج بن منہال نے یوں کہا کہ منع کیا تھا (رسول اللہ ﷺ نے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب حدیث کے لفظ وأن تشترط المرأة طلاق أختها سے نکلا کیو ں کہ اگر وہ سوکن کی طلاق کی شرط کرلے اور خاوند شرط کے موافق طلاق دے دے تو طلاق پڑ جائے گی ورنہ شرط لگانے کی ممانعت سے کوئی فائدہ نہیں۔ نجش دھوکا دینے کی نیت سے نرخ بڑھانا تاکہ دوسرا شخص جلد اس کو خرید لے، یا کسی بکتی ہوئی چیز کی برائی بیان کرنا تاکہ خریدار اس کو چھوڑ کر دوسری طرف چلا جائے اور تصریہ خریدار کو دھوکہ دینے کے لیے جانور کا دودھ اس کے تھنوں میں روک کر رکھنا۔ معاذ بن معاذ کی روایت اور عبدالصمد اور غندر کی روایتوں کو امام مسلم نے وصل کیا اور عبدالرحمن بن مہدی کی روایت حافظ صاحب کو موصولاً نہیں ملی اور حجاج کی روایت کو بیہقی نے وصل کیا اور آدم کی روایت کو انہوں نے اپنے نسخہ میں وصل کیا اور نضر کی روایت کو اسحاق بن راہویہ نے وصل کیا۔ ( الحمد للہ کہ پارہ 10 پورا ہوا ) الحمد للہ! آج بتاریخ 10اپریل 1970ءیوم جمعہ بخاری شریف پارہ 10 کے متن مبارک کی قرات سے فراغت حاصل ہوئی، جب کہ مسجد نبوی میں گنبد خضراءکے دامن میں آنحضرت ﷺ کے مواجہ شریف کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں اور دعا کررہا ہوں کہ پروردگار اس عظیم خدمت حدیث میں مجھ کو خلوص اور کامیابی عطا فرما جب کہ تیرے پیارے حبیب کے ارشادات طیبات کی نشر و اشاعت زندگی کا مقصد وحید قرار دے رہا ہوں۔ مجھ کو اس کے ترجمہ اور تشریحات میں لغزشوں سے بچائیو، اس خدمت کو احسن طریق پر انجام دینے کے لیے میرے دل و دماغ میں ایمانی و روحانی روشنی عطا فرما کر قدم قدم پر میری رہنمائی فرمائیو، میرا ایمان ہے کہ یہ مبارک کتاب تیرے حبیب ﷺ کے ارشادات طیبات کا ایک بیش بہا ذخیرہ ہے۔ جس کی نشرواشاعت آج کے دور میں جہاد اکبر ہے۔ اے اللہ! میرے جو جو بھائی جہاں جہاں بھی اس پاکیزہ خدمت میں میرے ساتھ ممکن اشتراک و مساعدت فرمارہے ہیں، ان سب کو جزائے خیر عطا فرما اور قیامت کے دن اپنے حبیب ﷺ کی شفاعت سے ان کو سرفراز کر اور ان سب کو جنت نصیب فرمانا، آمین یا رب العالمین۔ ( 2 صفر 1390 ھ یوم الجمعہ۔ مدینہ طیبہ ) الحمد للہ کہ ترجمہ اور تشریحات کی تکمیل سے آج فراغت حاصل ہوئی، اس سلسلہ میں جو بھی محنت کی گئی ہے اور لفظ لفظ کو جس گہری نظر سے دیکھا گیا ہے وہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر بھی غلطیوں کا امکان ہے، اس لیے اہل علم سے بصد ادب درخواست ہے کہ جہاں بھی لغزش نظر آئے مطلع فرماکر میری دعائیں حاصل کریں۔ الإنسان مرکب من الخطاء و النسیان مشہور مقولہ ہے۔ سال بھر سے زائد عرصہ اس پارے کے ترجمہ و تشریحات پر صرف کیا گیا ہے اور متن و ترجمہ کو کتنی بار نظروں سے گزارا گیا ہے، اس کی گنتی خود مجھ کو یاد نہیں۔ یہ محنت شاقہ محض اس لیے برداشت کی گئی کہ یہ جناب سرکار دو عالم رسول کریم احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کے پاکیزہ فرامین عالیہ کا بیش بہا ذخیرہ ہے۔ اس میں غور و فکر وسیلہ نجات دارین ہے۔ اور اس کی خدمت و اشاعت موجب صد اجرعظیم ہے۔ یا اللہ! یہ حقیر خدمت محض تیری و تیرے محبوب رسول ﷺ کی رضا حاصل کرنے کے لیے انجام دی جارہی ہے۔ اس میں خلوص اور کامیابی بخشنا تیرا کام ہے۔ جس طرح یہ دسواں جزءتو نے پورا کرایا ہے، اس سے بھی زیادہ بہتر دوسرے بیس پاروں کو بھی پورا کرائیو اور میرے دنیا سے جانے کے بعد بھی خدمت حدیث کا یہ مبارک سلسلہ جاری رکھنے کی میرے عزیزوں کو توفیق دیجيو کہ سب کچھ تیرے ہی قبضہ قدرت میں ہے تو فعال لما یرید ہے۔ بے شک ہر چیز پر تو قادر ہے۔ جو ہوا تیرے ہی کرم سے ہوا جو ہوگا تیرے ہی کرم سے ہوگا خادم حدیث نبوی محمد داؤد راز السلفی الدہلوی رہپواہ، ضلع گوڑگاؤں (ہریانہ، بھارت) یکم محرم الحرام1391ھ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) forbade (1) the meeting of the caravan (of goods) on the way, (2) and that a residing person buys for a bedouin, (3) and that a woman stipulates the divorce of the wife of the would-be husband, (4) and that a man tries to cause the cancellation of a bargain concluded by another. He also forbade An-Najsh (see Hadith 824) and that one withholds the milk in the udder of the animal so that he may deceive people on selling it.