Sahi-Bukhari:
Menstrual Periods
(Chapter: How the menses started)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ سب سے پہلے حیض بنی اسرائیل میں آیا۔ ابوعبداللہ امام بخاری کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی حدیث تمام عورتوں کو شامل ہے۔تشریح : یعنی “ آدم کی بیٹیوں ” کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل سے پہلے بھی عورتوں کو حیض آتا تھا۔ اس لیے حیض کی ابتدا کے متعلق یہ کہنا کہ بنی اسرائیل سے اس کی ابتدا ہوئی صحیح نہیں، حضرت امام بخاری قدس سرہ نے جو حدیث یہاں بیان کی ہے۔ اس کو خود انھوں نے اسی لفظ سے آگے ایک باب میں سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ وقال بعضہم سے حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عائشہ مراد ہیں۔ ان کے اثروں کو عبدالرزاق نے نکالا ہے، عجب نہیں کہ ان دونوں نے یہ حکایت بنی اسرائیل سے لے کر بیان کی ہو۔ قرآن شریف میں حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کے حال میں ہے کہ فضحکت جس سے مراد بعض نے لیا ہے کہ ان کو حیض آگیا اور ظاہر ہے کہ سارہ بنی اسرائیل سے پہلے تھیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل پر یہ بطور عذاب دائمی کے بھیجا گیا ہو۔
294.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ہم سب مدینہ منورہ سے صرف حج کے ارادے سے نکلے، چنانچہ جب ہم مقام سرف پر پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے کیا ہوا؟ کیا حیض آ گیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ امر تو اللہ تعالیٰ نے بناتِ آدم پر لکھ دیا ہے، لہٰذا تم وہ تمام کام کرو جو حاجی کرتا ہے، البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی دی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کےعام نسخوں میں اس حدیث پر کوئی عنوان نہیں، بلکہ اسے سابق عنوان کے تحت ہی درج کیا گیا ہے۔ اس صورت میں چونکہ پہلے بنات آدم پر حیض مقرر کر دینے کا بیان تھا۔ اس حدیث سے مذکورہ مقصد کو واضح کردیا ہے، لیکن ابو ذر ؓ کے نسخے میں مذکورہ عنوان موجود ہے، اس اعتبار سے مقصد یہ ہے کہ حالت حیض میں عورت کو آزاد نہیں چھوڑدیا گیا کہ اس سے امرونہی کا کوئی تعلق ہی نہیں، جیسا کہ یہود و مجوس نے ان ایام میں عورت کو ایک طرف کر رکھاتھا، بتایا گیا ہے کہ ان ایام میں صرف مخصوص عبادات کے ادا کرنے پر پابندی ہے۔ دوران حج میں حائضہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں مناسک حج ادا کر سکتی ہے۔ صرف بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی نہیں کرنی، ان ایام میں مجالس خیر میں شرکت کر سکتی ہے۔ دیگر اسباب خیر بجا لا سکتی ہے۔ اس کے متعلق دیگر تفصیلات کتاب الحج میں بیان ہوں گی۔ إن شاء اللہ۔ 2۔ ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ذوالحجہ کی دس تاریخ کو ہمیں گائے کا گوشت پیش کیا گیا۔ میں نے کہا: یہ کہاں سے آیا ہے؟ بتایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آج اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے، یہ اس کا گوشت ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1709) اس پر امام بخاری ؒ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے ۔ (باب ذبح الرجل البقر عن نسائه من غير أمرهن)’’آدمی اپنی بیوی کی طرف سے اس کی اجازت یا علم کے بغیر قربانی کر سکتا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث سے تقریباً پینتیس مسائل کا استباط فرمایا ہے، جن کی ہم آئندہ جستہ جستہ وضاحت کرتے رہیں گے۔ ایک حدیث سے اتنی کثیر تعداد میں مسائل کا استخراج امام بخاری کی قوت استنباط اور دقت نظر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پہلے جنس حیض کے متعلق بتانا چاہتے ہیں کہ اس کا ظہور دنیا میں کس طرح ہوا۔اس کے بعد اس سے متعلقہ احکام و مسائل بیان کریں گے چنانچہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے پیش نظر حیض کا وجود بنات آدم کی ابتدائے آفرینش سے ہے بنی اسرائیل کی عورتوں سے اس کا آغاز نہیں ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی آگے حدیث (305)میں موصولاً بیان فرمائیں گے۔