Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: What is said regarding spears)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن عمرؓ سے بیان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا میری روزی میرے نیزے کے سائے کے نیچے مقدر کی گئی ہے اور جو میری شریعت کی مخالفت کرے اس کے لیے ذلت اور خواری کو مقدر کیا گیا ہے ۔
2914.
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے یہاں تک کہ مکہ جانے والے ایک راستے میں اپنے محرم ساتھیوں سمیت آپ سے پیچھے رہ گئے جبکہ انھوں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ اس دوران میں انھوں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اسے کوڑا پکڑادیں۔ انھوں نے انکار کردیا۔ پھر انہوں نے اپنا نیزہ مانگا تو انھوں نے اس سے بھی انکار کردیا، تاہم انھوں نے خود نیزہ پکڑا اور گاؤخر پر حملہ کرکے اسے مار دیا۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ نے کھالیا اور کچھ نے انکار کردیا۔ جب وہ رسول اللہ ﷺ سے ملے تو انھوں نے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تورزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں دیا تھا۔‘‘ زید بن اسلم سے روایت ہے، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے ابوقتادہ سے گاوخر کے متعلق ابو نضر کی حدیث کی طرح بیان کیا، البتہ اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ (بچا ہوا) ہے؟‘‘
تشریح:
1۔احرام والا آدمی خود شکار نہیں کر سکتا اور نہ کسی شکاری آدمی کا تعاون ہی کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو قتادہ ؓنے اپنے ساتھیوں سے اپنا نیزہ پکڑنا چاہا، لیکن انھوں نے انکار کردیا کیونکہ ایسا کرنے سے احرام والے کا تعاون شامل ہو جاتا ہےجبکہ محرم شکار کی طرف اشارہ بھی نہیں کر سکتا۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوقتادہ ؓ نیزے سے مسلح تھے۔ امام بخاری ؓ نے اس سے نیزے کے استعمال کا جواز ثابت کیا ہے لیکن اس حدیث سے نیزے کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی بلکہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایت میں اس کی فضیلت مذکورہ ہے واللہ أعلم۔
اس روایت کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔"میں قیامت سے پہلے تلوار کے ساتھ معبوث ہوا ہوں ۔ میرا رزق نیزے کے سائے تلے رکھا گیا ہے۔ذلت اور خواری اس شخص کے لیے ہے جس نے میری مخالفت کی نیز جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انھی میں سے ہو گا۔"(مسند احمد2/50)اس حدیث سے نیز ے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔"(فتح الباری:6/120)
اور ابن عمرؓ سے بیان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا میری روزی میرے نیزے کے سائے کے نیچے مقدر کی گئی ہے اور جو میری شریعت کی مخالفت کرے اس کے لیے ذلت اور خواری کو مقدر کیا گیا ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو قتادہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے یہاں تک کہ مکہ جانے والے ایک راستے میں اپنے محرم ساتھیوں سمیت آپ سے پیچھے رہ گئے جبکہ انھوں نے احرام نہیں باندھا تھا۔ اس دوران میں انھوں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اسے کوڑا پکڑادیں۔ انھوں نے انکار کردیا۔ پھر انہوں نے اپنا نیزہ مانگا تو انھوں نے اس سے بھی انکار کردیا، تاہم انھوں نے خود نیزہ پکڑا اور گاؤخر پر حملہ کرکے اسے مار دیا۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ نے کھالیا اور کچھ نے انکار کردیا۔ جب وہ رسول اللہ ﷺ سے ملے تو انھوں نے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تورزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں دیا تھا۔‘‘ زید بن اسلم سے روایت ہے، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے ابوقتادہ سے گاوخر کے متعلق ابو نضر کی حدیث کی طرح بیان کیا، البتہ اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ (بچا ہوا) ہے؟‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔احرام والا آدمی خود شکار نہیں کر سکتا اور نہ کسی شکاری آدمی کا تعاون ہی کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو قتادہ ؓنے اپنے ساتھیوں سے اپنا نیزہ پکڑنا چاہا، لیکن انھوں نے انکار کردیا کیونکہ ایسا کرنے سے احرام والے کا تعاون شامل ہو جاتا ہےجبکہ محرم شکار کی طرف اشارہ بھی نہیں کر سکتا۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوقتادہ ؓ نیزے سے مسلح تھے۔ امام بخاری ؓ نے اس سے نیزے کے استعمال کا جواز ثابت کیا ہے لیکن اس حدیث سے نیزے کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی بلکہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایت میں اس کی فضیلت مذکورہ ہے واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓسے بیان کیاجاتا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: "میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھاگیا ہے، نیز ذلت اوررسوائی اس شخص کے لیے ہے جو میرے حکم کی مخالفت کرے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبردی، انہیں عمر بن عبیداللہ کے مولیٰ ابوالنضر نے اور انہیں ابوقتادہ انصاری کے مولیٰ نافع نے اور انہیں ابوقتادہ ؓ نے کہ آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے (صلح حدیبیہ کے موقع پر) مکہ کے راستے میں آپ ﷺ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے، لشکر سے پیچھے رہ گئے۔ خود قتادہ ؓ نے ابھی احرام نہیں باندھا تھا۔ پھر انہوں نے ایک گورخر دیکھا اور اپنے گھوڑے پر (شکار کرنے کی نیت سے) سوار ہو گئے، اس کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں سے (جو احرام باندھے ہوئے تھے) کہا کہ کوڑا اٹھا دیں انہوں نے اس سے انکار کیا، پھر انہوں نے اپنا نیزہ مانگا اس کے دینے سے انہوں نے انکار کیا، آخر انہوں نے خود اسے اٹھایا اور گورخر پر جھپٹ پڑے اور اسے مارلیا۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے بعض نے تو اس گورخر کا گوشت کھایا اور بعض نے اس کے کھانے سے (احرام کے عذر کی بنا پر) انکار کیا۔ پھر جب یہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو اس کے متعلق مسئلہ پوچھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو ایک کھانے کی چیز تھی جو اللہ نے تمہیں عطا کی۔ اور زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوقتادہ ؓ نے گورخر کے (شکار سے) متعلق ابوالنضر ہی کی حدیث کی طرح (البتہ اس روایت میں یہ زائد ہے) نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اس کا کچھ بچا ہوا گوشت ابھی تمہارے پا س موجود ہے؟
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حضرت ابو قتادہ ؓ کا نیزوں سے مسلح ہونا مذکور ہے‘ اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت کا مقصد یہ کہ مسلمان کے لئے یہ امر باعث فخر ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کا سپاہی ہے ہر حال میں سپاہیانہ زندگی گزارنا یہی اس کا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔ صد افسوس کہ عام اہل اسلام بلکہ خواص تک ان حقائق اسلام سے حد درجہ غافل ہوگئے ہیں۔ علمائے ظواہر صرف فروعی مسائل میں الجھ کر رہ گئے اور حقائق اسلام نظروں سے بالکل اوجھل ہوگئے جس کی سزا سارے مسلمان عام طور پر غلامانہ زندگی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ إلا من شاء اللہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qatada (RA): That he was in the company of Allah's Apostle (ﷺ) and when they had covered a portion of the road to Makkah, he and some of the companions lagged behind. The latter were in a state of Ihram, while he was not. He saw an onager and rode his horse and requested his companions to give him his lash but they refused. Then he asked them to give him his spear but they refused, so he took it himself, attacked the onager, and killed it. Some of the companions of the Prophet (ﷺ) ate of it while some others refused to eat. When they caught up with Allah's Apostle (ﷺ) they asked him about that, and he said, "That was a meal Allah fed you with." (It is also said that Allah's Apostle (ﷺ) asked, "Have you got something of its meat?")