باب : لڑائی سے نہ بھاگنے پر اور بعضوں نے کہا مر جانے پر بیعت کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: To give a Bai'a for not to flee during a battle)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیوں کہ اللہ پاک نے سورہ فتح میں فرمایا ، بے شک اللہ مسلمانوں سے راضی ہو چکا ہے جب وہ درخت ( شجرۃ رضوان ) کے نیچے تیرے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے ۔
2960.
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے بیعت کی اور اس کے بعد میں ایک درخت کے سائے کے نیچے چلا گیا: پھر جب ہجوم ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’اے ابن اکوع ؓ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو پھر سہی۔‘‘ لہٰذا میں نے آپ سے دوبارہ بیعت کی۔ (راوی حدیث کہتا ہے)میں نے ان سے کہا: ابو مسلم! تم نے اس دن کس بات پر بیعت کی تھی؟ انھوں نے فرمایا موت پر۔
تشریح:
1۔حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بڑے جری،بہادر اور جفاکش تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دوسری مرتبہ بیعت لی تاکہ اللہ کی راہ میں خوشی خوشی اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: حضرت سلمہ بن اکوع ؓ شہسوار اور پیادہ دونوں طرح کہ لڑائی میں ماہر تھے تو دونوں صفات کے اعتبار سے دو دفعہ بیعت لی گئی۔ گویا تعددصفت،تعدد بیعت کا سبب بنا۔ (فتح الباري:246/13) 2۔موت پربیعت کرنے کامقصد یہ ہے کہ کفار کے ساتھ جنگ میں ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں اگرچہ لڑتے لڑتے موت آجائے۔محض مرنا مقصود نہیں۔ واللہ أعلم۔
بیعت کے متعلق دوطرح کی روایات ہیں:ایک میں میدان جنگ سے نہ بھاگنے کی بیعت کا ذکر ہے اور دوسری میں موت پر بیعت لینے کا بیان ہے۔ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ موت پر بیعت کا مقصد یہ ہے کہ وہ دشمن کے مقابلے میں میدان جنگ سے نہیں بھاگیں گے اگرچہ ان پر موت واقع ہوجائے لہذا دونوں روایات کا ایک ہی مقصد ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صبر واستقامت پر قائم رہنے کی بیعت کی تھی۔"اللہ تعالیٰ نے ان پر اطمینان نازل کیا"یہ الفاظ بھی اسی بات پردلالت کرتے ہیں۔
کیوں کہ اللہ پاک نے سورہ فتح میں فرمایا ، بے شک اللہ مسلمانوں سے راضی ہو چکا ہے جب وہ درخت ( شجرۃ رضوان ) کے نیچے تیرے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے بیعت کی اور اس کے بعد میں ایک درخت کے سائے کے نیچے چلا گیا: پھر جب ہجوم ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’اے ابن اکوع ؓ! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟‘‘ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں تو بیعت کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو پھر سہی۔‘‘ لہٰذا میں نے آپ سے دوبارہ بیعت کی۔ (راوی حدیث کہتا ہے)میں نے ان سے کہا: ابو مسلم! تم نے اس دن کس بات پر بیعت کی تھی؟ انھوں نے فرمایا موت پر۔
حدیث حاشیہ:
1۔حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بڑے جری،بہادر اور جفاکش تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دوسری مرتبہ بیعت لی تاکہ اللہ کی راہ میں خوشی خوشی اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: حضرت سلمہ بن اکوع ؓ شہسوار اور پیادہ دونوں طرح کہ لڑائی میں ماہر تھے تو دونوں صفات کے اعتبار سے دو دفعہ بیعت لی گئی۔ گویا تعددصفت،تعدد بیعت کا سبب بنا۔ (فتح الباري:246/13) 2۔موت پربیعت کرنے کامقصد یہ ہے کہ کفار کے ساتھ جنگ میں ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں اگرچہ لڑتے لڑتے موت آجائے۔محض مرنا مقصود نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "بلاشبہ اللہ ان اہل ایمان پر راضی ہو گیا، (جنھوں نے آپ کے ہاتھ پر درخت کے نیچے بیعت کی)۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، اور ان سے سلمہ بن الاکوع نے بیان کیا (حدیبیہ کے موقع پر) میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی۔ پھر ایک درخت کے سائے میں آ کر کھڑا ہوگیا۔ جب لوگوں کا ہجوم کم ہوا تو آنحضرت ﷺ نے دریافت کیا، ابن الاکوع کیا بیعت نہیں کرو گے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں تو بیعت کرچکا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، دوبارہ اور بھی! چنانچہ میں نے دوبارہ بیعت کی (یزید بن ابی عبیداللہ کہتے ہیں کہ) میں نے سلمہ بن الاکوع ؓ سے پوچھا، ابومسلم اس دن آپ حضرات نے کس بات پر بیعت کی تھی ؟ کہا کہ موت پر۔
حدیث حاشیہ:
یہاں بھی حدیبیہ میں بیعت الرضوان مراد ہے۔ جو ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی۔ سورہ فتح میں اللہ تعالیٰ نے ان جملہ مجاہدین کے لئے اپنی رضا کا اعلان فرمایا ہے۔ رضي اللہ عنهم و رضوا عنه ۔ آیت شریفہ
﴿لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ﴾ (الفتح :18) میں اسی کا بیان ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Yazid bin Ubaid (RA): Salama said, "I gave the Pledge of allegiance (Al-Ridwan) to Allah's Apostle (ﷺ) and then I moved to the shade of a tree. When the number of people around the Prophet (ﷺ) diminished, he said, 'O Ibn Al-Akwa ! Will you not give to me the pledge of Allegiance?' I replied, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have already given to you the pledge of Allegiance.' He said, 'Do it again.' So I gave the pledge of allegiance for the second time." I asked 'O Abu Muslim! For what did you give he pledge of Allegiance on that day?" He replied, "We gave the pledge of Allegiance for death."