باب: اس شخص کے متعلق جس نے اپنے سر کے داہنے حصے سے غسل کیا۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Starting from the right side of one's head while taking a bath)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
277.
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم میں سے اگر کسی کو جنابت لاحق ہوتی تو وہ اپنے ہاتھوں میں پانی لے کر سر پر تین مرتبہ ڈالتی، پھر اپنے ہاتھ میں پانی لے کر اپنے دائیں حصے پر ڈالتی، اس کے بعد پانی لے کر بائیں حصے کا غسل کرتی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے کسی مرفوع حدیث کا حوالہ نہیں دیا بلکہ حضرت عائشہ ؓ کے قول کا حوالہ دیا ہے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک قول صحابی مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔ اس سے امام بخاری ؒ کے مسلک کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابی کا یوں کہنا (كُنَّا نَفعَلُ) مرفوع حدیث کا درجہ رکھتاہے، خواہ وہ صحابی اس فعل کو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی طرف منسوب کرے یا نہ کرے۔ امام حاکم ؒ کا بھی یہ موقف ہے، جبکہ دوسرے محدثین قول صحابی کو اس وقت حدیث مرفوع کا درجہ دیتے ہیں جب وہ اسے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی طرف منسوب کرے۔ (فتح الباري:499/1) 2۔ اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ غسل میں بھی وضو کی طرح مسنون طریقہ دائیں جانب سے شروع کرنا ہے، لیکن اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ عنوان میں تو سر کی دائیں جانب کا ذکر ہے، جبکہ حدیث مذکور میں جسم کے دائیں حصے کو پہلے دھونے کا بیان ہے۔ اس کے جواب میں علامہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں کہ جسم کے دائیں حصے سے مراد سر کے سمیت جسم کا دایاں حصہ مرادہے، اس طرح حدیث کے عنوان سے مطابقت ہوجاتی ہے، کیونکہ سربھی جسم میں شامل ہے۔ (شرح الکرماني:140/2) حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث میں تین بار سر دھونے کے ذکر سے یہ تقسیم سمجھی ہے کہ پہلے سر ہی کے دائیں حصے کو تین بار بائیں حصے کو تین بار دھویا جائے، جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں وضاحت آچکی ہے کہ آپ نے سر کی دائیں جانب پھر بائیں جانب سے غسل کا آغاز فرمایا۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:258، وفتح الباري:500/1) لیکن اس حدیث (رقم 258) میں یہ بات طے شدہ نہیں کہ اس سے مراد سردھونا ہے یا خوشبو استعمال کرنا ہے۔ سردھونے کی صورت میں ممکن ہے کہ اس کی دائیں جانب سے شروع کرکے جسم کے دائیں حصے کو بھی ساتھ ہی دھویا، پھر سر کے بائیں حصے سے شروع کرکے جسم کے بائیں حصے کو بھی ساتھ شامل کرلیا ہو لیکن راوی نے اختصار کے پیش نظر جسم کا ذکر نہیں کیا بلکہ (فَبَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الأَيْمَنِ) کے الفاظ روایت کردیے ہیں۔ 3۔ اس حدیث میں مطلق طور پر دائیں جانب اور بائیں جانب کا ذکر ہے۔ اس میں سر کی قید نہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں سر کی قید لگا کر وضاحت کردی کہ حدیث میں شق أیمن اور شق أیسر سے مراد سر کی دو جانب ہیں، کیونکہ سر کے دھونے کا یہی طریقہ ہے کہ چلو میں پانی لیا جائے، اسے سر کی دائیں جانب ڈالا جائے، اسی طرح پھر بائیں جانب کو دھویا جائے۔ پورے جسم کو دھونے کے لیے پانی کو بہایا جاتا ہے یا پھر دونوں ہاتھوں کو بیک وقت استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایک ایک چلو پانی لے کر جسم پر ڈالنا عادت کے خلاف ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
278
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
277
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
277
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
277
