باب : کسی کو اجرت دے کر اپنے طرف سے جہاد کرانا اور اللہ کی راہ میں سواری دینا
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The wages given to fight on somebody else's behalf)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے سامنے جہاد میں شرکت کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی اس مد میں اپنا کچھ مال خرچ کرکے تمہاری مدد کروں ۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کا دیا ہوا میرے پاس کافی ہے ۔ لیکن انہوں نے فرمایا کہ تمہاری سرمایہ داری تمہارے لیے ہے ۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس طرح میرا مال بھی اللہ کے راستے میں خرچ ہو جائے ۔ حضرت عمرؓنے فرمایا تھا کہ بہت سے لوگ اس مال کو ( بیت المال سے ) اس شرط پر لے لیتے ہیں کہ وہ جہاد میں شریک ہوں گے لیکن پھر وہ جہاد نہیں کرتے ۔ اس لیے جو شخص یہ حرکت کرے گا تو ہم اس کے مال کے زیادہ مستحق ہیں اور ہم اس سے وہ مال جو اس نے ( بیت المال سے ) لیا ہے واپس وصول کرلیں گے ۔ طاوس اور مجاہد نے فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی چیز اس شرط کے ساتھ دی جائے کہ اس کے بدلے میں تم جہاد کے لیے نکلو گے ۔ تو تم اسے جہاں جی چاہے خرچ کرسکتے ہو ۔ اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات میں بھی لا سکتے ہو ۔ ( مگر شرط کے مطابق جہاد میں شرکت ضروری ہے )
2970.
حضرت عمر بن خطاب ؓسے روایت ہے، انھوں نےکہا: میں نے اللہ کی راہ میں کسی کو سواری کے لیے گھوڑا دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہا ہے۔ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: میں اسے خرید لوں؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے مت خرید اور اپنے صدقے کو واپس نہ لو۔‘‘
ابن بطال فرماتے ہیں:اگر کسی نے اپنے مال سے نفلی طور پر کسی مجاہد کی مدد کی یا اسے سواری مہیا کی تواس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں،البتہ اگر کوئی جہاد کے لیے اجرت لے یا اپنے گھوڑے کے لیے اجرت لے تو اس میں اختلاف ہے،تاہم اگر مسلمانوں میں کمزوری آجائے اور بیت المال میں بھی کچھ نہ ہو تو پھر اجرت لی جاسکتی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کےانداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس اختلاف کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں کہ غازی جواجرت لیتا ہے کیا اسے غزوے ہی میں استعمال کرنا ضروری ہے یا وہ اس میں ہر قسم کے تصرف کا حقدار ہے کہ جہاں چاہے استعمال کرے؟ واللہ اعلم۔(فتح الباری 151/6)مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہاہے کہ مصنف نے کتاب المغازی میں موصولاً ذکر کیا ہے لیکن ہمیں تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اثر کو امام ابن شیبہ نے مصنف میں ذکر کیا ہے۔(المصنف لابن ابی شیبہ 307/11)
مجاہد نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے سامنے جہاد میں شرکت کا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی اس مد میں اپنا کچھ مال خرچ کرکے تمہاری مدد کروں ۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کا دیا ہوا میرے پاس کافی ہے ۔ لیکن انہوں نے فرمایا کہ تمہاری سرمایہ داری تمہارے لیے ہے ۔ میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ اس طرح میرا مال بھی اللہ کے راستے میں خرچ ہو جائے ۔ حضرت عمرؓنے فرمایا تھا کہ بہت سے لوگ اس مال کو ( بیت المال سے ) اس شرط پر لے لیتے ہیں کہ وہ جہاد میں شریک ہوں گے لیکن پھر وہ جہاد نہیں کرتے ۔ اس لیے جو شخص یہ حرکت کرے گا تو ہم اس کے مال کے زیادہ مستحق ہیں اور ہم اس سے وہ مال جو اس نے ( بیت المال سے ) لیا ہے واپس وصول کرلیں گے ۔ طاوس اور مجاہد نے فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی چیز اس شرط کے ساتھ دی جائے کہ اس کے بدلے میں تم جہاد کے لیے نکلو گے ۔ تو تم اسے جہاں جی چاہے خرچ کرسکتے ہو ۔ اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات میں بھی لا سکتے ہو ۔ ( مگر شرط کے مطابق جہاد میں شرکت ضروری ہے )
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر بن خطاب ؓسے روایت ہے، انھوں نےکہا: میں نے اللہ کی راہ میں کسی کو سواری کے لیے گھوڑا دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ وہ فروخت ہو رہا ہے۔ میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: میں اسے خرید لوں؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے مت خرید اور اپنے صدقے کو واپس نہ لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا: میں جہاد کے لیے جانا چاہتا ہوں، انھوں نے فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی اس مد میں اپنا کچھ مال خرچ کر کے تمھاری مدد کروں۔ میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا میرے پاس کافی ہے۔ انھوں نے فرمایا: تمھارا سرمایہ تو تمھارے لیے ہے، میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرا مال بھی اللہ کے راستے میں خرچ ہو جائے۔ حضرت عمرؓفرماتے ہیں کہ کچھ لوگ جہاد کی غرض سے بیت المال کا کچھ مال لے لیتے ہیں لیکن وہ جہاد کے لیے جاتے نہیں، آئندہ جس نے ایسا کیا تو ہم اس مال کے زیادہ حق دار ہوں گے، یعنی ہم اس سے وہ مال وصول کریں گے جتنا اس نے بیت المال سے لیا ہے۔طاؤس اور مجاہد بیان کرتے ہیں کہ اگر تمھیں کوئی مال اس شرط پردیا جائے کہ تم جہاد کے لیے جاؤتو اب تمھاری مرضی ہے اسے جہاں چاہو خرچ کرو۔ تم اسے اپنے اہل وعیال کی ضرورت کے لیے بھی صرف کر سکتے ہو(مگر شرط کے مطابق جہاد میں شرکت ضروری ہے۔ )
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے مالک بن انس سے سنا، انہوں نے زید بن اسلم سے پوچھا تھا اور زید نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا تھا، وہ بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا میں نے اللہ کے راستے میں (جہاد کے لیے) اپنا ایک گھوڑا ایک شخص کو سواری کے لیے دے دیا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ (بازار میں) وہی گھوڑا بک رہا ہے۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیا میں اسے خرید سکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس گھوڑے کو تم نہ خریدو اور اپنا صدقہ (خواہ خرید کر ہی ہو) واپس نہ لو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب میں وہ اجرت مراد ہے جو جہاد میں شرکت نہ کرنے والا کوئی شخص اپنی طرف سے کسی آدمی کو اجرت دے کر جہاد پر بھیجتا ہے۔ جہاں تک جہاد پر اجرت کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ اجرت لینی جائز ہے۔ یوں تو جہاد کا حکم سب کے لئے برابر ہے۔ اس لئے کسی معقول عذر کے بغیر اس میں شرکت سے پہلو تہی کرنا مناسب نہیں۔ البتہ یہ صورت اس سے الگ ہے کہ کسی پر جہاد فرض یا واجب نہ ہو اور وہ جہاد میں جانے والے کی مدد کرکے ثواب میں شریک ہو جائے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کیا تھا۔ ہاں جہاد میں شرکت سے بچنے کے لئے اگر ایسا کرتا ہے تو بہتر نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Al-Khattab (RA): I gave a horse to be used in Allah's Cause, but later on I saw it being sold. I asked the Prophet (ﷺ) whether I could buy it. He said, "Don't buy it and don't take back your gift of charity."