باب : جانور اور گھوڑے اور سامان اور سونا چاندی وقف کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: Animals, property, gold and silver as endowments)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
زہرینے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا تھا ۔ جس نے ہزار دینار اللہ کے راستے میں وقف کر دیئے اور انہیں اپنے ایک تاجر غلام کو دے دیا تھا کہ اس سے کاروبار کرے اور اس کے نفع کو اس شخص نے محتاجوں اور ناطے والوں کے لئے صدقہ کیا ۔ کیا وہ شخص ان اشرفیوں کے نفع میں سے کچھ کھا سکتا ہے ، اس نے اس نفع کو محتاج پر صدقہ نہ کیاہوجب بھی اس میں سے کھا نہیں سکتا ۔ ترجمۃ الباب کا مقصد جائداد منقولہ کا وقف کرنا ہے ۔ کراع کاف کے ضمہ کے ساتھ گھوڑوں کو کہا جاتاہے ۔ لفظ عروض نقدی کے علاوہ دیگر اسباب پر بولاجاتا ہے اور صامت سونے چاندی پر مستعمل ہے ( فتح ) خلاصہ یہ کہ جائداد منقولہ اور غیر منقولہ بشرائط معلومہ سب کا وقف کرنا جائز ہے ۔ کیونکہ وہ اشرفیاں اللہ کی راہ میں نکالیں تو گویا صدقہ کر دیں ، اب صدقے کا مال اپنے خرچ میں کیو نکر لا سکتا ہے ، اس اثر کو ابن وہب نے اپنے مؤطا میں وصل کیا ہے ( وحیدی )
2775.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے کسی کو فی سبیل اللہ سواری کے لیے گھوڑا دیا جو انھیں رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا تھا تاکہ وہ کسی مجاہد کو اس پر سوارکریں۔ حضرت عمر ؓ کو خبر ملی کہ جس کے لیے گھوڑاوقف کیا تھا وہ اسے فروخت کر رہا ہے۔ انھوں نےرسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا کہ وہ اس گھوڑے کو خرید سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے مت خریدواور اپنے صدقے میں کبھی رجوع نہ کرو۔‘‘
تشریح:
(1) غیر منقولہ اشیاء کا وقف تو عام ہے، مثلاً: مسجد بنانا، مدرسہ تعمیر کرانا، کنواں جاری کرنا، زمین وقف کرنا، سرائے بنوانا وغیرہ۔ امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ منقولہ اشیاء کا وقف بھی جائز ہے جس کی صورتیں حسب ذیل ہو سکتی ہیں: ٭ موبائل ہسپتال بنا کر وقف کرنا۔ ٭ ایمبولینس خرید کر وقف کرنا۔ ٭ برتن وغیرہ خرید کر رکھنا تاکہ رفاہ عام میں ان کو استعمال کیا جا سکے۔ ٭ مسافروں کے لیے بستر تیار کر کے وقف کرنا۔ ٭ مساجد میں مصاحف رکھنا۔ ٭ کتب احادیث خرید کر طلبہ اور مدرسین کو وقف کرنا۔ ٭ مجاہدین کے لیے اسلحہ اور سواری کا بندوبست کرنا۔ یہ سب منقولہ اشیاء کا وقف ہے۔ ایسا کرنا جائز ہے۔ (2) امام زہری ؒ کے اثر کے متعلق ہمارا رجحان یہ ہے کہ اگر خود اس کا محتاج ہو جائے تو نفع حاصل کرنا جائز ہے کیونکہ ایسے حالات میں وہ بھی ایک مسکین ہی شمار ہو گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2675
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2775
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2775
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2775
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
تمہید باب
اس اثر کو ابن وہب نے اپنی موطا میں متصل سند سے ذکر کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی نے کچھ اشرفیاں صدقہ کر دیں اور اسے تجارت میں لگا دیا تو پھر وہ اس کا نفع اپنے مصرف میں نہیں لا سکتا۔ (فتح الباری:5/495)
زہرینے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا تھا ۔ جس نے ہزار دینار اللہ کے راستے میں وقف کر دیئے اور انہیں اپنے ایک تاجر غلام کو دے دیا تھا کہ اس سے کاروبار کرے اور اس کے نفع کو اس شخص نے محتاجوں اور ناطے والوں کے لئے صدقہ کیا ۔ کیا وہ شخص ان اشرفیوں کے نفع میں سے کچھ کھا سکتا ہے ، اس نے اس نفع کو محتاج پر صدقہ نہ کیاہوجب بھی اس میں سے کھا نہیں سکتا ۔ ترجمۃ الباب کا مقصد جائداد منقولہ کا وقف کرنا ہے ۔ کراع کاف کے ضمہ کے ساتھ گھوڑوں کو کہا جاتاہے ۔ لفظ عروض نقدی کے علاوہ دیگر اسباب پر بولاجاتا ہے اور صامت سونے چاندی پر مستعمل ہے ( فتح ) خلاصہ یہ کہ جائداد منقولہ اور غیر منقولہ بشرائط معلومہ سب کا وقف کرنا جائز ہے ۔ کیونکہ وہ اشرفیاں اللہ کی راہ میں نکالیں تو گویا صدقہ کر دیں ، اب صدقے کا مال اپنے خرچ میں کیو نکر لا سکتا ہے ، اس اثر کو ابن وہب نے اپنے مؤطا میں وصل کیا ہے ( وحیدی )
