باب : لڑائی سے نہ بھاگنے پر اور بعضوں نے کہا مر جانے پر بیعت کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: To give a Bai'a for not to flee during a battle)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیوں کہ اللہ پاک نے سورہ فتح میں فرمایا ، بے شک اللہ مسلمانوں سے راضی ہو چکا ہے جب وہ درخت ( شجرۃ رضوان ) کے نیچے تیرے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے ۔
2959.
حضرت عبد اللہ بن زید ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ واقعہ حرہ میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے ان سے کہا کہ حضرت حنظلہ ؓ کا بیٹا لوگوں سے موت پر بیعت لے رہا ہے تو حضرت عبد اللہ بن زید ؓنےکہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی سے اس پر بیعت نہیں کروں گا۔
تشریح:
1۔رسول اللہ ﷺ کی خاطر سردھڑ کی بازی لگا دینا ایمان کاحصہ ہے لیکن آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے یہ اعزاز نہیں کہ اس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دیا جائے،بلکہ ایساکرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے کیونکہ اگر غیرنبی کی بیعت موت پر کی جائے، پھر اس کی غلطی واضح ہوجائے تو دوصورتیں ہیں: اس کی بیعت پر بدستور قائم رہا جائے۔ اس صورت میں موت خلاف حق ہوگی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کی بیعت ترک کردی جائے۔ اس وقت موت ترک بیعت پر ہوگی۔ دونوں صورتیں ہی ہلاکت خیز ہیں، اس لیے آغاز امر میں بیعت نہ کرنا آسان ہے کہ موت خلاف حق یاترک بیعت پر آئے۔ 2۔واضح رہے کہ عبداللہ بن حنظلہ لوگوں سے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے لیے مرمٹنے پر بیعت لے رہے تھے جس کا انکار حضرت عبداللہ بن زید ؓنے کیا۔اس کامطلب یہ تھا کہ ہم تو خود رسول اللہ ﷺکے دست حق پر موت کی بیعت کرچکے ہیں، اب دوبارہ کسی دوسرے کے ہاتھ پر نئے سرے سے بیعت کی ضرورت نہیں۔ 3۔اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کرنا واضح نہ تھا، اس لیے امام بخاری ؒنے آگے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت موت پر ہوئی تھی۔
بیعت کے متعلق دوطرح کی روایات ہیں:ایک میں میدان جنگ سے نہ بھاگنے کی بیعت کا ذکر ہے اور دوسری میں موت پر بیعت لینے کا بیان ہے۔ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ موت پر بیعت کا مقصد یہ ہے کہ وہ دشمن کے مقابلے میں میدان جنگ سے نہیں بھاگیں گے اگرچہ ان پر موت واقع ہوجائے لہذا دونوں روایات کا ایک ہی مقصد ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صبر واستقامت پر قائم رہنے کی بیعت کی تھی۔"اللہ تعالیٰ نے ان پر اطمینان نازل کیا"یہ الفاظ بھی اسی بات پردلالت کرتے ہیں۔
کیوں کہ اللہ پاک نے سورہ فتح میں فرمایا ، بے شک اللہ مسلمانوں سے راضی ہو چکا ہے جب وہ درخت ( شجرۃ رضوان ) کے نیچے تیرے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن زید ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ واقعہ حرہ میں ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے ان سے کہا کہ حضرت حنظلہ ؓ کا بیٹا لوگوں سے موت پر بیعت لے رہا ہے تو حضرت عبد اللہ بن زید ؓنےکہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی سے اس پر بیعت نہیں کروں گا۔
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ ﷺ کی خاطر سردھڑ کی بازی لگا دینا ایمان کاحصہ ہے لیکن آپ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے یہ اعزاز نہیں کہ اس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دیا جائے،بلکہ ایساکرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے کیونکہ اگر غیرنبی کی بیعت موت پر کی جائے، پھر اس کی غلطی واضح ہوجائے تو دوصورتیں ہیں: اس کی بیعت پر بدستور قائم رہا جائے۔ اس صورت میں موت خلاف حق ہوگی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کی بیعت ترک کردی جائے۔ اس وقت موت ترک بیعت پر ہوگی۔ دونوں صورتیں ہی ہلاکت خیز ہیں، اس لیے آغاز امر میں بیعت نہ کرنا آسان ہے کہ موت خلاف حق یاترک بیعت پر آئے۔ 2۔واضح رہے کہ عبداللہ بن حنظلہ لوگوں سے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے لیے مرمٹنے پر بیعت لے رہے تھے جس کا انکار حضرت عبداللہ بن زید ؓنے کیا۔اس کامطلب یہ تھا کہ ہم تو خود رسول اللہ ﷺکے دست حق پر موت کی بیعت کرچکے ہیں، اب دوبارہ کسی دوسرے کے ہاتھ پر نئے سرے سے بیعت کی ضرورت نہیں۔ 3۔اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کرنا واضح نہ تھا، اس لیے امام بخاری ؒنے آگے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے بیعت موت پر ہوئی تھی۔
ترجمۃ الباب:
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "بلاشبہ اللہ ان اہل ایمان پر راضی ہو گیا، (جنھوں نے آپ کے ہاتھ پر درخت کے نیچے بیعت کی)۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ نے، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے عبداللہ بن زید ؓ نے بیان کیا کہ حرہ کی لڑائی کے زمانہ میں ایک صاحب ان کے پاس آئے اور کہا کہ عبداللہ بن حنظلہ ؓ لوگوں سے (یزید کے خلاف) موت پر بیعت لے رہے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد اب میں موت پر کسی سے بیعت نہیں کروں گا۔
حدیث حاشیہ:
حرہ کی لڑائی کی تفصیل یہ کہ ۶۳ھ میں حضرت عبداللہ بن حنظلہ اور کئی مدینہ والے یزید کو دیکھنے گئے۔ جبکہ وہ لوگوں سے اپنی خلافت کی بیعت لے رہا تھا۔ مدینہ کے اس وفد نے جائزہ لیا تو یزید کو خلافت کا نا اہل پایا۔ اور اس کی حرکات ناشائستہ سے بیزار ہو کر واپس مدینہ لوٹے اور حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرلی۔ یزید کو جب خبر ہوئی تو اس نے مسلم بن عقبہ کو سردار بنا کر ایک بڑا لشکر مدینہ روانہ کردیا۔ جس نے اہل مدینہ پر بہت سے ظلم ڈھائے‘ سینکڑوں ہزاروں صحابہ وتابعین اور عوام و خواص‘ مردوں و عورتوں اور بچوں تک کو قتل کیا۔ یہ حادثہ حرہ نامی ایک میدان متصل مدینہ میں ہوا۔ اسی لئے اس کی طرف منسوب ہوا۔ عبداللہ بن زید کا مطلب یہ تھا کہ ہم تو خود رسول کریمﷺ کے دست حق پرست پر موت کی بیعت کرچکے ہیں۔ اب دوبارہ کسی اور کے ہاتھ پر اس کی تجدید کی ضرورت نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ موت پر بھی بیعت کی جاسکتی ہے۔ جس سے استقامت اور صبر مراد ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Zaid (RA): that in the time (of the battle) of Al-Harra a person came to him and said, "Ibn Hanzala is taking the pledge of allegiance from the people for death." He said, "I will never give a pledge of allegiance for such a thing to anyone after Allah's Apostle."