Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The armour of the Prophet saws)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اسی طرح کرتہ ( لوہے ) کا اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ ” خالد بن ولید نے تو اپنی زرہیں اللہ کے راستے میں وقف کر رکھی ہیں “ ۔ ( پھر اس سے زکاۃ کا مانگنا بیجا ہے )
2915.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اپنے خیمے میں اللہ کے حضور یہ عرض کررہے تھے ’’اے اللہ!میں تجھے تیرے عہد اور وعدے کا واسطہ دیتا ہوں (کہ مسلمانوں کو فتح عطا فرما)۔ اے اللہ!اگر تیری یہی مرضی ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ ہو۔‘‘ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓنے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! بس یہ آپ کے لیے کافی ہے، آپ نے اپنے رب سے بہت الحاح اور زاری سے دعا کی ہے۔ آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے اور یہ پڑھتے ہوئے باہرنکلے: ’’عنقریب کفار کی جماعت شکست سے دو چار ہوجائےگی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور تلخ تر چیز ہے۔‘‘ (راوی حدیث) خالد نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ معلوم تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس لیے عرض کیا کہ ان جاں نثاروں کی ہلاکت کے بعد قیامت تک اس زمین پر شرک ہی شرک رہے گا۔ معبود حقیقی کو کوئی ماننے والا نہیں ہو گا۔ 2۔امام بخاری ؒ اس س حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زرہ تھی جسے آپ نے غزوہ بدر کے موقع پر پہنا لہٰذا میدان جنگ میں زرہ پہننا جائز ہے اور ایسا کرنا تو کل کے منافی نہیں۔ 3۔ زرہ لوہے کی اس قمیص کو کہتے ہیں جس کے پہننے سے میدان جنگ میں سارا جسم چھپ جاتا ہے پھر جسم پر نیزے یا برچھے یا تیر کا اثر نہیں ہوتا۔ قدیم زمانے میں دوران جنگ میں زرہ پہننے کا رواج تھا آج کل زرہ کا استعمال ختم ہو چکا ہے۔
اسی طرح کرتہ ( لوہے ) کا اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ ” خالد بن ولید نے تو اپنی زرہیں اللہ کے راستے میں وقف کر رکھی ہیں “ ۔ ( پھر اس سے زکاۃ کا مانگنا بیجا ہے )
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اپنے خیمے میں اللہ کے حضور یہ عرض کررہے تھے ’’اے اللہ!میں تجھے تیرے عہد اور وعدے کا واسطہ دیتا ہوں (کہ مسلمانوں کو فتح عطا فرما)۔ اے اللہ!اگر تیری یہی مرضی ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ ہو۔‘‘ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓنے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! بس یہ آپ کے لیے کافی ہے، آپ نے اپنے رب سے بہت الحاح اور زاری سے دعا کی ہے۔ آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے اور یہ پڑھتے ہوئے باہرنکلے: ’’عنقریب کفار کی جماعت شکست سے دو چار ہوجائےگی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور تلخ تر چیز ہے۔‘‘ (راوی حدیث) خالد نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ معلوم تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس لیے عرض کیا کہ ان جاں نثاروں کی ہلاکت کے بعد قیامت تک اس زمین پر شرک ہی شرک رہے گا۔ معبود حقیقی کو کوئی ماننے والا نہیں ہو گا۔ 2۔امام بخاری ؒ اس س حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زرہ تھی جسے آپ نے غزوہ بدر کے موقع پر پہنا لہٰذا میدان جنگ میں زرہ پہننا جائز ہے اور ایسا کرنا تو کل کے منافی نہیں۔ 3۔ زرہ لوہے کی اس قمیص کو کہتے ہیں جس کے پہننے سے میدان جنگ میں سارا جسم چھپ جاتا ہے پھر جسم پر نیزے یا برچھے یا تیر کا اثر نہیں ہوتا۔ قدیم زمانے میں دوران جنگ میں زرہ پہننے کا رواج تھا آج کل زرہ کا استعمال ختم ہو چکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
نبی کریم ﷺنے فرمایا: "خالد ؓنے تو اپنی زرہیں بھی اللہ کے لیے وقف کررکھی ہیں۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ (بدر کے دن) دعا فر ما رہے تھے، اس وقت آپ ﷺ ایک خیمہ میں تشریف فر تھے، کہ اے اللہ ! میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دے کر فریاد کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا بس کیجئے اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے اپنے رب کے حضور میں دعا کی حد کردی ہے۔ آنحضرت اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی (ترجمہ) ’’جماعت ( مشرکین ) جلد ہی شکست کھا کر بھاگ جائی گی اور پیٹھ دکھانا اختیار کرے گی اور قیامت کے دن کا ان سے وعدہ ہے اور قیامت کا دن بڑا ہی بھیانک اور تلخ ہو گا۔‘‘ اور وہیب نے بیان کیا، ان سے خالد نے بیان کیا کہ بدر کے دن کا (یہ واقعہ ہے)
حدیث حاشیہ:
: یعنی اے اللہ! آج تو اپنا وعدہ اپنے فضل و کرم سے پورا کردے۔ وعدہ یہ تھا کہ یا تو قافلہ آئے گا یا کافروں پر فتح ہوگی۔ آنحضرت ﷺ کو اللہ کے وعدہ پر کامل بھروسہ تھا۔ مگر مسلمانوں کی بے سرو سامانی اور قلت اور کافروں کی کثرت کو دیکھ کر بہ مقتضائے بشریت آپ نے فرمایا لم نعبد بعد الیوم کا مطلب یہ کہ دنیا میں آج تیرے خالص پوجنے والے یہی تین سو تیرہ آدمی ہیں‘ اگر تو ان کو بھی ہلاک کردے گا تو تیری مرضی۔ چونکہ میرے بعد پھر کوئی پیغمبر آنے والا نہیں تو قیامت تک شرک ہی شرک رہے گا اور تجھے کوئی نہ پوجے گا۔ اللہ نے اپنے پیارے نبی کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور بدر میں کافروں کو وہ شکست دی کہ آئندہ کے لئے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور اہل اسلام کی ترقی کے راستے کھل گئے۔ حدیث ہذا سے میدان جنگ میں زرہ پہننا ثابت ہوا۔ آج کل مشینی دور ہے لہٰذا میدان جنگ کے بھی قدیم اطوار بدل گئے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) , while in a tent (on the day of the battle of Badr) said, "O Allah! I ask you the fulfillment of Your Covenant and Promise. O Allah! If You wish (to destroy the believers) You will never be worshipped after today." Abu Bakr (RA) caught him by the hand and said, "This is sufficient, O Allah's Apostle (ﷺ) ! You have asked Allah pressingly." The Prophet (ﷺ) was clad in his armor at that time. He went out, saying to me: "There multitude will be put to flight and they will show their backs. Nay, but the Hour is their appointed time (for their full recompense) and that Hour will be more grievous and more bitter (than their worldly failure)." (54.45-46) Khalid said that was on the day of the battle of Badr.