Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: Verbal conditions with the people)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2728.
حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت موسیٰ رسول اللہ ﷺ (ہی حضرت خضر ؑ کے ساتھی ہیں)، پھر آپ نے ان کے متعلق پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت خضر ؑ نےکہا: (جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: )کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکیں گے؟‘‘ حضرت موسیٰ ؑ کا پہلا اعتراض بھول چوک کی بنا پر تھا، دوسرا شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر چنانچہ فرمایا کہ جو بات میں نے بھول چوک کی بنا پر کہی اس کے متعلق آپ میری گرفت نہ کریں، اور مجھ پر میرے کام میں تنگی نہ ڈالیں۔ یہاں تک کہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو اس بندے(خضر ؑ )نے اسے قتل کردیا۔ پھر دونوں چل پڑے تو اس بستی میں ایک دیوار گرنے والی تھی جسے اس (خضر ؑ )نے سیدھا کر دیا۔ ’’حضرت ابن عباس ؓ نے وَرَاءَهُم مَّلِكٌ کی بجائے إمامهم مالك پڑھا ہے۔
تشریح:
(1) حضرت موسیٰ ؑ کا دوسرا اعتراض شرط کے طور پر تھا کہ اگر میں نے اس کے بعد اعتراض کیا تو آپ مجھے جدا کر دیں۔ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ؑ کے درمیان یہ شرط واقع ہوئی۔ اسے تحریر نہیں کیا گیا اور نہ اس کے متعلق کوئی گواہ ہی بنائے گئے بلکہ زبانی شرط طے پائی جس کا حضرت موسیٰ ؑ نے التزام کیا اور جب شرط کی خلاف ورزی ہوئی تو حضرت خضر ؑ نے فرمایا: اب میرا اور تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ (عمدة القاري:625/9) (2) پہلی بار موسیٰ ؑ نے بھول جانے کا عذر کیا جو یہ تھا: ’’مجھ سے جو بھول ہو گئی اس پر میرا مؤاخذہ نہ کرو۔‘‘ (الکھف73:18) دوسری بار انہوں نے شرط لگائی اور کہا: ’’اس کے بعد اگر میں نے کوئی بات پوچھی تو پھر مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا۔‘‘ (الکھف76:18) تیسری بار قصداً فرمایا: ’’اگر آپ چاہتے تو ان سے اس کی اجرت لے سکتے تھے۔‘‘ (الکھف77:18) اس روایت میں وہ آیات ذکر کی ہیں جو حصول مقصود کے لیے ضروری تھیں اگرچہ ان میں ترتیب نہیں پائی جاتی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2630
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2728
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2728
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2728
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت موسیٰ رسول اللہ ﷺ (ہی حضرت خضر ؑ کے ساتھی ہیں)، پھر آپ نے ان کے متعلق پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت خضر ؑ نےکہا: (جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: )کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کر سکیں گے؟‘‘ حضرت موسیٰ ؑ کا پہلا اعتراض بھول چوک کی بنا پر تھا، دوسرا شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر چنانچہ فرمایا کہ جو بات میں نے بھول چوک کی بنا پر کہی اس کے متعلق آپ میری گرفت نہ کریں، اور مجھ پر میرے کام میں تنگی نہ ڈالیں۔ یہاں تک کہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو اس بندے(خضر ؑ )نے اسے قتل کردیا۔ پھر دونوں چل پڑے تو اس بستی میں ایک دیوار گرنے والی تھی جسے اس (خضر ؑ )نے سیدھا کر دیا۔ ’’حضرت ابن عباس ؓ نے وَرَاءَهُم مَّلِكٌ کی بجائے إمامهممالك پڑھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت موسیٰ ؑ کا دوسرا اعتراض شرط کے طور پر تھا کہ اگر میں نے اس کے بعد اعتراض کیا تو آپ مجھے جدا کر دیں۔ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر ؑ کے درمیان یہ شرط واقع ہوئی۔ اسے تحریر نہیں کیا گیا اور نہ اس کے متعلق کوئی گواہ ہی بنائے گئے بلکہ زبانی شرط طے پائی جس کا حضرت موسیٰ ؑ نے التزام کیا اور جب شرط کی خلاف ورزی ہوئی تو حضرت خضر ؑ نے فرمایا: اب میرا اور تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ (عمدة القاري:625/9) (2) پہلی بار موسیٰ ؑ نے بھول جانے کا عذر کیا جو یہ تھا: ’’مجھ سے جو بھول ہو گئی اس پر میرا مؤاخذہ نہ کرو۔‘‘ (الکھف73:18) دوسری بار انہوں نے شرط لگائی اور کہا: ’’اس کے بعد اگر میں نے کوئی بات پوچھی تو پھر مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا۔‘‘ (الکھف76:18) تیسری بار قصداً فرمایا: ’’اگر آپ چاہتے تو ان سے اس کی اجرت لے سکتے تھے۔‘‘ (الکھف77:18) اس روایت میں وہ آیات ذکر کی ہیں جو حصول مقصود کے لیے ضروری تھیں اگرچہ ان میں ترتیب نہیں پائی جاتی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے خبر دی سعید بن جبیر سے اور ان سے ایک دوسرے سے زیادہ بیان کرتا ہے، ابن جریج نے کہا مجھ سے یہ حدیث یعلیٰ اور عمرو کے سوا اوروں نے بھی بیان کی، وہ سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خضر سے جو جاکر ملے تھے وہ موسیٰ ؑ تھے۔ پھر آخر تک حدیث بیان کی کہ خصر ؑ نے موسیٰ ؑ سے کہا کیا میں آپ کو پہلے ہی نہیں بتاچکا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے (موسیٰ ؑ کی طرف سے) پہلا سوال تو بھول کر ہوا تھا، بیچ کا شرط کے طور پر اور تیسرا جان بوجھ کر ہوا تھا۔ آپ نے خضر سے کہا تھا کہ ”میں جس کو بھول گیا آپ اس میں مجھ سے مواخذہ نہ کیجئے اور نہ میرا کام مشکل بناو“ دونوں کو ایک لڑکا ملا جسے خضر ؑ نے قتل کردیا وہ وہ آگے بڑھے تو انہیں ایک دیوار ملی جو گرنے والی تھی لیکن خضر نے اسے درست کر دیا۔ ابن عباس ؓ نے ورآئهم ملك کے بجائے امامهم ملك پڑھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
کہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا۔ حضرت خضر ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کے درمیان زبانی شرطیں ہوئیں، اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ (امام بخاری اور کثیر علماءکے نزدیک حضرت خضر ؑ وفات پاچکے ہیں۔) واللہ أعلم بالصواب وإلیه المرجع والمآب
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ubai bin Kab (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, " Moses (ؑ) the Apostle of Allah (ﷺ) ," and then he narrated the whole story about him. Al-Khadir said to Moses (ؑ), "Did not I tell you that you can have no patience with me." (18.72). Moses (ؑ) then violated the agreement for the first time because of forgetfulness, then Moses (ؑ) promised that if he asked Al-Khadir about anything, the latter would have the right to desert him. Moses (ؑ) abided by that condition and on the third occasion he intentionally asked Al-Khadir and caused that condition to be applied. The three occasions referred to above are referred to by the following Verses: "Call me not to account for forgetting And be not hard upon me." (18.73) "Then they met a boy and Khadir killed him." (18.74) "Then they proceeded and found a wall which was on the verge of falling and Khadir set it up straight." (18.77)