باب: اس چیز کا دھونا جو عورت کی شرمگاہ سے لگ جائے ضروری ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Washing away what comes out from the private parts of a woman (woman's discharge) if one gets soiled with that)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
292.
حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عثمان ؓ سے دریافت کیا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ہمبستری کرے مگر انزال نہ ہو تو اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: وہ وضو کرے جیسا کہ نماز کے لیے وضو کرتا ہے اور اپنے عضو مخصوص کو دھو لے۔ حضرت عثمان ؓ نے یہ بھی کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے۔ حضرت زید کہتے ہیں: میں نے پھر اس کے متعلق حضرت علی بن ابی طالب، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبیداللہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی یہی فیصلہ دیا۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا: مجھے ابوسلمہ نے خبر دی، انھیں عروہ بن زبیر نے بتایا، انھیں ابوایوب انصاری نے خبر دی، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ دوران مجامعت میں جو رطوبت عورت کی شرمگاہ سے بر آمد ہوتی ہے وہ ناپاک ہے۔ اس کا دھونا ضروری ہے، خواہ وہ عضو مستور پر لگے یا کپڑے پر اس کا دھبہ آئے، چنانچہ حديث میں ہے کہ وہ اپنے عضو مستور کو دھوئےاور دوسری حدیث میں ہے کہ وہ اس مقام کو دھوئے جس سے عورت کو مس کیا تھا۔ اسے دھونے کی بنیاد یہی ہے کہ اسے عورت کی رطوبت لگی ہے۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے پہلے بھی اس نوعیت کا عنوان قائم کیا تھا’’منی کا دھونا اور اس کا کھرچ ڈالنا نیز عورت کی شرمگاہ سے برآمد ہونے والی مذی کو دھونا۔‘‘ یہ تکرار نہیں بلکہ وہاں کتاب الوضوء میں عورت کے مادہ منویہ کے متعلق حکم بیان کرنا مقصود تھا کہ وہ مرد کے مادہ منویہ کی طرح نجس اور پلید ہے، جس کا دھونا ضروری ہےاور اس مقام پر اس رطوبت کا حکم بیان کرنا مقصود ہے، جو مداعبت و ملاعبت یا مجامعت کے دوران میں عورت کی شرمگاہ سے بر آمد ہو۔ یہ بھی نجس ہے، خواہ داخل فرج سے آئے یا خارج فرج میں جمع ہو۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے دونوں احادیث بیان کرنے کے بعد اپنی طرف سے ایک نوٹ دیا ہے کہ غسل کرنے میں ہی احتیاط ہے۔ ان الفاظ پر صحیح بخاری نے شارحین نے خوب طبع آزمائی کی ہے۔ چنانچہ ابن العربی نے امام بخاری ؒ کے متعلق اپنی قطعی رائے کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے کہ ان کا موقف داؤد ظاہری جیسا ہے، یعنی دوران مجامعت میں اگر انزال نہ ہو تو صرف وضو کرنا ضروری ہے، غسل کرنا ضروری نہیں، البتہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ غسل کر لے۔ داؤد ظاہری کی تو اتنی اہمیت نہیں۔ البتہ امام بخاری ؒ کا معاملہ بہت حیران کن ہے کہ انھوں نے اجماع کے خلاف موقف اختیار کیا ہے، کیونکہ آپ آئمہ دین اور علمائے مسلمین سے ہیں، پھر ابن العربی نے حدیث الباب کو ضعیف قراردینے پر زور دیا ہے، اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ کا تبصرہ درج ذیل ہے: ’’حدیث الباب کی تصنیف کے متعلق ابن العربی کا کلام قابل قبول ہے۔‘‘ پھر ابن العربی امام بخاری ؒ کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ممکن ہے امام بخاری کی (الغسل أحوط) سے مراد احتیاط فی الدین ہے جو اصول کا مشہور باب ہے، یہی بات ان کے فضل و کمال کے مناسب ہے۔ ابن العربی کی یہ توجیہ امام بخاری کی عادت تصرف سے بھی مناسبت رکھتی ہے، کیونکہ انھوں نے ان احادیث پر ترک غسل کے جواز کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا۔ نیز ابن العربی نے مسئلہ زیر بحث کے متعلق جو اختلاف کی نفی کی ہے وہ بھی قابل اعتراض ہے، کیونکہ اختلاف تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں بھی شہرت پا چکا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت سے یہی ثابت ہے کہ ایسے حالات میں غسل واجب نہیں۔ اسی طرح ابن قصار کا یہ دعوی بھی غلط ہے کہ تابعین کے دور میں اختلاف نہیں تھا۔ تابعین میں اس کے متعلق اختلاف تھا، تابعین کے بعد بھی اس موقف سے اختلاف کرنے والوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ البتہ جمہور علماء کا موقف ہے کہ ایسے حالات میں غسل واجب ہے اور یہی درست بات ہے۔ (فتح الباري:1/ 517) محقق عینی نے بھی ابن حجر کی طرح ابن قصار کے دعوی پر نقد کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ تابعین میں اس کے متعلق اختلاف ضرور تھا، اگرچہ قاضی عیاض نے کہا ہے کہ صحابہ کے بعد اعمش تابعی کے علاوہ کسی نے بھی اس مسئلے سے اختلاف نہیں کیا، لیکن ان کے علاوہ بھی ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن ؓ سے غسل نہ کرنا ثابت ہے اور ہشام بن عروہ اور عطاء بھی وجوب غسل کے قائل نہ تھے، اگرچہ حضرت عطا کہا کرتے تھے کہ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے میرا دل بھی غسل کے بغیر مطمئن نہیں ہوتا اور میں عروه وثقی کے تمسک کو ہی عملاً اختیار کرتا ہوں۔ (عمده القاري:93/3) 3۔ علامہ ابن رشد نے اس سلسلے میں اختلاف اور وجہ اختلاف کو بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’اکثر فقہائے امصار اور اہل ظاہر کی ایک جماعت التقائے ختانین سے وجوب غسل کی قائل ہے، جبکہ اہل ظاہر سے کچھ حضرات صرف انزال پر غسل کو واجب کہتے ہیں۔ سبب اختلاف تعارض احادیث صحیحہ ہیں۔ ایک طرف التقائے ختانین سے غسل واجب قراردیے جانے کی حدیث ابی ہریرہ ؓ ہے اور دوسری طرف حدیث عثمان ؓ ہے جس میں غسل کا مدار صرف انزال کو قراردیا گیا ہے۔ اکثریت نے اس دوسری حدیث کو منسوخ قراردیا ہے اور دوسروں نے اس تعارض کے پیش نظر متفق علیہ صورت انزال کو معمول بہ بنالیا ہے۔ منسوخ کہنے والوں نے ابو داود ؒ کی حدیث ابی بن کعب کو بطور دلیل پیش کیاہے کہ حکم عدم غسل آغاز اسلام میں تھا، نیز انھوں نے حدیث ابی ہریرہ ؓ کو قیاس کے لحاظ سے بھی ترجیح دی ہے کہ مجاوزت ختانین سے بالاجماع حد نافذ ہوتی ہے، لہٰذا غسل کا وجوب بھی اسی سے ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ جمہور نے فیصلہ وجوب غسل کو حدیث عائشہ ؓ کی وجہ سے بھی ترجیح دی ہے، جسے مسلم نے روایت کیا ہے، جس میں اگرچہ انزال نہ ہو کے الفاظ ہیں۔‘‘(بدایة المجتهد:95/1۔ 97) اس کے متعلق حضرت عمر ؓ کا فیصلہ اتھارٹی (حرف آخر) کی حیثیت رکھتا ہے، جسے امام طحاوی ؒ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو جمع کر کے اس مسئلے کے متعلق ان کی آراء حاصل کیں۔ کسی نے (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ) والی حدیث پیش کر کے عدم وجوب غسل کی نشاندہی کی، جبکہ دوسروں نے التقائےختانین والی حدیث پیش کر کے وجوب غسل کی رائے کا اظہار کیا۔ حضرت علی ؓ نے کہا کہ اس سلسلے میں ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین سے معلومات لی جائیں کیونکہ وہ اسے زیادہ جانتی ہیں، حضرت عمر ؓ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ ؓ کے پاس آدمی بھیج کر مسئلہ معلوم کرایا تو انھوں نے کہا کہ مجھے اس کے متعلق علم نہیں، پھر حضرت عائشہ ؓ کے پاس آدمی بھیجا تو انھوں نے وہ حدیث پیش کی جس میں ہے کہ جب مرد کے ختنے عورت کے ختنوں سے تجاوز کر جائیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فیصلہ دیا کہ آئندہ اگر کسی نے (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ) کے حوالے سے عدم وجوب غسل کا فتوی دیا تو میں اسے عبرتناک سزادوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے یہ فیصلہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں دیا اور اس پر کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔ (شرح معاني الآثار للطحاوي:36/1) اس فیصلے کے باوجود حضرت عثمان ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ) کو اختیار کرتے تھے، ان کے اختیار کو حضرت عمر ؓ کے فیصلے سے پہلے ہونے پر محمول کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ان کی طرف اس کی نسبت کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی ؒ نے حضرت عثمان ؓ کو ان لوگوں میں ذکر کیا ہے جو التقاء ختانین سے غسل کو واجب کہتے ہیں، ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ مجاوزت ختان سے غسل واجب ہو جاتا ہے، جیسا کہ انھوں نے سابق عنوان میں اسے بیان فرمایا ہے۔ امام بخاری ؒ کا کسی مسئلے میں رجحان پیش کردہ احادیث سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے حدیث ابی ہریرہ ؓ پیش کر کے اپنا رجحان واضح کر دیا ہے۔ اس حدیث کے آخر میں (الغسل أحوط) اس لیے کہا کہ جب جواز اور وجوب میں اختلاف ہو تو احتیاط کا تقاضا ہے کہ وجوب پر عمل کیا جائے۔ نیز احوط کو استحباب پر منحصر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا اطلاق وجوب پر بھی ہوتا ہے۔ احتیاط پر عمل کرنا کس مقام پر مستحب ہوتا ہے اور کس جگہ پر واجب ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادات کے باب میں احتیاط پر عمل واجب ہوتا ہے۔ غسل کا معاملہ بھی عبادات سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے احتیاط پر عمل کرنے کا مفہوم یہ ہوا کہ غسل واجب ہے۔ گویا امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ روایات میں اختلاف ہے اور اس اختلاف کی بنیاد پر کسی کو اشکال پیدا ہو سکتا ہے، مگر اب حضرت عمر ؓ کے تحقیقی فیصلے کے بعد اس کی گنجائش نہیں، ان کے فیصلے نے یہ بات طے کردی ہے کہ غسل کرنا صرف التقائے ختانین سے واجب ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ وجوب عبادات میں عمل پر احتیاط کی بنیاد پر ہے، لہٰذا امام بخاری کو یہ الزام دینا کسی طرح بھی صحیح نہیں کہ آپ نے جمہور اہل علم سے اختلاف کر کے صرف انزال کو غسل کا مدار ٹھہرایا ہے اور التقائےختانین کے وقت صرف احتیاطاًغسل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ خیال کسی انسان کا ذاتی تو ہو سکتا ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ کسی مقام پر ایسا نہیں کہا۔ امام بخاری ؒ کی عادت مستمرہ ہے کہ کتاب کے اختتام پر آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ یہاں بھی انھوں نے (ذاك الأخير) کا لفظ استعمال کیا ہے، اس سے موت کی طرف اشارہ ہے، اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ اس لفظ سے اختتام کتاب کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
293
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
292
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
292
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
292
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عثمان ؓ سے دریافت کیا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ہمبستری کرے مگر انزال نہ ہو تو اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: وہ وضو کرے جیسا کہ نماز کے لیے وضو کرتا ہے اور اپنے عضو مخصوص کو دھو لے۔ حضرت عثمان ؓ نے یہ بھی کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے۔ حضرت زید کہتے ہیں: میں نے پھر اس کے متعلق حضرت علی بن ابی طالب، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبیداللہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی یہی فیصلہ دیا۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا: مجھے ابوسلمہ نے خبر دی، انھیں عروہ بن زبیر نے بتایا، انھیں ابوایوب انصاری نے خبر دی، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ دوران مجامعت میں جو رطوبت عورت کی شرمگاہ سے بر آمد ہوتی ہے وہ ناپاک ہے۔ اس کا دھونا ضروری ہے، خواہ وہ عضو مستور پر لگے یا کپڑے پر اس کا دھبہ آئے، چنانچہ حديث میں ہے کہ وہ اپنے عضو مستور کو دھوئےاور دوسری حدیث میں ہے کہ وہ اس مقام کو دھوئے جس سے عورت کو مس کیا تھا۔ اسے دھونے کی بنیاد یہی ہے کہ اسے عورت کی رطوبت لگی ہے۔ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے پہلے بھی اس نوعیت کا عنوان قائم کیا تھا’’منی کا دھونا اور اس کا کھرچ ڈالنا نیز عورت کی شرمگاہ سے برآمد ہونے والی مذی کو دھونا۔‘‘ یہ تکرار نہیں بلکہ وہاں کتاب الوضوء میں عورت کے مادہ منویہ کے متعلق حکم بیان کرنا مقصود تھا کہ وہ مرد کے مادہ منویہ کی طرح نجس اور پلید ہے، جس کا دھونا ضروری ہےاور اس مقام پر اس رطوبت کا حکم بیان کرنا مقصود ہے، جو مداعبت و ملاعبت یا مجامعت کے دوران میں عورت کی شرمگاہ سے بر آمد ہو۔ یہ بھی نجس ہے، خواہ داخل فرج سے آئے یا خارج فرج میں جمع ہو۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے دونوں احادیث بیان کرنے کے بعد اپنی طرف سے ایک نوٹ دیا ہے کہ غسل کرنے میں ہی احتیاط ہے۔ ان الفاظ پر صحیح بخاری نے شارحین نے خوب طبع آزمائی کی ہے۔ چنانچہ ابن العربی نے امام بخاری ؒ کے متعلق اپنی قطعی رائے کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے کہ ان کا موقف داؤد ظاہری جیسا ہے، یعنی دوران مجامعت میں اگر انزال نہ ہو تو صرف وضو کرنا ضروری ہے، غسل کرنا ضروری نہیں، البتہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ غسل کر لے۔ داؤد ظاہری کی تو اتنی اہمیت نہیں۔ البتہ امام بخاری ؒ کا معاملہ بہت حیران کن ہے کہ انھوں نے اجماع کے خلاف موقف اختیار کیا ہے، کیونکہ آپ آئمہ دین اور علمائے مسلمین سے ہیں، پھر ابن العربی نے حدیث الباب کو ضعیف قراردینے پر زور دیا ہے، اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ کا تبصرہ درج ذیل ہے: ’’حدیث الباب کی تصنیف کے متعلق ابن العربی کا کلام قابل قبول ہے۔‘‘ پھر ابن العربی امام بخاری ؒ کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ممکن ہے امام بخاری کی (الغسل أحوط) سے مراد احتیاط فی الدین ہے جو اصول کا مشہور باب ہے، یہی بات ان کے فضل و کمال کے مناسب ہے۔ ابن العربی کی یہ توجیہ امام بخاری کی عادت تصرف سے بھی مناسبت رکھتی ہے، کیونکہ انھوں نے ان احادیث پر ترک غسل کے جواز کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا۔ نیز ابن العربی نے مسئلہ زیر بحث کے متعلق جو اختلاف کی نفی کی ہے وہ بھی قابل اعتراض ہے، کیونکہ اختلاف تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں بھی شہرت پا چکا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت سے یہی ثابت ہے کہ ایسے حالات میں غسل واجب نہیں۔ اسی طرح ابن قصار کا یہ دعوی بھی غلط ہے کہ تابعین کے دور میں اختلاف نہیں تھا۔ تابعین میں اس کے متعلق اختلاف تھا، تابعین کے بعد بھی اس موقف سے اختلاف کرنے والوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ البتہ جمہور علماء کا موقف ہے کہ ایسے حالات میں غسل واجب ہے اور یہی درست بات ہے۔ (فتح الباري:1/ 517) محقق عینی نے بھی ابن حجر کی طرح ابن قصار کے دعوی پر نقد کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ تابعین میں اس کے متعلق اختلاف ضرور تھا، اگرچہ قاضی عیاض نے کہا ہے کہ صحابہ کے بعد اعمش تابعی کے علاوہ کسی نے بھی اس مسئلے سے اختلاف نہیں کیا، لیکن ان کے علاوہ بھی ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن ؓ سے غسل نہ کرنا ثابت ہے اور ہشام بن عروہ اور عطاء بھی وجوب غسل کے قائل نہ تھے، اگرچہ حضرت عطا کہا کرتے تھے کہ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے میرا دل بھی غسل کے بغیر مطمئن نہیں ہوتا اور میں عروه وثقی کے تمسک کو ہی عملاً اختیار کرتا ہوں۔ (عمده القاري:93/3) 3۔ علامہ ابن رشد نے اس سلسلے میں اختلاف اور وجہ اختلاف کو بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’اکثر فقہائے امصار اور اہل ظاہر کی ایک جماعت التقائے ختانین سے وجوب غسل کی قائل ہے، جبکہ اہل ظاہر سے کچھ حضرات صرف انزال پر غسل کو واجب کہتے ہیں۔ سبب اختلاف تعارض احادیث صحیحہ ہیں۔ ایک طرف التقائے ختانین سے غسل واجب قراردیے جانے کی حدیث ابی ہریرہ ؓ ہے اور دوسری طرف حدیث عثمان ؓ ہے جس میں غسل کا مدار صرف انزال کو قراردیا گیا ہے۔ اکثریت نے اس دوسری حدیث کو منسوخ قراردیا ہے اور دوسروں نے اس تعارض کے پیش نظر متفق علیہ صورت انزال کو معمول بہ بنالیا ہے۔ منسوخ کہنے والوں نے ابو داود ؒ کی حدیث ابی بن کعب کو بطور دلیل پیش کیاہے کہ حکم عدم غسل آغاز اسلام میں تھا، نیز انھوں نے حدیث ابی ہریرہ ؓ کو قیاس کے لحاظ سے بھی ترجیح دی ہے کہ مجاوزت ختانین سے بالاجماع حد نافذ ہوتی ہے، لہٰذا غسل کا وجوب بھی اسی سے ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ جمہور نے فیصلہ وجوب غسل کو حدیث عائشہ ؓ کی وجہ سے بھی ترجیح دی ہے، جسے مسلم نے روایت کیا ہے، جس میں اگرچہ انزال نہ ہو کے الفاظ ہیں۔‘‘(بدایة المجتهد:95/1۔ 97) اس کے متعلق حضرت عمر ؓ کا فیصلہ اتھارٹی (حرف آخر) کی حیثیت رکھتا ہے، جسے امام طحاوی ؒ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو جمع کر کے اس مسئلے کے متعلق ان کی آراء حاصل کیں۔ کسی نے (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ) والی حدیث پیش کر کے عدم وجوب غسل کی نشاندہی کی، جبکہ دوسروں نے التقائےختانین والی حدیث پیش کر کے وجوب غسل کی رائے کا اظہار کیا۔ حضرت علی ؓ نے کہا کہ اس سلسلے میں ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین سے معلومات لی جائیں کیونکہ وہ اسے زیادہ جانتی ہیں، حضرت عمر ؓ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ ؓ کے پاس آدمی بھیج کر مسئلہ معلوم کرایا تو انھوں نے کہا کہ مجھے اس کے متعلق علم نہیں، پھر حضرت عائشہ ؓ کے پاس آدمی بھیجا تو انھوں نے وہ حدیث پیش کی جس میں ہے کہ جب مرد کے ختنے عورت کے ختنوں سے تجاوز کر جائیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فیصلہ دیا کہ آئندہ اگر کسی نے (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ) کے حوالے سے عدم وجوب غسل کا فتوی دیا تو میں اسے عبرتناک سزادوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے یہ فیصلہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں دیا اور اس پر کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔ (شرح معاني الآثار للطحاوي:36/1) اس فیصلے کے باوجود حضرت عثمان ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ) کو اختیار کرتے تھے، ان کے اختیار کو حضرت عمر ؓ کے فیصلے سے پہلے ہونے پر محمول کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ان کی طرف اس کی نسبت کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی ؒ نے حضرت عثمان ؓ کو ان لوگوں میں ذکر کیا ہے جو التقاء ختانین سے غسل کو واجب کہتے ہیں، ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ مجاوزت ختان سے غسل واجب ہو جاتا ہے، جیسا کہ انھوں نے سابق عنوان میں اسے بیان فرمایا ہے۔ امام بخاری ؒ کا کسی مسئلے میں رجحان پیش کردہ احادیث سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے حدیث ابی ہریرہ ؓ پیش کر کے اپنا رجحان واضح کر دیا ہے۔ اس حدیث کے آخر میں (الغسل أحوط) اس لیے کہا کہ جب جواز اور وجوب میں اختلاف ہو تو احتیاط کا تقاضا ہے کہ وجوب پر عمل کیا جائے۔ نیز احوط کو استحباب پر منحصر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا اطلاق وجوب پر بھی ہوتا ہے۔ احتیاط پر عمل کرنا کس مقام پر مستحب ہوتا ہے اور کس جگہ پر واجب ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادات کے باب میں احتیاط پر عمل واجب ہوتا ہے۔ غسل کا معاملہ بھی عبادات سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے احتیاط پر عمل کرنے کا مفہوم یہ ہوا کہ غسل واجب ہے۔ گویا امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ روایات میں اختلاف ہے اور اس اختلاف کی بنیاد پر کسی کو اشکال پیدا ہو سکتا ہے، مگر اب حضرت عمر ؓ کے تحقیقی فیصلے کے بعد اس کی گنجائش نہیں، ان کے فیصلے نے یہ بات طے کردی ہے کہ غسل کرنا صرف التقائے ختانین سے واجب ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ وجوب عبادات میں عمل پر احتیاط کی بنیاد پر ہے، لہٰذا امام بخاری کو یہ الزام دینا کسی طرح بھی صحیح نہیں کہ آپ نے جمہور اہل علم سے اختلاف کر کے صرف انزال کو غسل کا مدار ٹھہرایا ہے اور التقائےختانین کے وقت صرف احتیاطاًغسل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ خیال کسی انسان کا ذاتی تو ہو سکتا ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ کسی مقام پر ایسا نہیں کہا۔ امام بخاری ؒ کی عادت مستمرہ ہے کہ کتاب کے اختتام پر آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ یہاں بھی انھوں نے (ذاك الأخير) کا لفظ استعمال کیا ہے، اس سے موت کی طرف اشارہ ہے، اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ اس لفظ سے اختتام کتاب کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو معمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے حسین بن ذکوان معلم کے واسطہ سے، ان کو یحیٰی نے کہا مجھ کو ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی، ان کو عطا بن یسار نے خبر دی، انھیں زید بن خالد جہنی نے بتایا کہ انھوں نے حضرت عثمان بن عفان ؓ سے پوچھا کہ مرد اپنی بیوی سے ہم بستر ہوا لیکن انزال نہیں ہوا تو وہ کیا کرے؟ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا کہ نماز کی طرح وضو کر لے اور ذکر کو دھو لے اور حضرت عثمان ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سنی ہے۔ میں نے اس کے متعلق علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحہ بن عبید اللہ، ابی بن کعب ؓ سے پوچھا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا۔ یحییٰ نے کہا اور ابو سلمہ نے مجھے بتایا کہ انھیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انھیں ابو ایوب ؓ نے کہ یہ بات انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ ابتدائے اسلام میں یہی حکم تھا، بعد میں منسوخ ہوگیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Khalid AjJuhani (RA): I asked 'Uthman bin 'Affan about a man who engaged in the sexual intercourse with his wife but did not discharge. 'Uthman replied, "He should perform ablution like that for the prayer after washing his private parts." 'Uthman added, "I heard that from Allah's Apostle." I asked ' Ali Ibn Abi Talib (RA) , Az-Zubair bin Al-'Awwam, Talha bin 'Ubaidullah (RA) and Ubai bin Ka'b (RA) and gave the same reply. (Abu Aiylub said that he had heard that from Allah's Apostle) (ﷺ) (This order was cancelled later on so one has to take a bath. See, Hadith No. 180).