باب : اللہ تعالیٰ کے ( سورۃ نساء میں ) یہ فرمانے کی تفسیر کہ حصوں کی تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہوگی
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: The explanantion of the Statement of Allah Taa'la: "... After payment of legacies that they may have bequeathed or debts...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قرض کو وصیت پر مقدم کر نے کا حکم دیا اور ( اس سورت میں ) یہ فرمانے کی اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچاؤ تو امانت ( قرض ) کا ادا کرنا نفل وصیت کے پورا کرنے سے زیادہ ضروری ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا صدقہ وہی عمدہ ہے جس کے بعد آمی مالدار رہے اور ابن عباس ؓ نے کہا غلام بغیر اپنے مالک کی اجازت کے وصیت نہیں کر سکتا اور آنحضرتﷺ نے فرمایا غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے۔
2751.
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو(یہ) فرماتے ہوئے سنا : ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر نگہبان سے اسکی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ حاکم وقت نگہبان ہے، اس اسے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل کیاجائے گا۔ آدمی اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل ہوگا۔ نوکر اپنے مالک کے مال کا نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ میرے گمان کے مطابق آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’مرد اپنے باپ کے مال کا نگران ہے۔‘‘
تشریح:
اس حدیث کے مطابق غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے، حالانکہ وہ مال غلام ہی کا کمایا ہوا ہے۔ گویا اس مال میں آقا اور غلام دونوں کے حقوق ہیں لیکن مالک کا حق مقدم کیا گیا کیونکہ وہ زیادہ قوی ہے۔ اسی طرح قرض اور وصیت میں قرض کو مقدم کیا جائے گا کیونکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے اور وصیت ایک طرح کا نفلی صدقہ ہے، اسے قرض کے بعد ادا کرنا ہو گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2651
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2751
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2751
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2751
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ بالا آیت کریمہ پر دو عنوان قائم کیے ہیں۔ پہلے عنوان کا مقصد تھا کہ مریض کا قرض کے لیے اقرار کرنا مطلق طور پر صحیح ہے، خواہ وارث کے لیے ہو یا کسی اجنبی کے لیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وصیت اور قرض کو تقسیم میراث پر مقدم کیا ہے۔ پھر شرعی دلیل سے وصیت خارج ہو گئی اور قرض کا اقرار اپنے حال پر باقی رہا جس میں وارث اور اجنبی برابر ہیں۔ دوسرے عنوان کی غرض یہ ہے کہ اگرچہ وصیت قرض سے پہلے ذکر کی گئی ہے، تاہم ادائیگی کے اعتبار سے قرض مقدم ہے، چنانچہ اس بات پر اتفاق ہے کہ میت کے ذمے قرض کی وصیت سے پہلے ادا کیا جائے، پھر وصیت پر عمل کیا جائے جبکہ وصیت ایک تہائی یا اس سے کم مقدار کی ہو، اس کے بعد ترکہ تقسیم کیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس امر کو ثابت کرنے کے لیے کئی ایک شواہد کا ذکر کیا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کے نفاذ سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ فرمایا جبکہ قرآن کریم میں قرض سے پہلے وصیت کا ذکر ہے۔ (جامع الترمذی،الوصایا،حدیث:2122) چونکہ یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے صیغۂ تمریض سے بیان کی ہے، لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس حدیث پر عام اہل علم کا عمل ہے۔ ٭ آیت کریمہ میں امانت کے ادا کرنے کا حکم ہے۔ چونکہ قرض، قرض خواہ کی امانت ہے اور وصیت کسی امانت کی نہیں ہوتی، اس لیے قرض وصیت سے پہلے ادا کرنا چاہیے۔ ٭ مریض جب وصیت کرے گا تو یہ اس کی طرف سے صدقہ ہو گا اور صدقہ اس وقت کیا جاتا ہے جب اس کا مال قرض وغیرہ سے فارغ ہو۔ مقروض تو محتاج ہے، غنی نہیں، اس بنا پر وہ صدقہ کیسے کر سکتا ہے، اس لیے اس کی وصیت نافذ نہیں ہو گی جب تک قرض کی ادائیگی نہ ہو۔ ٭ غلام اپنے مالک کی اجازت کے بغیر وصیت نہیں کر سکتا کیونکہ غلام کی وصیت تو نفلی طور پر ہے اور مالک کا حق اس کے مال کے ساتھ لازمی اور حتمی طور پر ہے، غلام کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے آقا کے حق کو ختم کر دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ واجب کی ادائیگی نفل پر مقدم ہے، قرض کی ادائیگی واجب ہے اور وصیت نفل، اس بنا پر قرض کی ادائیگی وصیت پر مقدم ہو گی۔ ٭ غلام کی نگرانی کا تقاضا ہے کہ جب تک مالک اجازت نہ دے غلام اس کے مال میں تصرف نہ کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ واجب، نفل پر مقدم ہے کیونکہ غلام کا خرچ کرنا ایک نفل ہے اور اس کے آقا کا حق واجب ہے۔ قرآن کریم میں وصیت کو قرض کی ادائیگی پر مقدم کرنے کی کئی ایک وجوہات ہیں، مثلاً: (ا) وصیت بلا عوض ہوتی ہے اور قرض کسی چیز کے عوض ہوتا ہے، بلا عوض کسی چیز کا مال سے الگ کرنا نفس پر بہت گراں گزرتا ہے، اس لیے اسے مقدم کیا گیا کہ اسے بھی ادا کرنا چاہیے۔ (ب) وصیت ایک نفلی چیز ہے جبکہ قرض کی وصولی تو بزور بھی کی جا سکتی ہے، اس لیے وصیت کو مقدم کیا گیا ہے کہ اسے بھی ادا کرنا چاہیے اگرچہ اسے بزور وصول نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ہے کہ قرض کی ادائیگی نفاذ وصیت سے پہلے ہو گی اگرچہ قرآن کریم میں وصیت کا ذکر قرض کی ادائیگی سے پہلے ہے۔
