باب : یہود اور نصاریٰ کو کیوں کر دعوت دی جائے اور کس بات پر ان سے لڑائی کی جائے
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The invitation to Islam is essential before declaring war)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ایران اور روم کے بادشاہوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطوط لکھنا اور لڑائی سے پہلے اسلام کی دعوت دینا ۔
2939.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا (دعوتی) خط شاہ ایران کسریٰ کے پاس بھیجا۔ آپ نے قاصد کو حکم دیا کہ وہ اس خط کو بحرین کے گورنر کو پہنچا دے، پھر بحرین کا گورنر اسے کسریٰ کے دربار میں پہنچا دے گا۔ جب کسریٰ نے مکتوب پڑھا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ (راوی کہتا ہے کہ ) میرے خیال کے مطابق حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: نبی کریم ﷺ نے ان (ایرانیوں) پر بددعا کی کہ وہ خود بھی پارہ پارہ ہوجائیں۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ )
تشریح:
1۔بحرین کے گورنر کے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط لے جانے والے حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی ؓ تھے۔کسریٰ کو خط پہنچانے کا طریقہ یہی تھا کہ پہلے اس کے گورنر دیا جائے،پھر وہ خود شاہ ایران کو پہنچائے جب کسریٰ نے رسول اللہ ﷺ کا خط پھاڑ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق بددعا فرمائی کہ اس نے میرا خط نہیں پھاڑا بلکہ خود کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔ چنانچہ وہ خود اور اس کی حکومت پاش پاش ہو گئی۔ آخر کار اہل فارس نے ایک عورت کو اپنا سر براہ بنایا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو گی جس نے حکومت کے معاملات عورت کے سپرد کر دیے۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں ایران کا آتش کدہ بجھا کر وہاں اسلامی پرچم لہرادیا گیا۔ 2۔رسول اللہ ﷺنے پہلے اہل فارس کو دعوتی خط لکھا پھر ان سے جہاد کیا۔ امام بخاری ؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ پہلے دعوت اسلام دی جائے۔اگر غیر مسلم اسے قبول نہ کریں تو پھر ان سے جہاد و قتال کیا جائے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اب دعوت اسلام پھیل چکی ہے لہٰذا اب قتال ہی ہو گا۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں۔ جس کی رہائش دارالاسلام سے دور ہے اسے تو دعوت دی جائے لیکن قریب رہنے والے کو دعوت کی ضرورت نہیں۔ بہر حال جن لوگوں کو دعوت نہیں پہنچی ان کے ساتھ اس دعوت سے پہلے جنگ وقتال جائز نہیں جب تک انھیں دعوت دے کر اتمام حجت نہ کردی جائے۔ واللہ أعلم۔
اور ایران اور روم کے بادشاہوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطوط لکھنا اور لڑائی سے پہلے اسلام کی دعوت دینا ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا (دعوتی) خط شاہ ایران کسریٰ کے پاس بھیجا۔ آپ نے قاصد کو حکم دیا کہ وہ اس خط کو بحرین کے گورنر کو پہنچا دے، پھر بحرین کا گورنر اسے کسریٰ کے دربار میں پہنچا دے گا۔ جب کسریٰ نے مکتوب پڑھا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ (راوی کہتا ہے کہ ) میرے خیال کے مطابق حضرت سعید بن مسیب نے فرمایا: نبی کریم ﷺ نے ان (ایرانیوں) پر بددعا کی کہ وہ خود بھی پارہ پارہ ہوجائیں۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ )
حدیث حاشیہ:
