باب : لڑائی سے نہ بھاگنے پر اور بعضوں نے کہا مر جانے پر بیعت کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: To give a Bai'a for not to flee during a battle)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیوں کہ اللہ پاک نے سورہ فتح میں فرمایا ، بے شک اللہ مسلمانوں سے راضی ہو چکا ہے جب وہ درخت ( شجرۃ رضوان ) کے نیچے تیرے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے ۔
2962.
حضرت مجاشع ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں اور میرا بھائی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہم سے ہجرت پر بیعت لے لیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہجرت تو مسلمان کے لیے ختم ہو چکی ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اب آپ ہم سے کس بات پر بیعت لیں گے؟ آپ نے فرمایا: ’’اسلام پر استقامت اور جہاد پر گامزن رہنے پر۔‘‘
تشریح:
1۔پہلی حدیث کے مطابق صحابہ کرام ؓنے غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺکے ہاتھ پر جہاد کرنے کی بیعت کی کہ جب تک وہ زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے۔ اس بعیت کا مطلب یہ تھا کہ وہ میدان جنگ سے راہ فراراختیارنہیں کریں گے اگرچہ اس راستے میں ان کی جانیں ختم ہوجائیں۔ دوسری حدیث میں حضرت مجاشع ؓسے بیعت لینے کا ذکر ہے۔ وہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے۔ اس وقت مکہ سے ہجرت کرنے کا موقع نہیں تھا کیونکہ وہ اب مکہ دارالسلام بن چکا تھا۔ 2۔رسول اللہ ﷺ ہجرت کے لیے بیعت ان لوگوں سے لیتے تھے جو فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوئے تھے، جو لوگ اس کے بعد مسلمان ہوئے ان سے ہجرت کی بیعت نہیں لی جاتی تھی بلکہ ان سے جہاد کی بیعت لی جاتی تھی کیونکہ جہاد قیامت تک کے لیے فرض ہے، البتہ جس ملک میں انسان کا ایمان خطرے میں ہو، وہاں سے ہجرت کرکے ایسے علاقے میں جانا ضروری ہے جہاں ایمان محفوظ ہو اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ واللہ أعلم۔
بیعت کے متعلق دوطرح کی روایات ہیں:ایک میں میدان جنگ سے نہ بھاگنے کی بیعت کا ذکر ہے اور دوسری میں موت پر بیعت لینے کا بیان ہے۔ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ موت پر بیعت کا مقصد یہ ہے کہ وہ دشمن کے مقابلے میں میدان جنگ سے نہیں بھاگیں گے اگرچہ ان پر موت واقع ہوجائے لہذا دونوں روایات کا ایک ہی مقصد ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آیت کریمہ سے اس امر پر استدلال کیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صبر واستقامت پر قائم رہنے کی بیعت کی تھی۔"اللہ تعالیٰ نے ان پر اطمینان نازل کیا"یہ الفاظ بھی اسی بات پردلالت کرتے ہیں۔
کیوں کہ اللہ پاک نے سورہ فتح میں فرمایا ، بے شک اللہ مسلمانوں سے راضی ہو چکا ہے جب وہ درخت ( شجرۃ رضوان ) کے نیچے تیرے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مجاشع ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں اور میرا بھائی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہم سے ہجرت پر بیعت لے لیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہجرت تو مسلمان کے لیے ختم ہو چکی ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اب آپ ہم سے کس بات پر بیعت لیں گے؟ آپ نے فرمایا: ’’اسلام پر استقامت اور جہاد پر گامزن رہنے پر۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔پہلی حدیث کے مطابق صحابہ کرام ؓنے غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺکے ہاتھ پر جہاد کرنے کی بیعت کی کہ جب تک وہ زندہ رہیں گے جہاد کرتے رہیں گے۔ اس بعیت کا مطلب یہ تھا کہ وہ میدان جنگ سے راہ فراراختیارنہیں کریں گے اگرچہ اس راستے میں ان کی جانیں ختم ہوجائیں۔ دوسری حدیث میں حضرت مجاشع ؓسے بیعت لینے کا ذکر ہے۔ وہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے۔ اس وقت مکہ سے ہجرت کرنے کا موقع نہیں تھا کیونکہ وہ اب مکہ دارالسلام بن چکا تھا۔ 2۔رسول اللہ ﷺ ہجرت کے لیے بیعت ان لوگوں سے لیتے تھے جو فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوئے تھے، جو لوگ اس کے بعد مسلمان ہوئے ان سے ہجرت کی بیعت نہیں لی جاتی تھی بلکہ ان سے جہاد کی بیعت لی جاتی تھی کیونکہ جہاد قیامت تک کے لیے فرض ہے، البتہ جس ملک میں انسان کا ایمان خطرے میں ہو، وہاں سے ہجرت کرکے ایسے علاقے میں جانا ضروری ہے جہاں ایمان محفوظ ہو اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "بلاشبہ اللہ ان اہل ایمان پر راضی ہو گیا، (جنھوں نے آپ کے ہاتھ پر درخت کے نیچے بیعت کی)۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن فضیل سے سنا، انہوں نے عاصم سے، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے، اور ان سے مجاشع بن مسعود سلمی ؓ نے بیان کیا کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ (فتح مکہ کے بعد) آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ ہم سے ہجرت پر بیعت لے لیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہجرت تو (مکہ کے فتح ہونے کے بعد وہاں سے) ہجرت کر کے آنے والوں پر ختم ہو گئی۔ میں نے عرض کیا، پھر آپ ہم سے کس بات پر بیعت لیں گے ؟ آپ نے فرمایا کہ اسلام اور جہاد پر۔
حدیث حاشیہ:
عہد رسالت میں ہجرت کا جو نشانہ تھا وہ فتح مکہ پر ختم ہوگیا۔ کیونکہ سارا عرب دارالاسلام بن گیا‘ بعد کے زمانوں میں مکی زندگی کا نقشہ سامنے آنے پر ہجرت کا سلسلہ جاری ہے۔ نیز اسلام اور جہاد بھی باقی ہے۔ لہٰذا ان سب پر بیعت لی جاسکتی ہے۔ بیعت سے مراد حلف اور اقرار ہے کہ اس پر ضرور قائم رہا جائے گا۔ خلاف ہرگز نہ ہوگا۔ بیعت کی بہت سی قسمیں ہیں جو بیان ہوں گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
And Narrated Mujashi (RA): My brother and I came to the Prophet (ﷺ) and I requested him to take the pledge of allegiance from us for migration. He said, "Migration has passed away with its people." I asked, "For what will you take the pledge of allegiance from us then?" He said, "I will take (the pledge) for Islam and Jihad".