یہاں انھوں نے بنی اسرائیل سے متعلقہ روایت کا سرسری ذکر کیا ہے لیکن ان دونوں روایات میں تطبیق کی کوئی صورت بیان کی۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا :بنی اسرائیل کی عورتیں مردوں کے ساتھ نماز پڑھا کرتی تھیں دوران نماز میں انھوں نے مردوں سے تاک جھانک کا سلسلہ شروع کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر حیض مسلط کر دیا اور انھیں مساجد میں جانے سے روک دیا گیا۔( صحیح ابن خزیمہ حدیث 1700۔)حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں روایات میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ حیض کی ابتدا تو بنی اسرائیل سے پہلے ہو چکی تھی جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے جب حضرت حوا کو جنت سے زمین پر اتارا گیا تو اس وقت سے حیض کا آغاز ہوا۔( المستدرک للحاکم 2/38۔) لیکن بنی اسرائیل کی عورتوں پر بطور سزا اس کی مدت کو بڑھا دیا گیا۔( فتح الباری:1/519۔)علامہ عینی حسب عادت اس توجیہ سے خوش نہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ اس کی کیا دلیل ہے کہ پہلے حیض میں کمی تھی جس پر بعد میں اضافہ ہوا ؟پھر انھوں نے اپنی طرف سے ایک توجیہ بیان کی ہے کہ کثرت عناد کی وجہ سے حق تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی عورتوں کا حیض منقطع کردیا پھر کچھ مدت گزرجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور عادت حیض کا اجراءفرما دیا یعنی جب اعادہ حیض ہوا تو مدت انقطاع کے لحاظ سے وہی اول ارسال کا مدلول قرارپایا لہٰذا اولیت کا اطلاق اس اعتبار سے ہوا۔( عمدۃ القاری:2/92۔)اس توجیہ پر ہمارا سوال ہے کہ اول انقطاع پھر اعادہ کی کیا دلیل ہے؟بہر حال حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی توجیہ علامہ عینی کی روجیہ سے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ انھیں مساجد سے روکنے کے لیے ان کی مدت حیض کو بڑھا دیا گیا لیکن ہمارے خیال میں دونوں رتوجیہیں ہی تسلی بخش نہیں اس لیے مرفوع روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے کہ حیض کا آغاز ابتدائے آفر ینش ہی سے ہےاسی بات کو ترجیح حاصل ہے اس کے مقابلے میں موقوف آثار ناقابل التفات ہیں جن میں حیض کا آغاز بنی اسرائیل کی عورتوں سے بتلایا گیا ہے۔ موقوف روایات کی غیر معقول توجیہات کے بجائے مرفوع روایت ہی راجح ہے۔ واللہ اعلم۔
اور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ سب سے پہلے حیض بنی اسرائیل میں آیا۔ ابوعبداللہ امام بخاری کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی حدیث تمام عورتوں کو شامل ہے۔تشریح : یعنی “ آدم کی بیٹیوں ” کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل سے پہلے بھی عورتوں کو حیض آتا تھا۔ اس لیے حیض کی ابتدا کے متعلق یہ کہنا کہ بنی اسرائیل سے اس کی ابتدا ہوئی صحیح نہیں، حضرت امام بخاری قدس سرہ نے جو حدیث یہاں بیان کی ہے۔ اس کو خود انھوں نے اسی لفظ سے آگے ایک باب میں سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ وقال بعضہم سے حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عائشہ مراد ہیں۔ ان کے اثروں کو عبدالرزاق نے نکالا ہے، عجب نہیں کہ ان دونوں نے یہ حکایت بنی اسرائیل سے لے کر بیان کی ہو۔ قرآن شریف میں حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کے حال میں ہے کہ فضحکت جس سے مراد بعض نے لیا ہے کہ ان کو حیض آگیا اور ظاہر ہے کہ سارہ بنی اسرائیل سے پہلے تھیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل پر یہ بطور عذاب دائمی کے بھیجا گیا ہو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ہم سب مدینہ منورہ سے صرف حج کے ارادے سے نکلے، چنانچہ جب ہم مقام سرف پر پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے کیا ہوا؟ کیا حیض آ گیا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ امر تو اللہ تعالیٰ نے بناتِ آدم پر لکھ دیا ہے، لہٰذا تم وہ تمام کام کرو جو حاجی کرتا ہے، البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے گائے کی قربانی دی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کےعام نسخوں میں اس حدیث پر کوئی عنوان نہیں، بلکہ اسے سابق عنوان کے تحت ہی درج کیا گیا ہے۔ اس صورت میں چونکہ پہلے بنات آدم پر حیض مقرر کر دینے کا بیان تھا۔ اس حدیث سے مذکورہ مقصد کو واضح کردیا ہے، لیکن ابو ذر ؓ کے نسخے میں مذکورہ عنوان موجود ہے، اس اعتبار سے مقصد یہ ہے کہ حالت حیض میں عورت کو آزاد نہیں چھوڑدیا گیا کہ اس سے امرونہی کا کوئی تعلق ہی نہیں، جیسا کہ یہود و مجوس نے ان ایام میں عورت کو ایک طرف کر رکھاتھا، بتایا گیا ہے کہ ان ایام میں صرف مخصوص عبادات کے ادا کرنے پر پابندی ہے۔ دوران حج میں حائضہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں مناسک حج ادا کر سکتی ہے۔ صرف بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی نہیں کرنی، ان ایام میں مجالس خیر میں شرکت کر سکتی ہے۔ دیگر اسباب خیر بجا لا سکتی ہے۔ اس کے متعلق دیگر تفصیلات کتاب الحج میں بیان ہوں گی۔ إن شاء اللہ۔ 2۔ ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ذوالحجہ کی دس تاریخ کو ہمیں گائے کا گوشت پیش کیا گیا۔ میں نے کہا: یہ کہاں سے آیا ہے؟ بتایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آج اپنی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے، یہ اس کا گوشت ہے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1709) اس پر امام بخاری ؒ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے ۔ (باب ذبح الرجل البقر عن نسائه من غير أمرهن)’’آدمی اپنی بیوی کی طرف سے اس کی اجازت یا علم کے بغیر قربانی کر سکتا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث سے تقریباً پینتیس مسائل کا استباط فرمایا ہے، جن کی ہم آئندہ جستہ جستہ وضاحت کرتے رہیں گے۔ ایک حدیث سے اتنی کثیر تعداد میں مسائل کا استخراج امام بخاری کی قوت استنباط اور دقت نظر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ترجمۃ الباب:
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "حیض ایسی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے مقرر فرما دی ہے۔" بعض حضرات کہتے ہیں: حیض پہلے پہلے بنی اسرائیل پر مسلط کیا گیا تھا۔ ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں: نبیﷺکی حدیث تمام عورتوں کو شامل ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا میں نے عبدالرحمن بن قاسم سے سنا، کہا میں نے قاسم سے سنا۔ وہ کہتے تھے میں نے حضرت عائشہ ؓ سے سنا۔ آپ فرماتی تھیں کہ ہم حج کے ارادہ سے نکلے۔ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی اور اس رنج میں رونے لگی کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے، آپ نے پوچھا تمہیں کیا ہو گیا۔ کیا حائضہ ہو گئی ہو۔ میں نے کہا، ہاں! آپ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے۔ اس لیے تم بھی حج کے افعال پورے کر لو۔ البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔ (سرف ایک مقام مکہ سے چھ سات میل کے فاصلہ پر ہے)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Qasim (RA): 'Aisha (RA) said, "We set out with the sole intention of performing Hajj and when we reached Sarif, (a place six miles from Makkah) I got my menses. Allah's Apostle (ﷺ) came to me while I was weeping. He said 'What is the matter with you? Have you got your menses?' I replied, 'Yes.' He said, 'This is a thing which Allah has ordained for the daughters of Adam. So do what all the pilgrims do with the exception of the Taw-af (Circumambulation) round the Ka’bah." 'Aisha (RA) added, "Allah's Apostle (ﷺ) sacrificed cows on behalf of his wives."