باب : نبی کریم ﷺکا (غیر مسلموں کو) اسلام کی طرف دعوت دینا اور اس بات کی دعوت کہ وہ خدا کو چھوڑ کر باہم ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The invitation of the Prophet saws to embrace Islam)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ کسی بندے کے لیے یہ لائق نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے ( کتاب و حکمت ) عطا فرمائے تو ( وہ بجائے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لوگوں سے اپنی عبادت کے لیے کہے ) آخر آیت تک ۔
2943.
حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک حملہ نہ کرتے جب تک صبح نہ ہوتی۔ جب صبح ہو جاتی اور اذان کی آواز سن لیتے تو رک جاتے اور اگر اذان نہ سنتے تو صبح کے بعد حملہ کردیتے، چنانچہ خیبر میں بھی ہم رات ہی کو پہنچے تھے۔
تشریح:
1۔اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ جنگ سے پہلے ہر وہ موقع تلاش کرلینا چاہیے جس سے جنگ کا خطرہ ٹل سکے کیونکہ جنگ وقتال اسلام کے مقاصد سے نہیں ہے۔رسول اللہ ﷺ صبح تک اس لیے انتظار کرتے تھے تاکہ پتہ نہ چل جائے کہ اس علاقے کے لوگ مسلمان ہیں یا نہیں۔ اذان وغیرہ اسلامی شعائر سے ان کا حال معلوم ہوجاتا تھا۔ 2۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی قوم کے متعلق معلوم نہ ہوسکے کہ انھیں دعوت اسلام پہنچی ہے یا نہیں تو صبح تک انتظار کرلیا جائے۔اگراذان سنائی دے تو حملہ نہ کیاجائے بصورت دیگرحملہ کردیا جائے۔دعوت اسلام کے متعلق جمہور کا مسلک یہ ہے کہ اگردعوت نہیں پہنچی تو اسلام کی دعوت دینا واجب ہے ،اگرپہنچ چکی ہے تو نئے سرے سے دینا مستحب ہے۔واللہ أعلم۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلامی جہاد کا مقصد عبادت الٰہی اور مساوات انسانی کو فروغ دینا ہے اور اس ملوکیت کو جڑ سے اکھاڑنا ہے جس میں ایک انسان تخت حکومت پر بیٹھ کر اپنی خدائی تسلیم کرائے۔حضرات انبیاء کے لیے بھی یہ لائق نہیں کہ الوہیت وربویت کے کچھ حصے دار بننے کا دعوی کریں۔ اس آیت کریمہ میں اسلامی جہاد کی دعوت کا بیان ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ کسی بندے کے لیے یہ لائق نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے ( کتاب و حکمت ) عطا فرمائے تو ( وہ بجائے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لوگوں سے اپنی عبادت کے لیے کہے ) آخر آیت تک ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک حملہ نہ کرتے جب تک صبح نہ ہوتی۔ جب صبح ہو جاتی اور اذان کی آواز سن لیتے تو رک جاتے اور اگر اذان نہ سنتے تو صبح کے بعد حملہ کردیتے، چنانچہ خیبر میں بھی ہم رات ہی کو پہنچے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ جنگ سے پہلے ہر وہ موقع تلاش کرلینا چاہیے جس سے جنگ کا خطرہ ٹل سکے کیونکہ جنگ وقتال اسلام کے مقاصد سے نہیں ہے۔رسول اللہ ﷺ صبح تک اس لیے انتظار کرتے تھے تاکہ پتہ نہ چل جائے کہ اس علاقے کے لوگ مسلمان ہیں یا نہیں۔ اذان وغیرہ اسلامی شعائر سے ان کا حال معلوم ہوجاتا تھا۔ 2۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی قوم کے متعلق معلوم نہ ہوسکے کہ انھیں دعوت اسلام پہنچی ہے یا نہیں تو صبح تک انتظار کرلیا جائے۔اگراذان سنائی دے تو حملہ نہ کیاجائے بصورت دیگرحملہ کردیا جائے۔دعوت اسلام کے متعلق جمہور کا مسلک یہ ہے کہ اگردعوت نہیں پہنچی تو اسلام کی دعوت دینا واجب ہے ،اگرپہنچ چکی ہے تو نئے سرے سے دینا مستحب ہے۔واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: " کسی بندے کے لیے یہ لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب وحکمت اور نبوت عطا فرمائے (تو وہ لوگوں کو اللہ کے سوا اپنی عبادت کے متعلق دعوت دے)۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا، ان سے حمید نے کہا کہ میں نے انس ؓ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک کوئی اقدام نہ فرماتے جب تک صبح نہ ہوجاتی، جب صبح ہوجاتی اور اذان کی آواز سن لیتے تو رک جاتے اور اگر اذان کی آواز سنائی نہ دیتی تو صبح ہونے کے بعد حملہ کرتے۔ چنانچہ خیبر میں بھی ہم رات میں پہنچے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی اشارہ ہے کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے ہر وہ موقع تلاش کرلینا چاہئے جس سے جنگ کا خطرہ ٹل سکے کیونکہ اسلام کا مقصد جنگ ہرگز نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Whenever Allah's Apostle (ﷺ) attacked some people, he would never attack them till it was dawn. If he heard the Adhan (i.e. call for prayer) he would delay the fight, and if he did not hear the Adhan, he would attack them immediately after dawn. We reached Khaibar at night.