اور منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے قرض کو وصیت پر مقدم کر نے کا حکم دیا اور ( اس سورت میں ) یہ فرمانے کی اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچاؤ تو امانت ( قرض ) کا ادا کرنا نفل وصیت کے پورا کرنے سے زیادہ ضروری ہے اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا صدقہ وہی عمدہ ہے جس کے بعد آمی مالدار رہے اور ابن عباس ؓ نے کہا غلام بغیر اپنے مالک کی اجازت کے وصیت نہیں کر سکتا اور آنحضرتﷺ نے فرمایا غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو(یہ) فرماتے ہوئے سنا : ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر نگہبان سے اسکی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ حاکم وقت نگہبان ہے، اس اسے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل کیاجائے گا۔ آدمی اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوا ل ہوگا۔ نوکر اپنے مالک کے مال کا نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ میرے گمان کے مطابق آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’مرد اپنے باپ کے مال کا نگران ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے مطابق غلام اپنے آقا کے مال کا نگہبان ہے، حالانکہ وہ مال غلام ہی کا کمایا ہوا ہے۔ گویا اس مال میں آقا اور غلام دونوں کے حقوق ہیں لیکن مالک کا حق مقدم کیا گیا کیونکہ وہ زیادہ قوی ہے۔ اسی طرح قرض اور وصیت میں قرض کو مقدم کیا جائے گا کیونکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے اور وصیت ایک طرح کا نفلی صدقہ ہے، اسے قرض کے بعد ادا کرنا ہو گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
بیان کیاجاتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے وصیت سے پہلے قرض ادا کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ لوگوں کی امانتیں ان کے حوالے کرو۔ "اس بنا پر امانت کی ادائیگی نفلی وصیت سے زیادہ حق رکھتی ہے۔نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "صدقہ وہی کرے جو مالدار ہو۔ "حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر وصیت نہ کرے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشربن محمد نے بیان کیا‘ کہا ہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی کہا ہم کو یونس نے، انہوں نے زہری سے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو سالم نے خبر دی‘ انہوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے انہوں نے کہا میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا‘ آپ ﷺ فرماتے تھے تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حاکم بھی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائےگا اور مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھی جائے گی اور غلام اپنے صاحب کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ابن عمر ؓ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مرد اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب العتق میں گزر چکی ہے‘ اس کی مباسبت ترجمہ سے مشکل ہے۔ بعضوں نے کہا ہے غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہوا حالانکہ وہ غلام ہی کا کمایا ہوا ہے تو اس میں مالک اور غلام دونوں کے حق متعلق ہوئے‘ لیکن مالک کا حق مقدم کیا گیا کیونکہ وہ زیادہ قوی ہے۔ اسی طرح قرض اور وصیت میں قرض کو مقدم کیا جائے گا‘ کیونکہ قرض کی ادائیگی فرض ہے اور وصیت ایک قسم کا تبرع یعنی نفل ہے۔ شافعیہ نے کہا کہ ان میں وارث داخل نہ ہوں گے۔ بعضوں نے کہا داخل ہوں گے۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے کہا عزیزوں سے محرم ناطہ دار مراد ہوں گے ‘ باپ کی طرف کے ہوں یا ماں کی طرف کے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "All of you are guardians and responsible for your charges: the Ruler (i.e. Imam) is a guardian and responsible for his subjects; and a man is a guardian of his family and is responsible for his charges; and a lady is a guardian in the house of her husband and is responsible for her charge; and a servant is a guardian of the property of his master and is responsible for his charge." I think he also said, "And a man is a guardian of the property of his father."