1۔بحرین کے گورنر کے پاس رسول اللہ ﷺ کا خط لے جانے والے حضرت عبد اللہ بن حذافہ سہمی ؓ تھے۔کسریٰ کو خط پہنچانے کا طریقہ یہی تھا کہ پہلے اس کے گورنر دیا جائے،پھر وہ خود شاہ ایران کو پہنچائے جب کسریٰ نے رسول اللہ ﷺ کا خط پھاڑ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق بددعا فرمائی کہ اس نے میرا خط نہیں پھاڑا بلکہ خود کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے۔ چنانچہ وہ خود اور اس کی حکومت پاش پاش ہو گئی۔ آخر کار اہل فارس نے ایک عورت کو اپنا سر براہ بنایا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:’’وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو گی جس نے حکومت کے معاملات عورت کے سپرد کر دیے۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں ایران کا آتش کدہ بجھا کر وہاں اسلامی پرچم لہرادیا گیا۔ 2۔رسول اللہ ﷺنے پہلے اہل فارس کو دعوتی خط لکھا پھر ان سے جہاد کیا۔ امام بخاری ؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ پہلے دعوت اسلام دی جائے۔اگر غیر مسلم اسے قبول نہ کریں تو پھر ان سے جہاد و قتال کیا جائے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اب دعوت اسلام پھیل چکی ہے لہٰذا اب قتال ہی ہو گا۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں۔ جس کی رہائش دارالاسلام سے دور ہے اسے تو دعوت دی جائے لیکن قریب رہنے والے کو دعوت کی ضرورت نہیں۔ بہر حال جن لوگوں کو دعوت نہیں پہنچی ان کے ساتھ اس دعوت سے پہلے جنگ وقتال جائز نہیں جب تک انھیں دعوت دے کر اتمام حجت نہ کردی جائے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خط کسریٰ کے پاس بھیجا۔ آپ ﷺ نے (ایلچی سے) یہ فرمایا تھا کہ وہ آپ ﷺ کے خط کو بحرین کے گورنر کو دے دیں، بحرین کا گورنر اسے کسریٰ کے دربار میں پہنچا دے گا۔ جب کسریٰ نے مکتوب مبارک پڑھا تو اسے اس نے پھاڑ ڈالا۔ مجھے یاد ہے کہ سعید بن مسیب نے بیان کیا تھا کہ پھر نبی کریم ﷺ نے اس پر بددعا کی تھی کہ وہ بھی پارہ پارہ ہو جائے۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا)۔
حدیث حاشیہ:
تواریخ میں مذکور ہے کہ فرزند کسریٰ جو ایک نوجوان عیاش قسم کا آدمی تھا اور وہ موقع کا انتظار کر رہا تھا کہ اپنے والد کسریٰ کو ختم کرکے جلد سے جلد تخت اور خزانوں کا مالک بن جائے۔ چنانچہ جب کسریٰ نے یہ حرکت کی اس کے بعد جلد ہی ایک رات کو اس کے لڑکے نے کسریٰ کے پیٹ پر چڑھ کر اس کے پیٹ کو چھرا گھونپ دیا اور اسے ختم کردیا۔ بعد میں وہ تخت و تاج کا مالک بنا تو اس نے خزانوں کا جائزہ لیتے ہوئے خزانے میں ایک دوا کی شیشی پائی جس پر قوت باہ کی دوا لکھا ہوا تھا۔ اس نے سوچا کہ والد صاحب اسی دوا کو کھا کھا کر آخر تک داد عیش دیتے رہے مجھ کو بھی دوا کھالینی چاہئے۔ درحقیقت اس شیشی میں سم الفار تھا اس نے اس کو کھایا اور فوراً ہی وہ بھی ختم ہوگیا۔ اس طرح اس کی سلطنت پارہ پارہ ہوگئی اور عہد فاروقی میں سارا ملک اسلامی قلم رو میں شامل ہوگیا اور اللہ کے سچے رسولﷺ کی دعا نے پورا پورا اثر دکھلایاﷺ۔ کرمانی وغیرہ میں ہے کہ اس کے لڑکے کا نام خیرویہ تھا جس نے اپنے باپ پرویز نامی کا پیٹ چاک کیا اور چھ ماہ بعد خود بھی وہ مذکورہ زہر کھا کر ہلاک ہوگیا۔ عہد فاروقی میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکے ہاتھوں یہ ملک فتح ہوا۔ یہاں روایت میں یہی خسرو پرویز مراد ہے جو لقب کسریٰ سے یاد کیا گیا۔ (حاشیہ بخاری شریف‘ جلد : اول، ص:15)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abbas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) sent his letter to Khusrau and ordered his messenger to hand it over to the Governor of Bahrain who was to hand it over to Khusrau. So, when Khusrau read the letter he tore it. Said bin Al-Musaiyab said, "The Prophet (ﷺ) then invoked Allah to disperse them with full dispersion, (destroy them (i.e. Khusrau and his followers) severely)".