باب : سورۃ نساءمیں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اور یتیموں کو ان کا مال پہنچا دو . . .
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And if you fear that you shall not be able to deal justly with the orphan-girls...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
” اور یتیموں کو ان کا مال پہنچا دو اور ستھرے مال کے عوض گندہ مال مت لو۔ اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کرکے نہ کھاؤ بے شک یہ بہت بڑاگناہ ہے اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتیں جو تمہیں پسند ہوں‘ ان سے نکاح کرلو “
2763.
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت کریمہ کے متعلق سوا ل کیا: ’’اوراگر تمھیں خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے متعلق تم انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمھیں پسند ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: یتیم لڑکی اپنے سرپرست کی پرورش میں ہوتی تھی اور وہ اس کے حسن وجمال اور مال ومتاع میں رغبت کرتا لیکن وہ چاہتا کہ اس کے خاندان کی عورتوں کے مہر سے کم مہر کے عوض اس سے نکاح کرلے، اس لیے انھیں ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے روک دیا گیا مگر اس صورت میں کہ ان کے حق مہر کی پوری ادائیگی کریں۔ اورانھیں حکم دیا گیا کہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بعد فتویٰ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’یہ لوگ آپ سےعورتوں کےمتعلق فتویٰ پوچھتے ہیں تو آپ فرمادیں کہ اللہ تمھیں ان کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں بیان کیا ہے کہ یتیم لڑکی جب جمال اور مال والی ہوتی تو لوگ اس کے نکاح کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے لیکن لیکن حق مہر دینے میں خاندانی عورتوں کا طریقہ اختیار نہ کرتے تھے۔ جب لڑکی کامال کم ہوتا اور وہ خوبصورت نہ ہوتی تو اس سے نکاح کرنے میں کوئی رغبت نہ رکھتے بلکہ اس کے علاوہ دوسری عورتیں تلاش کرتے۔ حضرت عروہ نے فرمایا: جب وہ ان میں رغبت نہ کرنے کے وقت انھیں چھوڑے رکھتے ہیں تو ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب ان میں رغبت کریں تو ان سے نکاح کریں، البتہ اگر ان کا مہر پورا اداکرنے میں انصاف کریں اور انھیں پورا پورا حق دیں تو پھر ان سے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ اوقاف کی حفاظت اس شخص کے ذمے ہے جو ان کا متولی ہو جس طرح یتیموں کے مال کی نگہداشت ان کے سرپرستوں کے ذمے ہے تاکہ وہ ان کے اموال کی حفاظت اور خیال کریں۔ (2) مذکورہ آیات و حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس یتیم لڑکی ہو اور وہ اسے مہر مثل ادا نہ کر سکتا ہو تو وہ نکاح کے لیے دوسری عورتوں کی طرف رجوع کرے کیونکہ یتیم لڑکی کے علاوہ اور عورتیں بکثرت ہیں۔ اور اگر ضرور یتیم لڑکی سے نکاح کرنا ہے تو اس کا حق مہر پورا ادا کیا جائے جو اس کی ہم عصر عورتوں کا ہے، اس میں کسی قسم کی کمی نہ کی جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2663
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2763
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2763
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2763
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے وقف اور وصیت کے عنوان میں یتیموں کی نگہداشت سے متعلقہ احادیث اس لیے بیان کی ہیں کہ وقف کی نگرانی بھی یتیموں کے حقوق کی نگرانی کی طرح ہے۔ اس کے مصالح کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ گویا یہ وقف مال یتیم کی طرح ایک امانت ہے جس کی حفاظت بہت محنت طلب ہے۔ اس میں معمولی سی کوتاہی انسان کو اللہ کی رحمت سے دور کر سکتی ہے۔ (عمدۃ القاری:10/45)