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے کسی کو فی سبیل اللہ سواری کے لیے گھوڑا دیا جو انھیں رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا تھا تاکہ وہ کسی مجاہد کو اس پر سوارکریں۔ حضرت عمر ؓ کو خبر ملی کہ جس کے لیے گھوڑاوقف کیا تھا وہ اسے فروخت کر رہا ہے۔ انھوں نےرسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا کہ وہ اس گھوڑے کو خرید سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے مت خریدواور اپنے صدقے میں کبھی رجوع نہ کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) غیر منقولہ اشیاء کا وقف تو عام ہے، مثلاً: مسجد بنانا، مدرسہ تعمیر کرانا، کنواں جاری کرنا، زمین وقف کرنا، سرائے بنوانا وغیرہ۔ امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ منقولہ اشیاء کا وقف بھی جائز ہے جس کی صورتیں حسب ذیل ہو سکتی ہیں: ٭ موبائل ہسپتال بنا کر وقف کرنا۔ ٭ ایمبولینس خرید کر وقف کرنا۔ ٭ برتن وغیرہ خرید کر رکھنا تاکہ رفاہ عام میں ان کو استعمال کیا جا سکے۔ ٭ مسافروں کے لیے بستر تیار کر کے وقف کرنا۔ ٭ مساجد میں مصاحف رکھنا۔ ٭ کتب احادیث خرید کر طلبہ اور مدرسین کو وقف کرنا۔ ٭ مجاہدین کے لیے اسلحہ اور سواری کا بندوبست کرنا۔ یہ سب منقولہ اشیاء کا وقف ہے۔ ایسا کرنا جائز ہے۔ (2) امام زہری ؒ کے اثر کے متعلق ہمارا رجحان یہ ہے کہ اگر خود اس کا محتاج ہو جائے تو نفع حاصل کرنا جائز ہے کیونکہ ایسے حالات میں وہ بھی ایک مسکین ہی شمار ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت امام زہری سے پوچھا گیا : اگر کوئی شخص ایک ہزار دینار وقف کر کے اپنے غلام کو دے دے تاکہ وہ انھیں تجارت میں لگائے اور اس کے منافع سے مساکین اور قریبی رشتہ داروں کو کھلائے۔ توکیاوہ وقف کرنے والا شخص خود اس نفع سے کچھ کھا سکتا ہے؟اسی طرح اگر اس نے اس کا نفع محتاجوں پر صدقہ نہ کیا ہو تو کیا کھا سکتا ہے؟انھوں نے کہا: وہ اس سے نہیں کھا سکتا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عمری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنا ایک گھوڑا اللہ کے راستے میں (جہاد کرنے کے لئے) ایک آدمی کو دے دیا۔ یہ گھوڑا آنحضرت ﷺ کو حضرت عمر ؓ نے دیا تھا‘ تا کہ آپ جہاد میں کسی کو اس پر سوار کریں۔ پھر عمر ؓ کو معلوم ہوا کہ جس شخص کو یہ گھوڑا ملا تھا‘ وہ اس گھوڑے کو بازار میں بیچ رہا ہے۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا وہ اسے خرید سکتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہرگز اسے نہ خرید۔ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس نہ لے۔
حدیث حاشیہ:
گو حضرت عمر ؓ نے یہ گھوڑا صدقہ دیا تھا مگر وقف کا حکم بھی صدقہ پر قیاس کیا‘ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ وقف میں اصل جائداد روک لی جاتی ہے اور صدقہ میں اصل جائداد کی ملکیت منتقل کی جاتی ہے‘ اس لئے یہ قیاس صحیح نہیں۔ اب یہ کہنا کہ حضرت عمر ؓ نے یہ گھوڑا وقف کیا تھا‘اس لئے صحیح نہیں ہوسکتا کہ اگر وقف کیا ہوتا تو وہ شخص جس کو گھوڑا ملا تھا‘ اس کو بیچنے کے لئے بازار میں کیونکر کھڑا کر سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Once 'Umar gave a horse in charity to be used in holy fighting. It had been given to him by Allah's Apostle (ﷺ) . 'Umar gave it to another man to ride. Then 'Umar was informed that the man put the horse for sale, so he asked Allah's Apostle (ﷺ) whether he could buy it. Allah's Apostle (ﷺ) replied, "You should not buy it, for you should not take back what you have given in charity."