باب : قطعی طور پر یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شخص شہید ہے
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: Do not say that so-and-so is a martyr)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
( کیوں کہ نیت اور خاتمہ کا حال معلوم نہیں ہے ) اور ابوہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں زخمی ہوتا ہے ۔
2898.
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مشرکین سے مڈ بھیڑ ہوگئی اور جنگ چھڑ گئی۔ پھر رسول اللہ ﷺ جب اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف روانہ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے ساتھ ایک شخص تھا جو مشرکین میں سے الگ ہونے والے یا اکیلے شخص کو نہیں چھوڑتا تھا۔ وہ اس (الگ ہونے والے) کا پیچھا کرتا اور اپنی تلوار سے وار کرکے اس کا کام تمام کردیتا۔ حضرت سہل ؓنے اس کے متعلق کہا: آج جس قدر بے جگری سے فلاں شخص لڑا ہے ہم میں سے کوئی بھی اس طرح نہیں لڑسکا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا: ’’وہ تو اہل جہنم سے ہے۔‘‘ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں اس کا پیچھا کروں گا۔ یہ شخص بھی اس کے ساتھ نکلا، جہاں وہ رک جاتا یہ بھی اسکے ہمراہ ٹھہر جاتا اور جب وہ جلدی چلتا تو یہ بھی اسکے ہمراہ جلدی چلتا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آخر وہ شخص شدید زخمی ہوگیا اور زخموں سے تنگ آکر اس نے جلد ہی موت کو دعوت دی کہ تلوار کا پھل تو اس نے زمین پر رکھ دیا اور اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابلے میں کرلیا، پھر اپنی تلوار پر جھک کر اپنے آپ کو قتل کرلیا۔ اب وہ (پیچھا کرنے والے) صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آپ نے پوچھا: ’’ کیا بات ہے؟‘‘ اس نے کہا: وہ شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے اور لوگوں پر آپ کا یہ فرمان بہت گراں گزرا تھا، میں نے ان سے کہا کہ میں تم سب لوگوں کی طرف سے اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں، چنانچہ میں اس کے پیچھے ہولیا۔ اس کے بعد وہ شخص شدید زخمی ہوا اور جلد ہی موت کو دعوت دی کہ اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کرلیا، پھر اس پر خود کو گرا کر اپنے آپ کو قتل کرلیا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرماا: ’’ایک شخص زندگی بھر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے، حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر دوزخ کے سے کام کرتا ہے، حالانکہ وہ اہل جنت سے ہوتا ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ وہ شخص بظاہر میدان جہاد می بڑا مجاہد معلوم ہورہا تھا اور بڑی بے جگری سے لڑرہا تھا مگر اس کی قسمت میں جہنم لکھی ہوئی تھی جس کے متعلق رسول اللہ ﷺنے بذریعہ وحی خبر دے دی تھی۔ آخر وہی کچھ ہوا۔ وہ خود کشی سے حرام موت مرا اور دوزخ میں داخل ہوا۔ اس بنا پر میدان جنگ میں مرنے والا شہید نہیں ہوتا اورنہ اسے شہید کہنا چاہئے۔ممکن ہے کہ وہ شخص منافق یا ریاکار ہو، البتہ شریعت کے ظاہری احکام کے مطابق اسے شہداء کا حکم دیاجائےگا۔ 2۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاتمے کا اعتبار ہے اور اللہ تعالیٰ بعض اوقات کافر و منافق سے اپنے دین کی مدد لے لیتا ہے۔ 3۔ شَاذََّه اس شخص کو کہتے جو لوگوں میں رہنے سہنے کے بعد ان سے الگ ہوجائے۔ فَاذَّه وہ ہے جو لوگوں سے بالکل میل جول نہ رکھے بلکہ شروع ہی سے ان سے الگ تھلگ رہے۔
قطعی طور پر کسی کو شہید نہیں کہنا چاہیے ہاں وہ لوگ اس بات کے حقدار ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنتی قراردیا ہو۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا:"تم اپنی جنگوں میں کہتے ہو: فلاں شہید ہے ۔ایسا مت کہو بلکہ اس طرح کہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:"جو اللہ کے راستے میں فوت ہوا یاقتل ہوا وہ شہید ہے۔"(صحیح البخاری الجھاد حدیث 2787،2803)