” اور یتیموں کو ان کا مال پہنچا دو اور ستھرے مال کے عوض گندہ مال مت لو۔ اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کرکے نہ کھاؤ بے شک یہ بہت بڑاگناہ ہے اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتیں جو تمہیں پسند ہوں‘ ان سے نکاح کرلو “
حدیث ترجمہ:
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت کریمہ کے متعلق سوا ل کیا: ’’اوراگر تمھیں خطرہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے متعلق تم انصاف نہیں کرسکو گے تو پھر دوسری عورتوں سے نکاح کرلو جو تمھیں پسند ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: یتیم لڑکی اپنے سرپرست کی پرورش میں ہوتی تھی اور وہ اس کے حسن وجمال اور مال ومتاع میں رغبت کرتا لیکن وہ چاہتا کہ اس کے خاندان کی عورتوں کے مہر سے کم مہر کے عوض اس سے نکاح کرلے، اس لیے انھیں ایسی عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے سے روک دیا گیا مگر اس صورت میں کہ ان کے حق مہر کی پوری ادائیگی کریں۔ اورانھیں حکم دیا گیا کہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرلیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بعد فتویٰ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’یہ لوگ آپ سےعورتوں کےمتعلق فتویٰ پوچھتے ہیں تو آپ فرمادیں کہ اللہ تمھیں ان کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں بیان کیا ہے کہ یتیم لڑکی جب جمال اور مال والی ہوتی تو لوگ اس کے نکاح کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے لیکن لیکن حق مہر دینے میں خاندانی عورتوں کا طریقہ اختیار نہ کرتے تھے۔ جب لڑکی کامال کم ہوتا اور وہ خوبصورت نہ ہوتی تو اس سے نکاح کرنے میں کوئی رغبت نہ رکھتے بلکہ اس کے علاوہ دوسری عورتیں تلاش کرتے۔ حضرت عروہ نے فرمایا: جب وہ ان میں رغبت نہ کرنے کے وقت انھیں چھوڑے رکھتے ہیں تو ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ جب ان میں رغبت کریں تو ان سے نکاح کریں، البتہ اگر ان کا مہر پورا اداکرنے میں انصاف کریں اور انھیں پورا پورا حق دیں تو پھر ان سے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ اوقاف کی حفاظت اس شخص کے ذمے ہے جو ان کا متولی ہو جس طرح یتیموں کے مال کی نگہداشت ان کے سرپرستوں کے ذمے ہے تاکہ وہ ان کے اموال کی حفاظت اور خیال کریں۔ (2) مذکورہ آیات و حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس یتیم لڑکی ہو اور وہ اسے مہر مثل ادا نہ کر سکتا ہو تو وہ نکاح کے لیے دوسری عورتوں کی طرف رجوع کرے کیونکہ یتیم لڑکی کے علاوہ اور عورتیں بکثرت ہیں۔ اور اگر ضرور یتیم لڑکی سے نکاح کرنا ہے تو اس کا حق مہر پورا ادا کیا جائے جو اس کی ہم عصر عورتوں کا ہے، اس میں کسی قسم کی کمی نہ کی جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا‘ کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے کہ عروہ بن زبیر ؓ ان سے حدیث بیان کرتے تھے‘ انہوں نے عائشہ ؓ سے آیت ﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ﴾ (ترجمہ اوپر گزر چکا) کا مطلب پوچھا تو عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ یتیم لڑکی ہے جو اپنے ولی کی زیر پرورش ہو‘ پھر ولی کے دل میں اس کا حسن اور اس کے مال کی طرف سے رغبت نکاح پیدا ہوجائے مگر اس کم مہر پر جو ویسی لڑکیوں کا ہو نا چاہئے تو اس طرح نکاح کرنے سے روکا گیا لیکن یہ کہ ولی ان کے ساتھ پورے مہرکی ادائیگی میں انصاف سے کام لیں ( تو نکاح کرسکتے ہیں ) اور انہیں لڑکیوں کے سوا دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ”آپ سے لوگ عورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے مےں ہداےت کرتا ہے۔“ حضرت عائشہ ؓ نے کہاکہ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کردیا کہ یتیم لڑکی اگر جمال اور مال والی ہو اور (ان کے ولی) ان سے نکاح کرنے کے خواہش مندہوں لیکن پورا مہر دینے میں ان کے (خاندان کے) طریقوں کی پابندی نہ کرسکیں تو (وہ ان سے نکاح مت کریں) جبکہ مال اور حسن کی کمی کی وجہ سے ان کی طرف انہیں کوئی رغبت نہ ہوتی ہو تو انہیں وہ چھوڑ دیتے اوران کے سوا کسی دوسری عورت کو تلاش کرتے۔ راوی نے کہا جس طرح ایسے لوگ رغبت نہ ہونے کی صورت میں ان یتیم لڑکیوں کو چھوڑدیتے‘ اسی طرح ان کے لئے یہ بھی جائز نہیں کہ جب ان لڑکیوں کی طرف انہیں رغبت ہو تو ان کے پورے مہر کے معاملے میں اور ان کے حقوق ادا کرنے میں انصاف سے کام لئے بغیر ان سے نکاح کریں۔
