صحیح بخاری
55. کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
4. باب : وصیت کرنے والا اپنے وصی سے کہے کہ میرے بچے کی دیکھ بھال کرتے رہنا اوروصی کے لئے کس طرح کے دعوے جائز ہیں؟
باب : وصیت کرنے والا اپنے وصی سے کہے کہ میرے بچے کی دیکھ بھال کرتے رہنا اوروصی کے لئے کس طرح کے دعوے جائز ہیں؟
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: The saying of a testator to the executor, "Look after my son,")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2745.
نبی کریم ﷺ کی زوجہ محتر مہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا فرزند میرے نطفے سے ہے، اسے اپنے قبضے میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔ اس کے متعلق میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی۔ تب عبد بن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یہ تو میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنا جھگڑا لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے اور اس نے مجھے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا: ’’اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارا ہے کیونکہ بچہ اسی کا ہوگا جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘ اس کے بعد آپ نے ام المومنین حضرت سودہ ؓ سے فرمایا: ’’اس سے پردہ کرو۔‘‘ کیونکہ آپ نے عتبہ کی مشابہت اس میں دیکھی تھی، چنانچہ اس لڑکے نے حضرت سودہ ؓ کوکبھی نہ دیکھا حتیٰ کہ وہ اللہ سے جا ملا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا قائم کیا ہوا عنوان دو اجزاء پر مشتمل ہے: ٭ وصیت کرنے والے کا وصی سے اپنے بچے کی نگہداشت کا کہنا۔ ٭ وصی کسی قسم کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اپنے بھائی عتبہ کے وصی تھے۔ اس نے حضرت سعد ؓ سے کہا تھا کہ میرے نطفے سے پیدا ہونے والے بچے کی نگہداشت کرنا اور اسے اپنے پاس رکھنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت کرنے والا کسی کو اپنی اولاد کی نگہداشت کے متعلق کہہ سکتا ہے۔ اس میں شرعی طور پر کوئی خرابی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا انکار نہیں کیا، نیز وصی کسی کے متعلق یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ فلاں لڑکا فلاں کا بیٹا ہے۔ حضرت سعد ؓ نے اس قسم کا دعویٰ کیا اگرچہ فیصلہ اس کے خلاف ہوا، تاہم دعویٰ کرنے میں شرعی طور پر کوئی خرابی نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے کتاب الخصومات میں بھی ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب دعوی الوصي للميت)’’وصی کا میت کی طرف سے دعویٰ کرنا۔‘‘ وہاں بھی ثبوت کے لیے یہی حدیث پیش کی ہے۔ بہرحال اس حدیث سے عنوان کے دونوں جز ثابت ہوتے ہیں۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2645
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2745
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2745
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2745
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
نبی کریم ﷺ کی زوجہ محتر مہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا فرزند میرے نطفے سے ہے، اسے اپنے قبضے میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔ اس کے متعلق میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی۔ تب عبد بن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یہ تو میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنا جھگڑا لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے اور اس نے مجھے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا: ’’اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارا ہے کیونکہ بچہ اسی کا ہوگا جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘ اس کے بعد آپ نے ام المومنین حضرت سودہ ؓ سے فرمایا: ’’اس سے پردہ کرو۔‘‘ کیونکہ آپ نے عتبہ کی مشابہت اس میں دیکھی تھی، چنانچہ اس لڑکے نے حضرت سودہ ؓ کوکبھی نہ دیکھا حتیٰ کہ وہ اللہ سے جا ملا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا قائم کیا ہوا عنوان دو اجزاء پر مشتمل ہے: ٭ وصیت کرنے والے کا وصی سے اپنے بچے کی نگہداشت کا کہنا۔ ٭ وصی کسی قسم کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اپنے بھائی عتبہ کے وصی تھے۔ اس نے حضرت سعد ؓ سے کہا تھا کہ میرے نطفے سے پیدا ہونے والے بچے کی نگہداشت کرنا اور اسے اپنے پاس رکھنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت کرنے والا کسی کو اپنی اولاد کی نگہداشت کے متعلق کہہ سکتا ہے۔ اس میں شرعی طور پر کوئی خرابی نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا انکار نہیں کیا، نیز وصی کسی کے متعلق یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ فلاں لڑکا فلاں کا بیٹا ہے۔ حضرت سعد ؓ نے اس قسم کا دعویٰ کیا اگرچہ فیصلہ اس کے خلاف ہوا، تاہم دعویٰ کرنے میں شرعی طور پر کوئی خرابی نہیں۔ (2) امام بخاری ؒ نے کتاب الخصومات میں بھی ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب دعوی الوصي للميت)’’وصی کا میت کی طرف سے دعویٰ کرنا۔‘‘ وہاں بھی ثبوت کے لیے یہی حدیث پیش کی ہے۔ بہرحال اس حدیث سے عنوان کے دونوں جز ثابت ہوتے ہیں۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعبنی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے امام مالک نے ابن شہاب سے‘ وہ عروہ بن زبیر سے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرا ہے‘ اس لئے تم اسے لے لینا چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر سعد ؓ نے اسے لے لیا اور کہا کہ میرے بھائی کا لڑکا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں مجھے اس کی وصیت کی تھی۔ پھر عبد بن زمعہ ؓ اٹھے اور کہنے لگے کہ یہ تو میرا بھائی ہےُ میرے باپ کی لونڈی نے اس کوجنا ہے اورمیرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ پھر یہ دونوں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سعد بن ابی وقاص ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے‘ مجھے اس نے وصیت کی تھی۔ لیکن عبد بن زمعہ ؓ نے عرض کیا کہ یہ میرا بھائی اور میرے والد کی باندی کا لڑکا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فیصلہ یہ فرمایا کہ لڑکا تمھارا ہی ہے عبدبن زمعہ! بچہ فراش کے تحت ہو تا ہے اور زانی کے حصے میں پتھر ہیں لیکن آپ ﷺ نے سودہ بنت زمعہ ؓ سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کر کیونکہ آپ ﷺ نے عتبہ کی مشابہت اس لڑکے میں صاف پائی تھی۔ چنانچہ اس کے بعد اس لڑکے نے سودہ ؓ کو کبھی نہ دیکھا تا آنکہ آپ اللہ تعالیٰ سے جاملیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ عتبہ نے کہا میرے لڑکے کا خیال رکھو‘ اس کو لے لینا اور سعد ؓنے جو اپنے بھائی کے وصی تھے اس کا دعویٰ کیا۔ اس بچے کا نام عبد الرحمٰن تھا حالانکہ آپ ﷺ نے فیصلہ کردیا کہ وہ زمعہ کا بیٹا ہے تو سودہ کا بھائی ہوا مگر چونکہ اس کی صورت عتبہ سے ملتی تھی اس لئے احتیاطاً حضرت سودہ ؓ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): (the wife of the Prophet) Utba bin Abi Waqqas entrusted (his son) to his brother Sad bin Abi Waqqas saying, "The son of the slave-girl of Zam'a is my (illegal) son, take him into your custody." So during the year of the Conquest (of Makkah) Sad took the boy and said, "This is my brother's son whom my brother entrusted to me." 'Abu bin Zam's got up and said, "He is my brother and the son of the slave girl of my father and was born on my father's bed." Then both of them came to Allah's Apostle (ﷺ) and Sad said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! This is my brother's son whom my brother entrusted to me." Then 'Abu bin Zam'a got up and said, "This is my brother and the son of the slave-girl of my father." Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Abu bin Zam'a! This boy is for you as the boy belongs to the bed (where he was born), and for the adulterer is the stone (i.e. deprivation)." Then the Prophet (ﷺ) said to his wife Sauda bint Zam'a, "Screen yourself from this boy," when he saw the boy's resemblance to 'Utba. Since then the boy did not see Sauda till he died.