Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: Al-Wasaya)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ آدمی کی وصیت لکھی ہوئی ہونی چاہیے اور اللہ تعالی نے سورہ بقرہ میں فرمایا کہ ” تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی معلوم ہو اور کچھ مال بھی چھوڑرہا ہو تو وہ والدین اور عزیزوں کے حق میں دستور کے موافق وصیت کرجائے۔ یہ لازم ہے پرہیزگاروں پر۔ پھر جو کوئی اسے اس کے سننے کے بعد بدل ڈالے سو اس کا گناہ اسی پر ہوگا جو اسے بدلے گا‘ بے شک اللہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے۔ البتہ جس کسی کو وصیت کرنے والے سے متعلق کسی کی طرفداری یا حق تلفی کا علم ہوجائے پھر وہ موصی لہ اور وارثوں میں ( وصیت میں کچھ کمی کر کے ) میل کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑا بخشش کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے ( آیت میں ) جنفاکے معنی ایک طرف جھک جانے کے ہیں‘ متجانف کے معنی جھکنے والے کے ہیں۔ وصیت کہتے ہیں مرتے وقت آدمی کا کچھ کہہ جانا کہ میرے بعد ایسا ایسا کرنا‘ فلاں کو یہ دینا فلاں کو یہ۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لئے وصیت کی ہو اس کو موصی لہ کہتے ہیں۔ آیت میراث نازل ہونے کے بعد صرف تہائی مال میں وصیت کرنا جائز قرار دیا گیا‘ باقی مال حصہ داروں میں تقسیم ہوگا۔
2738.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کو یہ لائق نہیں کہ وہ اپنی کسی چیز میں وصیت کرنا چاہتا ہومگر دو راتیں بھی اس حالت میں گزارے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو۔‘‘ محمد بن مسلم نے عمرو کے ذریعے سے ابن عمر ؓ کے نبی کریم ﷺ سے روایت کرنے میں مالک کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) امام مسلم ؓ نے یہ روایت ذکر کرنے کے بعد ابن عمر ؓ کا یہ فرمان بھی نقل کیا ہے: جب سے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے میں نے ایک رات بھی ایسی نہیں گزاری کہ میری وصیت میرے پاس نہ ہو۔ (صحیح مسلم، الوصیة، حدیث:4207 (1627)) اس حدیث میں تحریری وصیت کا ذکر مبالغے کے طور پر ہے کہ اس کا اہتمام کرنا چاہیے ورنہ کتابت کے بغیر بھی وصیت کو گواہی کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے۔ (2) اس حدیث کے مطابق وصیت کا لکھا ہوا ہونا ہر وقت ضروری ہے کیونکہ موت کا علم نہیں کب اللہ کی طرف سے پیغام آ جائے اور انسان کا اخروی سفر شروع ہو جائے۔ اس بنا پر سفر کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور دنیوی طور پر جو لین دین ہے وہ لکھا ہوا اپنے پاس تیار رکھے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کے عمل سے پتہ چلتا ہے۔ (3) حدیث کے آخر میں ذکر کردہ متابعت کو امام دارقطنی ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ مذکورہ حدیث سے کچھ مختلف ہیں۔ (سنن الدارقطني:90/4، وفتح الباري:439/5) بہرحال انسان جن فرائض و واجبات میں کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے، ان کے لیے وصیت ضروری ہے اور جن میں کوتاہی نہیں کی ان کے لیے مستحب ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2638
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2738
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2738
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2738
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
تمہید باب
مذکورہ حدیث ان الفاظ سے کسی کتاب میں نہیں ہے، البتہ روایت بالمعنی کے طور پر مروی ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث آگے آ رہی ہے۔ (صحیح البخاری،حدیث:2738) اس حدیث میں آدمی کا حوالہ تغلیب کے طور پر ہے کیونکہ اکثر مرد حضرات ہی وصیت کرتے ہیں اگرچہ اس حکم میں عورتیں بھی شریک ہیں۔ وصیت میں مسلمان ہونے کی بھی شرط نہیں اور نہ اس کے لیے خاوند کی اجازت ہی ضروری ہے۔ (فتح الباری:5/437) اس آیت کے مطابق ابتدائے اسلام میں وصیت کرنا ضروری تھا بشرطیکہ اس کے پاس قابل وصیت مال موجود ہو، پھر ورثاء کے لیے اس حکم کو منسوخ کر دیا گیا جیسا کہ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، لہذا اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔" (سنن ابن ماجہ،الوصایا،حدیث:2712) لیکن جس کے لیے میراث میں حصہ نہیں اس کے حق میں وصیت کرنے کا حکم ٹھیک اسی طرح برقرار ہے جیسا کہ پہلے تھا لیکن اس کے ساتھ ایک حدیث کے الفاظ کو مدنظر رکھنا ہو گا جس کے الفاظ ہیں: "وہ وصیت کرنا چاہتا ہو۔" (صحیح البخاری،الوصایا،حدیث:2738) ہمارے رجحان کے مطابق اس شخص کے لیے وصیت کرنا واجب ہے جس پر دوسروں کے حقوق ہوں، مثلاً: امانت اور قرض وغیرہ اور ان حقوق سے وصیت کے علاوہ چھٹکارا حاصل کرنا بھی ممکن نہ ہو، نیز اس کے پاس مال بھی ہو۔ جس میں یہ شرائط نہ پائی جائیں اس کے لیے وصیت کرنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ آیت کریمہ میں لفظ جنفا کی مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اور لفظ کی لغوی تفسیر فرمائی ہے: قرآن مجید میں (غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ) (المائدۃ3:5) ہے۔ ابو عبیدہ نے متجانف کے معنی "مائل" کیے ہیں جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی ہیں: جان بوجھ کر کسی گناہ کا ارادہ رکھنے والا۔ (فتح الباری:5/438)
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ آدمی کی وصیت لکھی ہوئی ہونی چاہیے اور اللہ تعالی نے سورہ بقرہ میں فرمایا کہ ” تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آتی معلوم ہو اور کچھ مال بھی چھوڑرہا ہو تو وہ والدین اور عزیزوں کے حق میں دستور کے موافق وصیت کرجائے۔ یہ لازم ہے پرہیزگاروں پر۔ پھر جو کوئی اسے اس کے سننے کے بعد بدل ڈالے سو اس کا گناہ اسی پر ہوگا جو اسے بدلے گا‘ بے شک اللہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے۔ البتہ جس کسی کو وصیت کرنے والے سے متعلق کسی کی طرفداری یا حق تلفی کا علم ہوجائے پھر وہ موصی لہ اور وارثوں میں ( وصیت میں کچھ کمی کر کے ) میل کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بڑا بخشش کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے ( آیت میں ) جنفاکے معنی ایک طرف جھک جانے کے ہیں‘ متجانف کے معنی جھکنے والے کے ہیں۔ وصیت کہتے ہیں مرتے وقت آدمی کا کچھ کہہ جانا کہ میرے بعد ایسا ایسا کرنا‘ فلاں کو یہ دینا فلاں کو یہ۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لئے وصیت کی ہو اس کو موصی لہ کہتے ہیں۔ آیت میراث نازل ہونے کے بعد صرف تہائی مال میں وصیت کرنا جائز قرار دیا گیا‘ باقی مال حصہ داروں میں تقسیم ہوگا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کو یہ لائق نہیں کہ وہ اپنی کسی چیز میں وصیت کرنا چاہتا ہومگر دو راتیں بھی اس حالت میں گزارے کہ اس کے پاس وصیت تحریری شکل میں موجود نہ ہو۔‘‘ محمد بن مسلم نے عمرو کے ذریعے سے ابن عمر ؓ کے نبی کریم ﷺ سے روایت کرنے میں مالک کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام مسلم ؓ نے یہ روایت ذکر کرنے کے بعد ابن عمر ؓ کا یہ فرمان بھی نقل کیا ہے: جب سے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے میں نے ایک رات بھی ایسی نہیں گزاری کہ میری وصیت میرے پاس نہ ہو۔ (صحیح مسلم، الوصیة، حدیث:4207 (1627)) اس حدیث میں تحریری وصیت کا ذکر مبالغے کے طور پر ہے کہ اس کا اہتمام کرنا چاہیے ورنہ کتابت کے بغیر بھی وصیت کو گواہی کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے۔ (2) اس حدیث کے مطابق وصیت کا لکھا ہوا ہونا ہر وقت ضروری ہے کیونکہ موت کا علم نہیں کب اللہ کی طرف سے پیغام آ جائے اور انسان کا اخروی سفر شروع ہو جائے۔ اس بنا پر سفر کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور دنیوی طور پر جو لین دین ہے وہ لکھا ہوا اپنے پاس تیار رکھے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کے عمل سے پتہ چلتا ہے۔ (3) حدیث کے آخر میں ذکر کردہ متابعت کو امام دارقطنی ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ مذکورہ حدیث سے کچھ مختلف ہیں۔ (سنن الدارقطني:90/4، وفتح الباري:439/5) بہرحال انسان جن فرائض و واجبات میں کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے، ان کے لیے وصیت ضروری ہے اور جن میں کوتاہی نہیں کی ان کے لیے مستحب ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد نبوی ہے:" آدمی کی وصیت اس کے پاس لکھی ہونی چاہیے۔ "فرمان الٰہی ہے: "تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کوموت آئے اگر وہ مال چھوڑ جائے تو والدین(اور قریبی رشتہ داروں) کے لیے دستور کے مطابق وصیت کرے(یہ تقویٰ شعار لوگوں پر واجب حق ہے۔ جو کوئی اسے سننے کے بعد اسے تبدیل کردے تو اس کاگناہ ان لوگوں پر ہے جو اسے تبدیل کرتے ہیں۔ یقیناً اللہ سب کچھ سننے والا خوب جاننے والا ہے)جو کوئی وصیت کرنے والے کی طرف سے جانبداری کا خطرہ محسوس کرے۔جَنَفًا کے معنی کسی کی طرف میلان ہونے کے ہے۔ اور مُتَجَانِفٍ کے معنی مائل ہونے والے کے ہیں۔