حدیث حاشیہ:
تاریخ و روایات میں مذکور ہے کہ یتیم لڑکیاں جو اپنے ولی کی تربیت میں ہوتی تھیں اور وہ لڑکی اس ولی کے مال وغیرہ میں بوجہ قرابت کے شریک ہوتی تواب دوصورتیں پیش آتی تھیں‘ کبھی تو یہ صورت پیش آتی کہ وہ لڑکی خوبصورت ہوتی اور ولی کو اس کے مال وجمال ہر دو کی رغبت کی وجہ سے اس سے نکاح کی خواہش ہوتی اور وہ تھوڑے سے مہر پر اس سے نکاح کرلیتا کیونکہ کوئی دوسرا شخص اس لڑکی کا دعویدار نہیں ہوتا تھا اور کبھی یہ صورت پیش آتی کہ یتیم لڑکی صورت شکل میں حسین نہ ہوتی مگر اس کا وہ ولی یہ خیال کرتا کہ دوسرے کسی سے اس کا نکاح کردوں گا تو لڑکی کا مال میرے قبضے سے نکل جائے گا۔ اس مصلحت سے وہ نکاح تو اس لڑکی سے طوعاً و کرھاً کرلیتا مگر ویسے اس سے کچھ رغبت نہ رکھتا۔ اس پر اس آیت کا نزول ہو ااور اولیاءکو ارشاد ہواکہ اگر تم کو اس بات کا ڈر ہے کہ تم ایسی یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے اور ان کے مہر اور ان کے ساتھ حسن معاشرت میں تم سے کوتاہی ہوگی تو تم ان سے نکاح مت کرو بلکہ اور عورتیں جو تم کو مرغوب ہوں ان سے ایک چھوڑ چار تک کی تم کو اجازت ہے۔ قاعدہ شرعیہ کے مطابق ان سے نکاح کرلو تاکہ یتیم لڑکیوں کو بھی نقصان نہ پہنچے کیونکہ تم ان کے حقوق کے حامی رہوگے اور تم بھی کسی گناہ میں نہ پڑوگے۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ بہرحال اولیاء کا فرض ہے کہ یتیم بچوں اور بچیوں کے مال کی خدا ترسی کے ساتھ حفاظت کریں اور ان کے بالغ ہونے پر جیسے ان کے حق میں بہتر جانیں وہ مال ان کو ادا کردیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Az-Zuhri (RA): Urwa bin Az-Zubair said that he asked 'Aisha (RA) about the meaning of the Qur'anic Verse:-- "And if you fear that you will not deal fairly with the orphan girls then marry (other) women of your choice." (4.2-3) Aisha said, "It is about a female orphan under the guardianship of her guardian who is inclined towards her because of her beauty and wealth, and likes to marry her with a Mahr less than what is given to women of her standard. So they (i.e. guardians) were forbidden to marry the orphans unless they paid them a full appropriate Mahr (otherwise) they were ordered to marry other women instead of them. Later on the people asked Allah's Apostle (ﷺ) about it. So Allah revealed the following Verse:-- "They ask your instruction ( O Muhammad (ﷺ) !) regarding women. Say: Allah instructs you regarding them..." (4.127) and in this Verse Allah indicated that if the orphan girl was beautiful and wealthy, her guardian would have the desire to marry her without giving her an appropriate Mahr equal to what her peers could get, but if she was undesirable for lack of beauty or wealth, then he would not marry her, but seek to marry some other woman instead of her. So, since he did not marry her when he had no inclination towards her, he had not the right to marry her when he had an interest in her, unless he treated her justly by giving her a full Mahr and securing all her rights.