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم میں سے اگر کسی کو جنابت لاحق ہوتی تو وہ اپنے ہاتھوں میں پانی لے کر سر پر تین مرتبہ ڈالتی، پھر اپنے ہاتھ میں پانی لے کر اپنے دائیں حصے پر ڈالتی، اس کے بعد پانی لے کر بائیں حصے کا غسل کرتی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے کسی مرفوع حدیث کا حوالہ نہیں دیا بلکہ حضرت عائشہ ؓ کے قول کا حوالہ دیا ہے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک قول صحابی مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔ اس سے امام بخاری ؒ کے مسلک کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابی کا یوں کہنا (كُنَّا نَفعَلُ) مرفوع حدیث کا درجہ رکھتاہے، خواہ وہ صحابی اس فعل کو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی طرف منسوب کرے یا نہ کرے۔ امام حاکم ؒ کا بھی یہ موقف ہے، جبکہ دوسرے محدثین قول صحابی کو اس وقت حدیث مرفوع کا درجہ دیتے ہیں جب وہ اسے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی طرف منسوب کرے۔ (فتح الباري:499/1) 2۔ اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ غسل میں بھی وضو کی طرح مسنون طریقہ دائیں جانب سے شروع کرنا ہے، لیکن اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ عنوان میں تو سر کی دائیں جانب کا ذکر ہے، جبکہ حدیث مذکور میں جسم کے دائیں حصے کو پہلے دھونے کا بیان ہے۔ اس کے جواب میں علامہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں کہ جسم کے دائیں حصے سے مراد سر کے سمیت جسم کا دایاں حصہ مرادہے، اس طرح حدیث کے عنوان سے مطابقت ہوجاتی ہے، کیونکہ سربھی جسم میں شامل ہے۔ (شرح الکرماني:140/2) حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حدیث میں تین بار سر دھونے کے ذکر سے یہ تقسیم سمجھی ہے کہ پہلے سر ہی کے دائیں حصے کو تین بار بائیں حصے کو تین بار دھویا جائے، جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں وضاحت آچکی ہے کہ آپ نے سر کی دائیں جانب پھر بائیں جانب سے غسل کا آغاز فرمایا۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:258، وفتح الباري:500/1) لیکن اس حدیث (رقم 258) میں یہ بات طے شدہ نہیں کہ اس سے مراد سردھونا ہے یا خوشبو استعمال کرنا ہے۔ سردھونے کی صورت میں ممکن ہے کہ اس کی دائیں جانب سے شروع کرکے جسم کے دائیں حصے کو بھی ساتھ ہی دھویا، پھر سر کے بائیں حصے سے شروع کرکے جسم کے بائیں حصے کو بھی ساتھ شامل کرلیا ہو لیکن راوی نے اختصار کے پیش نظر جسم کا ذکر نہیں کیا بلکہ (فَبَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الأَيْمَنِ) کے الفاظ روایت کردیے ہیں۔ 3۔ اس حدیث میں مطلق طور پر دائیں جانب اور بائیں جانب کا ذکر ہے۔ اس میں سر کی قید نہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں سر کی قید لگا کر وضاحت کردی کہ حدیث میں شق أیمن اور شق أیسر سے مراد سر کی دو جانب ہیں، کیونکہ سر کے دھونے کا یہی طریقہ ہے کہ چلو میں پانی لیا جائے، اسے سر کی دائیں جانب ڈالا جائے، اسی طرح پھر بائیں جانب کو دھویا جائے۔ پورے جسم کو دھونے کے لیے پانی کو بہایا جاتا ہے یا پھر دونوں ہاتھوں کو بیک وقت استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایک ایک چلو پانی لے کر جسم پر ڈالنا عادت کے خلاف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، انھوں نے حسن بن مسلم سے روایت کی، وہ صفیہ بنت شیبہ سے، وہ حضرت عائشہ ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ ہم ازواج (مطہرات) میں سے کسی کو اگر جنابت لاحق ہوتی تو وہ ہاتھوں میں پانی لے کر سر پر تین مربتہ ڈالتیں۔ پھر ہاتھ میں پانی لے کر سر کے داہنے حصے کا غسل کرتیں اور دوسرے ہاتھ سے بائیں حصے کا غسل کرتیں۔
حدیث حاشیہ:
پہلا چلودائیں جانب پر دوسرا چلو بائیں جانب پر تیسرا چلو سر کے بیچ جیساکہ باب ''من بدأ بالحلاب أوالطیب'' میں بیان ہوا۔ امام بخاری ؒ نے یہاں اسی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اور ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ بعضوں کے نزدیک ترجمہ باب جملہ ''ثم تأخذ بیدها علی شقها الأیمن'' سے نکلتا ہے کہ اس میں ضمیر سر کی طرف پھرتی ہے۔ یعنی پھر سر کے دائیں طرف پر ہاتھ سے پانی ڈالتے اور سر کے بائیں طرف پر دوسرے ہاتھ سے۔ کرمانی ؒ نے کہا کہ باب کا ترجمہ اس سے نکل آیا، کیونکہ بدن میں سر سے لے کر قدم تک داخل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Whenever any one of us was Junub, she poured water over her head thrice with both her hands and then rubbed the right side of her head with one hand and rubbed the left side of the head with the other hand.