فائدہ:ابتدائے اسلام میں وصیت کرنا ضروری تھا بشرط یہ کہ اس کے پاس قابل وصیت مال موجود ہو، پھر ورثاء کے لیے اس حکم کو منسوخ کردیاگیا جیسا کہ حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ہرحق دار کو اس کاحق دے دیا ہے، لہذا اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔ "[1]لیکن جس کے لیے میراث میں حصہ نہیں اسکے حق میں وصیت کرنے کا حکم ٹھیک اسی طرح برقرار ہے جیسے پہلے تھا لیکن اسکے ساتھ ایک حدیث کے الفاظ کو مدنظر رکھناہوگا جس کے الفاظ ہیں: "وہ وصیت کرنا چاہتا ہو۔ "[2] ہمارے رجحان کےمطابق اس شخص کے لیے وصیت کرنا واجب ہے جس پر دوسروں کے حقوق ہوں مثلاً: امانت اور قرض وغیرہ اور ان حقوق سے وصیت کے علاوہ خلاصی حاصل کرنا بھی ممکن نہ ہو، نیزاسکے پاس مال بھی ہو۔ جس میں یہ شرائط نہ پائی جائیں اسکے لیے وصیت کرنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔
[1]۔ سنن ابن ماجہ الوصایا حدیث: 2712۔[2]۔ صحیح البخاری الوصایا حدیث : 2738۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے‘ وہ عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی مسلمان کے لئے جن کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے۔ امام مالک کے ساتھ اس روایت کی متابعت محمد بن مسلم نے عمر و بن دینار سے کی ہے‘ انہوں نے ابن عمر ؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
آیت شریفہ﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ﴾(البقرة:180) آیت میراث سے پہلے نازل ہوئی۔ اس وقت وصیت کرنا فرض تھا۔ جب میراث کی آیت اتری تو وصیت کی فرضیت جاتی رہی اور وارث کے لئے وصیت کرنا منع ہوگیا جیسا کہ عمروبن خارجہ کی روایت میں ہے إن الله قد أعطى كل ذي حقٍّ حقَّه فلا وصيةَ لوارثٍ(أخرجه أصحاب السنن) اور‘ غیر وارث کے لئے وصیت جائز رہ گئی۔ آیت شریفہ ﴿فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ﴾(البقرة:181) کا مطلب یہ ہے کہ وصیت بدل دینا گناہ ہے مگر جس صورت میں موصی نے خلاف شریعت وصیت کی ہو اور ثلث سے زائد کسی کو دلاکر وارث کا حق تلف کیا ہو تو ایسی غلط وصیت کو بدل ڈالنا منع نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ موصی لہ اور دیگر وارثوں میں صلح صفائی کرا دے اور مطابق شریعت فیصلہ کرکے وصیت کی اصلاح کر دے ۔ وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ عِنْدَهُ یہ مضمون خود باب کی حدیث میں آگے آرہا ہے مگر اس میں مرء کا لفظ اور لفظ رجل کے ساتھ یہ حدیث نہیں ملی۔ شاید حضرت امام بخاری ؒ نے اسے بالمعنی روایت کیا ہو کیونکہ مرء رجل ہی کو کہتے ہیں اور رجل کی قید اعتبار اکثر کے ہے ورنہ عورت اور مرد دونوں کی وصیت صحیح ہونے میں کوئی فرق نہیں‘ اسی طرح نابالغ کی وصیت بھی صحیح ہے‘ جب وہ عقل اور ہوش رکھتا ہو ۔ ہمارے امام احمد بن حنبل اور امام مالک کا یہی قول ہے لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس کو جائز کہاں رکھا ہے، امام احمد نے ایسے لڑکے کی عمر کا اندازہ سات برس یا دس برس کا کیا ہے۔ وصیت کا ہر وقت لکھا ہوا ہونا اس لئے ضروری ہے کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے نہ معلوم کب اللہ پاک کا حکم ہو اور انسان کا اخروی سفر شروع ہوجائے‘ لہذا لازم ہے کہ اس سفر کے لئے ہر وقت تیار رہے اور اپنے بعد کے لئے ضروری معاملات کے واسطے اسے جو بہتر معلوم ہو وہ لکھا ہوا اپنے پاس تیار رکھے۔ حدیثكُنْ في الدُّنْيا كأَنَّكَ غريبٌ کا بھی یہی مطلب ہے کہ دنیامیں ہر وقت مسافرانہ زندگی گزارونہ معلوم کب کوچ کا وقت آجائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "It is not permissible for any Muslim who has something to will to stay for two nights without having his last will and testament written and kept ready with him."