باب : اقرار میں شرط لگانا یا استثناء کرنا جائز ہے اور ا ن شرطوں کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: What kinds of conditions are permissible; and what is exempted from the decision)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جو معاملات میں عموماً لوگوں میں رائج ہیں اور اگر کوئی یوں کہے کہ مجھ پر فلاں کے سو درہم نکلتے ہیں مگر ایک یا دو اور ابن عون نے ابن سیرین سے نقل کیا کہ کسی نے اونٹ والے سے کہا تو اپنے اونٹ اندر لا کر باندھ دے اگر میں تمہارے ساتھ فلا ں دن تک نہ جاسکا تو تم سو درہم مجھ سے وصول کرلینا ۔ پھر وہ اس دن تک نہ جا سکاتو قاضی شریح رحمہ اللہ نے کہا کہ جس نے اپنی خوشی سے اپنے اوپر کوئی شرط لگائی اور اس پر کوئی جبر بھی نہیں کیا گیا تھا تو وہ شرط اس کو پوری کرنی ہوگی ۔ ایوب نے ابن سیرین سے نقل کیاکہ کسی شخص نے غلہ بیچا اور خریدار نے کہا کہ اگر تمہارے پاس بدھ کے دن تک نہ آسکا تو میرے اورتمہارے درمیان بیع باقی نہیں رہے گی ۔ پھر وہ اس دن تک نہیں آیا تو شریح رحمہ اللہ نے خریدار سے کہا کہ تو نے وعدہ خلافی کی ہے‘ آپ نے فیصلہ اس کے خلاف کیا ۔ تو ننانوے یا اٹھانوے درہم دینے ہوں گے یعنی اگر یوں کہا سو نکلتے ہیں مگر ایک تو ننانوے دینے ہوں گے اور اگر دو کا استثناءکیا تو اٹھانوے دینے ہوں گے اور قلیل کا کثیر سے استثناءبالاتفاق درست ہے۔ اختلاف اس استثناءمیں ہے جو کثیر کا قلیل سے ہو ۔ جمہور نے اس کو بھی جائز رکھا ہے۔
2736.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، یعنی سو سے ایک کم ہے، جس شخص نے ان کو یاد کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘
تشریح:
(1) اقرار میں کسی قسم کی شرط اور استثنا جائز ہے، خواہ زیادہ مقدار میں سے تھوڑی کا استثنا ہو یا اس کے برعکس تھوڑی مقدار میں زیادہ کا استثنا ہو کیونکہ قرآن میں دونوں استثنا موجود ہیں، ایک یہ ہے: ﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿٤٢﴾) ’’بےشک میرے بندوں پر تیرا کچھ زور نہ چل سکے گا مگر ان لوگوں پر جو گمراہ ہو کر تیری پیروی کریں گے۔‘‘ (الحجر42:15) اور دوسرا استثنا یہ ہے: ﴿وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾) ’’اور میں ان سب کو بہکا کے چھوڑوں گا مگر تیرے مخلص بندے اس سے محفوظ رہیں گے۔‘‘ (الحجر40،39:15) ان میں سے ایک، دوسرے سے زیادہ ہے اور ان میں استثنیٰ واقع ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ دونوں قسم کے استثنا صحیح ہیں۔ جمہور کا یہی موقف ہے۔ بہرحال اقرار میں کوئی شرط لگانا یا کسی کو مستثنیٰ کرنا صحیح ہے۔ (فتح الباري:434/5) (2) واضح رہے کہ اس حدیث میں ان اسمائے حسنیٰ کی خبر دی گئی ہے جنہیں یاد کرنے اور ان کے مطابق عمل کرنے والے کو جنت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ ویسے اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کے علاوہ بھی بے شمار نام ہیں۔ ان میں سے اکثر قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں لفظ "اللہ" اسم ذاتی ہے اور باقی صفاتی نام ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2636
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2736
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2736
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2736
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اگر کسی نے کہا: میرے ذمے فلاں کے سو درہم ہیں مگر ایک، تو ننانوے دینے ہوں گے اور دو کا استثنا کیا تو اٹھانوے دینے ہوں گے۔ زیادہ مقدار سے تھوری مقدار کا استثنا تو بالاتفاق جائز ہے، البتہ تھوڑی مقدار سے زیادہ کا استثنا، اس میں اختلاف ہے۔ جمہور نے اسے بھی جائز کہا ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا۔ مذکورہ دونوں آثار سعید بن منصور نے اپنی متصل سند سے ذکر کیے ہیں۔ مذکورہ دونوں معاملات میں قاضی شریح نے اس شرط کے مطابق فیصلہ کیا جو انسان نے خود اپنے اوپر عائد کی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی ہے کہ خود عائد کردہ شرط کی پابندی ضروری ہے۔ (فتح الباری:5/435)
