باب : جہا د کے لئے نکل کھڑا ہونا واجب ہے اور جہادکی نیت رکھنے کا واجب ہونا
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The obligation of going out for Jihad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اورسورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” کہ نکل پڑو ہلکے ہویا بھاری اوراپنے مال سے اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو‘ یہ بہتر ہے تمھارے حق میں اگر تم جانو‘ اگر کچھ مال آسانی سے مل جانے والا ہوتااورسفر بھی معمولی ہوتا تو یہ لوگ ( منافقین ) اے پیغمبر ! ضرور آپ ﷺ کے ساتھ ہو لیتے لیکن ان کو تو ( تبوک ) کا سفر ہی دور دراز معلوم ہوا اوریہ لوگ اب اللہ کی قسم کھائیں گے “ الآیۃ اوراللہ کا ارشاد ” اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے جب کہ تم سے کہا جاتاہے نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے توتم زمین پر ڈھیر ہوجاتے ہو‘ کیا تم دنیا کی زندگی پر آخرت کی زندگی کے مقابلہ میں راضی ہوگئے ہو ؟ سودنیاکی زندگی کا سامان تو آخرت کی زندگی کے سامنے بہت ہی تھوڑا ہے “ اللہ کے ارشاد ” اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے “ تک ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ( پہلی آیت کی تفسیر میں ) منقول ہے کہ جدا جدا ٹکڑیاں بنا کر جہاد کے لئے نکلو ، کہا جاتا ہے کہ ثبات ( جمع ) ثُبَۃہے ۔
2825.
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا: ’’فتح مکہ کے بعد ا ب(مکہ سے مدینہ کی طرف) ہجرت باقی نہیں رہی لیکن خلوص نیت کے ساتھ جہاد اب بھی باقی ہے، اس لیے جب تمھیں جہاد کے لیے بلایاجائے تو نکل کھڑے ہو۔‘‘
اورسورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” کہ نکل پڑو ہلکے ہویا بھاری اوراپنے مال سے اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو‘ یہ بہتر ہے تمھارے حق میں اگر تم جانو‘ اگر کچھ مال آسانی سے مل جانے والا ہوتااورسفر بھی معمولی ہوتا تو یہ لوگ ( منافقین ) اے پیغمبر ! ضرور آپ ﷺ کے ساتھ ہو لیتے لیکن ان کو تو ( تبوک ) کا سفر ہی دور دراز معلوم ہوا اوریہ لوگ اب اللہ کی قسم کھائیں گے “ الآیۃ اوراللہ کا ارشاد ” اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے جب کہ تم سے کہا جاتاہے نکلو اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے توتم زمین پر ڈھیر ہوجاتے ہو‘ کیا تم دنیا کی زندگی پر آخرت کی زندگی کے مقابلہ میں راضی ہوگئے ہو ؟ سودنیاکی زندگی کا سامان تو آخرت کی زندگی کے سامنے بہت ہی تھوڑا ہے “ اللہ کے ارشاد ” اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے “ تک ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے ( پہلی آیت کی تفسیر میں ) منقول ہے کہ جدا جدا ٹکڑیاں بنا کر جہاد کے لئے نکلو ، کہا جاتا ہے کہ ثبات ( جمع ) ثُبَۃہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا: ’’فتح مکہ کے بعد ا ب(مکہ سے مدینہ کی طرف) ہجرت باقی نہیں رہی لیکن خلوص نیت کے ساتھ جہاد اب بھی باقی ہے، اس لیے جب تمھیں جہاد کے لیے بلایاجائے تو نکل کھڑے ہو۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "ہلکےبھی نکلو اور بوجھل بھی، نیز اپنے اموال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ یہی بات تمہارے حق میں بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو، اگر دنیوی فائدہ قریب نظر آتا اور سفر بھی واجبی سا ہوتا تو یہ آپ کے ساتھ ہولیتے مگریہ مسافت انھیں کٹھن معلوم ہوئی تو لگے اللہ کی قسمیں کھانے۔ " نیز اللہ کا فرمان ہے: "اے ایمان والو!تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمھیں اللہ کی راہ میں جہاد کی خاطر نکلنے کے لیے کہاجاتا ہے تو تم زمین کی طرف بچھ جاتے ہو؟کیاتم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ہے؟۔ ۔ ۔ (اور اللہ) ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ "حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فَانفِرُوا ثُبَاتٍ کی تفسیر میں منقول ہے کہ تم جدا جداد گروپ بنا کر جہاد کے لیے نکلو۔ کہا جاتا ہے کہ ثبات کا مفردثُبَة ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا‘ ہم سے یحیٰ قطان نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے منصور نے بیان کیا مجاہد سے‘ انہوں نے طاؤس سے اورانہوں نے ابن عباس ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا مکہ فتح ہونے کے بعد (اب مکہ سے مدینہ کے لئے) ہجرت باقی نہیں ہے‘ لیکن خلوص نیت کے ساتھ جہاد اب بھی باقی ہے اس لئے تمہیں جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکل کھڑے ہو۔
حدیث حاشیہ:
یہ آیتیں غزوۂ تبوک کے بارے میں نازل ہوئیں۔ تبوک مکہ سے شہر مدینہ کے شمال کی سرحد پر واقع ہے۔ مدینہ منورہ سے تبوک کی مسافت بارہ منزلوں کی ہے۔ شام پر اس وقت عیسائیوں کی حکومت تھی‘ آنحضرتﷺ غزوۂ حنین سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ واپس ہوئے تو آپؐ کو خبر ملی کہ عیسائی فوجیں مقام تبوک میں جمع ہو رہی ہیں اور مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں‘ جن کی آپؐ نے خود ہی بڑھ کر مدافعت کرنی چاہی۔ چنانچہ تیس ہزار فوج آپؐ کے ساتھ ہوگئی‘ لیکن موسم سخت گرمی کا تھا‘ کھجوروں کی فصل پکنے اور کٹنے کا زمانہ تھا جس پر اہل مدینہ کی گزران بڑی حد تک موقوف تھی‘ مقابلہ بھی ایک باقاعدہ فوج سے تھا اور وہ بھی اپنے وقت کی بڑی سلطنت کی فوج اور سفر بھی دور دراز‘ اس لئے بعضوں کی ہمتیں جواب دے گئیں اور منافقین نے تو خوب ہی بہانے لگائے پھر بھی جب عیسائیوں کو حالات کی ناموافقت کے باوجود مسلمانوں کی اس تیاری کا علم ہوا تو خود ہی ان کے حوصلے پست ہوگئے اور انہیں فوج کشی کی ہمت نہ ہوئی۔ لشکر اسلام ایک مدت تک انتظار کے بعد واپس چلا آیا (سورۂ توبہ میں) آیات شریفہ ﴿یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْکُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْھِمْ﴾(التوبة: 94) میں اس جنگ سے متعلقین منافقین کا ذکر ہے دنیا کارگاہ عمل ہے‘ وقت آنے پر جی چرانے والوں کو اسلامی اصطلاح میں لفظ منافق سے یاد کیا گیا ہے کیونکہ اسلام سراسر عملی زندگی کا نام ہے‘ سچ ہے ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): On the day of the Conquest (of Makkah) the Prophet (ﷺ) said, "There is no emigration after the Conquest but Jihad and intentions. When you are called (by the Muslim ruler) for fighting, go forth immediately." (See Hadith No. 42)