( کیوں کہ نیت اور خاتمہ کا حال معلوم نہیں ہے ) اور ابوہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں زخمی ہوتا ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مشرکین سے مڈ بھیڑ ہوگئی اور جنگ چھڑ گئی۔ پھر رسول اللہ ﷺ جب اپنے پڑاؤ کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاؤ کی طرف روانہ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے ساتھ ایک شخص تھا جو مشرکین میں سے الگ ہونے والے یا اکیلے شخص کو نہیں چھوڑتا تھا۔ وہ اس (الگ ہونے والے) کا پیچھا کرتا اور اپنی تلوار سے وار کرکے اس کا کام تمام کردیتا۔ حضرت سہل ؓنے اس کے متعلق کہا: آج جس قدر بے جگری سے فلاں شخص لڑا ہے ہم میں سے کوئی بھی اس طرح نہیں لڑسکا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا: ’’وہ تو اہل جہنم سے ہے۔‘‘ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں اس کا پیچھا کروں گا۔ یہ شخص بھی اس کے ساتھ نکلا، جہاں وہ رک جاتا یہ بھی اسکے ہمراہ ٹھہر جاتا اور جب وہ جلدی چلتا تو یہ بھی اسکے ہمراہ جلدی چلتا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آخر وہ شخص شدید زخمی ہوگیا اور زخموں سے تنگ آکر اس نے جلد ہی موت کو دعوت دی کہ تلوار کا پھل تو اس نے زمین پر رکھ دیا اور اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابلے میں کرلیا، پھر اپنی تلوار پر جھک کر اپنے آپ کو قتل کرلیا۔ اب وہ (پیچھا کرنے والے) صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آپ نے پوچھا: ’’ کیا بات ہے؟‘‘ اس نے کہا: وہ شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے اور لوگوں پر آپ کا یہ فرمان بہت گراں گزرا تھا، میں نے ان سے کہا کہ میں تم سب لوگوں کی طرف سے اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں، چنانچہ میں اس کے پیچھے ہولیا۔ اس کے بعد وہ شخص شدید زخمی ہوا اور جلد ہی موت کو دعوت دی کہ اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کرلیا، پھر اس پر خود کو گرا کر اپنے آپ کو قتل کرلیا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرماا: ’’ایک شخص زندگی بھر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے، حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر دوزخ کے سے کام کرتا ہے، حالانکہ وہ اہل جنت سے ہوتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ وہ شخص بظاہر میدان جہاد می بڑا مجاہد معلوم ہورہا تھا اور بڑی بے جگری سے لڑرہا تھا مگر اس کی قسمت میں جہنم لکھی ہوئی تھی جس کے متعلق رسول اللہ ﷺنے بذریعہ وحی خبر دے دی تھی۔ آخر وہی کچھ ہوا۔ وہ خود کشی سے حرام موت مرا اور دوزخ میں داخل ہوا۔ اس بنا پر میدان جنگ میں مرنے والا شہید نہیں ہوتا اورنہ اسے شہید کہنا چاہئے۔ممکن ہے کہ وہ شخص منافق یا ریاکار ہو، البتہ شریعت کے ظاہری احکام کے مطابق اسے شہداء کا حکم دیاجائےگا۔ 2۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاتمے کا اعتبار ہے اور اللہ تعالیٰ بعض اوقات کافر و منافق سے اپنے دین کی مدد لے لیتا ہے۔ 3۔ شَاذََّه اس شخص کو کہتے جو لوگوں میں رہنے سہنے کے بعد ان سے الگ ہوجائے۔ فَاذَّه وہ ہے جو لوگوں سے بالکل میل جول نہ رکھے بلکہ شروع ہی سے ان سے الگ تھلگ رہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوہریرہ ؓنے نبی کریم ﷺ کے حوالے سے فرمایا: "اللہ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتاہےکہ کون اس کے راستے میں زخمی ہوتا ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی (اپنے اصحاب کے ہمراہ احد یا خیبر کی لڑائی میں) مشرکین سے مڈبھیڑ ہوئی اور جنگ چھڑ گئی، پھر جب آپ ﷺ (اس دن لڑائی سے فارغ ہو کر) اپنے پڑاو کی طرف واپس ہوئے اور مشرکین اپنے پڑاو کی طرف تو آپ ﷺ کی فوج کے ساتھ ایک شخص تھا، لڑائی لڑنے میں ان کا یہ حال تھا کہ مشرکین کا کوئی آدمی بھی اگر کسی طرف نظر پڑجاتا تو اس کا پیچھا کر کے وہ شخص اپنی تلوار سے اسے قتل کردیتا۔ سہل ؓ نے اس کے متعلق کہا کہ آج جتنی سرگرمی کے ساتھ فلاں شخص لڑا ہے، ہم میں سے کوئی بھی شخص اس طرح نہ لڑسکا۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ لیکن وہ شخص دوزخی ہے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے (اپنے دل میں) کہا اچھا میں اس کا پیچھا کروں گا (دیکھوں) حضور ﷺ نے اسے کیوں دوزخی فرمایا ہے۔ بیان کیا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے دن لڑائی میں موجود رہا ، جب کبھی وہ کھڑا ہوجاتا تو یہ بھی کھڑا ہوجاتا اور جب وہ تیز چلتا تو یہ بھی اس کے ساتھ تیز چلتا۔ بیان کیا کہ آخر وہ شخص زخمی ہو گیا زخم بڑا گہرا تھا۔ اس لیے اس نے چاہا کہ موت جلدی آ جائے اور اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو سینے کے مقابلہ میں کر لیا اور تلوار پر گر کر اپنی جان دے دی۔ اب وہ صاحب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟ انہوں نے بیان کیا کہ وہی شخص جس کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے، صحابہ کرام ؓ پر یہ آپ کا فرمان بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم سب لوگوں کی طرف سے میں اس کے متعلق تحقیق کرتا ہوں۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے ہو لیا۔ اس کے بعد وہ شخص سخت زخمی ہوا اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے۔ اس لیے اس نے اپنی تلوار کا پھل زمین پر رکھ کر اس کی دھار کو اپنے سینے کے مقابل کرلیا اور اس پر گر کر خود جان دے دی۔ اس وقت آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک آدمی زندگی بھر بظاہر اہل جنت کے سے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے اور ایک آدمی بظاہر اہل دوزخ کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ ظاہر میں وہ شخص میدان جہاد میں بہت بڑا مجاہد معلوم ہو رہا تھا مگر قسمت میں دوزخ لکھی ہوئی تھی‘ جس کے لئے نبی کریمﷺ نے وحی اور الہام کے ذریعہ معلوم کرکے فرما دیا تھا۔ آخر وہی ہوا کہ خودکشی کرکے حرام موت کا شکار ہوا اور دوزخ میں داخل ہوا۔ انجام کا فکر ہر وقت ضروری ہے۔ اللہ پاک راقم الحروف اور جملہ قارئین کرام کو خاتمہ بالخیر نصیب فرمائے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad As-Sa'idi (RA): Allah's Apostle (ﷺ) and the pagans faced each other and started fighting. When Allah's Apostle (ﷺ) returned to his camp and when the pagans returned to their camp, somebody talked about a man amongst the companions of Allah's Apostle (ﷺ) who would follow and kill with his sword any pagan going alone. He said, "Nobody did his job (i.e. fighting) so properly today as that man." Allah's Apostle (ﷺ) said, "Indeed, he is amongst the people of the (Hell) Fire." A man amongst the people said, "I shall accompany him (to watch what he does)" Thus he accompanied him, and wherever he stood, he would stand with him, and wherever he ran, he would run with him. Then the (brave) man got wounded seriously and he decided to bring about his death quickly. He planted the blade of the sword in the ground directing its sharp end towards his chest between his two breasts. Then he leaned on the sword and killed himself. The other man came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "I testify that you are Allah's Apostle." The Prophet (ﷺ) asked, "What has happened?" He replied, "(It is about) the man whom you had described as one of the people of the (Hell) Fire. The people were greatly surprised at what you said, and I said, 'I will find out his reality for you.' So, I came out seeking him. He got severely wounded, and hastened to die by slanting the blade of his sword in the ground directing its sharp end towards his chest between his two breasts. Then he eased on his sword and killed himself." when Allah's Apostle (ﷺ) said, "A man may seem to the people as if he were practising the deeds of the people of Paradise while in fact he is from the people of the Hell) Fire, another may seem to the people as if he were practicing the deeds of the people of Hell (Fire), while in fact he is from the people of Paradise."