جو معاملات میں عموماً لوگوں میں رائج ہیں اور اگر کوئی یوں کہے کہ مجھ پر فلاں کے سو درہم نکلتے ہیں مگر ایک یا دو اور ابن عون نے ابن سیرین سے نقل کیا کہ کسی نے اونٹ والے سے کہا تو اپنے اونٹ اندر لا کر باندھ دے اگر میں تمہارے ساتھ فلا ں دن تک نہ جاسکا تو تم سو درہم مجھ سے وصول کرلینا ۔ پھر وہ اس دن تک نہ جا سکاتو قاضی شریح رحمہ اللہ نے کہا کہ جس نے اپنی خوشی سے اپنے اوپر کوئی شرط لگائی اور اس پر کوئی جبر بھی نہیں کیا گیا تھا تو وہ شرط اس کو پوری کرنی ہوگی ۔ ایوب نے ابن سیرین سے نقل کیاکہ کسی شخص نے غلہ بیچا اور خریدار نے کہا کہ اگر تمہارے پاس بدھ کے دن تک نہ آسکا تو میرے اورتمہارے درمیان بیع باقی نہیں رہے گی ۔ پھر وہ اس دن تک نہیں آیا تو شریح رحمہ اللہ نے خریدار سے کہا کہ تو نے وعدہ خلافی کی ہے‘ آپ نے فیصلہ اس کے خلاف کیا ۔ تو ننانوے یا اٹھانوے درہم دینے ہوں گے یعنی اگر یوں کہا سو نکلتے ہیں مگر ایک تو ننانوے دینے ہوں گے اور اگر دو کا استثناءکیا تو اٹھانوے دینے ہوں گے اور قلیل کا کثیر سے استثناءبالاتفاق درست ہے۔ اختلاف اس استثناءمیں ہے جو کثیر کا قلیل سے ہو ۔ جمہور نے اس کو بھی جائز رکھا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، یعنی سو سے ایک کم ہے، جس شخص نے ان کو یاد کیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اقرار میں کسی قسم کی شرط اور استثنا جائز ہے، خواہ زیادہ مقدار میں سے تھوڑی کا استثنا ہو یا اس کے برعکس تھوڑی مقدار میں زیادہ کا استثنا ہو کیونکہ قرآن میں دونوں استثنا موجود ہیں، ایک یہ ہے: ﴿إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿٤٢﴾) ’’بےشک میرے بندوں پر تیرا کچھ زور نہ چل سکے گا مگر ان لوگوں پر جو گمراہ ہو کر تیری پیروی کریں گے۔‘‘ (الحجر42:15) اور دوسرا استثنا یہ ہے: ﴿وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾) ’’اور میں ان سب کو بہکا کے چھوڑوں گا مگر تیرے مخلص بندے اس سے محفوظ رہیں گے۔‘‘ (الحجر40،39:15) ان میں سے ایک، دوسرے سے زیادہ ہے اور ان میں استثنیٰ واقع ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ دونوں قسم کے استثنا صحیح ہیں۔ جمہور کا یہی موقف ہے۔ بہرحال اقرار میں کوئی شرط لگانا یا کسی کو مستثنیٰ کرنا صحیح ہے۔ (فتح الباري:434/5) (2) واضح رہے کہ اس حدیث میں ان اسمائے حسنیٰ کی خبر دی گئی ہے جنہیں یاد کرنے اور ان کے مطابق عمل کرنے والے کو جنت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ ویسے اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کے علاوہ بھی بے شمار نام ہیں۔ ان میں سے اکثر قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں لفظ "اللہ" اسم ذاتی ہے اور باقی صفاتی نام ہیں۔
ترجمۃ الباب:
ابن عون نے امام ابن سیرین سے بیان کیا کہ ایک شخص نے شتر بان سے کہا: اپنا اونٹ تیار کرو، اگر میں تیرے ساتھ فلاں فلاں دن نہ جاؤں تو تیرے لیے سودرہم ہیں، چنانچہ وہ نہ گیا تو قاضی شریح نے فیصلہ کیا: جو اپنی مرضی سے اپنے آپ پر کوئی شرط عائد کرے جبکہ اسے مجبور نہ کیا گیا ہو تو اسے وہ شرط پوری کرنی ضروری ہے۔ ایوب نے امام سیرین سے روایت کیا کہ ایک شخص نے غلہ خریدااور کہا: اگر میں تیرے پاس بدھ کے دن نہ آؤں تو میرے اور تیرے درمیان کوئی بیع نہیں، چنانچہ وہ بدھ کے دن نہ آیا تو قاضی شریح نے خریدار سے کہا: تونے خود خلاف ورزی کی ہے۔ پھر انھوں نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی‘ ان سے ابوالزناد نے بیان کیا‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یعنی ایک کم سو۔ جو شخص ان سب کو محفوظ رکھے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے سو میں سے ایک استثناءکیا۔ معلوم ہوا کثیر میں سے قلیل کا استثناء درست ہے۔ اللہ پاک کے یہ ننانوے نام اسماءالحسنیٰ کہلاتے ہیں۔ ان میں صرف ایک نام یعنی اللہ اسم ذاتی ہے اور باقی سب صفاتی نام ہیں۔ ان میں سے اکثر قرآن مجید میں بھی مذکور ہوئے ہیں‘ باقی احادیث میں۔ سب کو یکجا کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنی مشہور کتاب مقدس مجموعہ کے آخر میں اسماءالحسنیٰ کو مع ترجمہ کے ذکر کردیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Allah has ninety-nine names, i.e. one-hundred minus one, and whoever knows them will go to Paradise." (Please see Hadith No. 419 Vol. 8)