باب : آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ ایک مہینے کی راہ سے اللہ نے میرا رعب (کافروں کے دلوں میں) ڈال کر میری مدد کی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: "I have been made victorious...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” عنقریب ہم ان لوگوں کے دلوں کو مرعوب کردیں گے جنہوں نے کفر کیا ہے ۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا ہے ! جابر ؓ نے نبی کریم ﷺکے حوالہ سے یہ حدیث روایت کی ہے ۔
2978.
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے انھیں حضرت ابوسفیان ؓ نے بتایا کہ (شاہ روم) ہرقل جب بیت المقدس میں تھا تو اس نے انھیں پیغام بھیجا۔ پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا مکتوب گرامی منگوایا۔ جب اسے پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے پڑھنے پر بہت شور و غل ہوا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ پھر ہمیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابوکبشہ کا معاملہ تو بہت زور پکڑگیا ہے کہ رومیوں کا بادشاہ اس سے ڈر رہا ہے۔
تشریح:
مدینہ طیبہ اور شام جہاں شاہ روم قیصر رہتا تھا کے درمیان ایک ماہ کی مسافت تھی۔ اسی طرح جب اس نے تبوک کے باڈر پر اپنی فوجیں جمع کیں اور رسول اللہ ﷺ کو علم ہوا تو آپ مدینہ طیبہ سے بھاری نفری لے کر اس کے مقابلے کے لیے نکلے۔ مدینہ طیبہ سے تبوک ایک ماہ کی مسافت پر تھا قیصر پر اس قدر رعب پڑا کہ اسے بھاگنے میں عافیت نظر آئی۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ گیا۔ رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا کہ سینکڑوں میل دور بھی دشمن آپ سے مرعوب رہتا تھا۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" پانچ چیزیں مجھے عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ماہ کی مسافت پر دشمن کو مرعوب کر کے میری مدد کی گئی ہے۔"(صحیح البخاری التیمم حدیث 335)عہد رسالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بڑے بڑے بادشاہوں کے درمیان ایک ماہ سے زیادہ مسافت نہ تھی چنانچہ شام ، عراق ، مصر اور یمن سب مدینہ طیبہ سے ایک ماہ یا اس سے کم مسافت پر واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رعب ڈال رکھا تھا۔وہ اس رعب کے باعث آپ سے جنگ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” عنقریب ہم ان لوگوں کے دلوں کو مرعوب کردیں گے جنہوں نے کفر کیا ہے ۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا ہے ! جابر ؓ نے نبی کریم ﷺکے حوالہ سے یہ حدیث روایت کی ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے انھیں حضرت ابوسفیان ؓ نے بتایا کہ (شاہ روم) ہرقل جب بیت المقدس میں تھا تو اس نے انھیں پیغام بھیجا۔ پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کا مکتوب گرامی منگوایا۔ جب اسے پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے پڑھنے پر بہت شور و غل ہوا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ پھر ہمیں وہاں سے نکال دیا گیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابوکبشہ کا معاملہ تو بہت زور پکڑگیا ہے کہ رومیوں کا بادشاہ اس سے ڈر رہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مدینہ طیبہ اور شام جہاں شاہ روم قیصر رہتا تھا کے درمیان ایک ماہ کی مسافت تھی۔ اسی طرح جب اس نے تبوک کے باڈر پر اپنی فوجیں جمع کیں اور رسول اللہ ﷺ کو علم ہوا تو آپ مدینہ طیبہ سے بھاری نفری لے کر اس کے مقابلے کے لیے نکلے۔ مدینہ طیبہ سے تبوک ایک ماہ کی مسافت پر تھا قیصر پر اس قدر رعب پڑا کہ اسے بھاگنے میں عافیت نظر آئی۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ گیا۔ رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا کہ سینکڑوں میل دور بھی دشمن آپ سے مرعوب رہتا تھا۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ: "عنقریب ہم کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے۔ "حضرت جابر ؓنے نبی ﷺکے حوالے سے یہ(باب میں مذکور) حدیث بیان کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ نے، انہیں ابن عباس ؓ نے خبر دی اور انہیں ابو سفیان ؓ نے خبر دی کہ (آنحضرت ﷺ کا نامہ مبارک جب شاہ روم ہرقل کو ملا تو) اس نے اپنا آدمی انہیں تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت ایلیا میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آخر (طویل گفتگو کے بعد) اس نے نبی کریم ﷺ کا نامہ مبارک منگوایا۔ جب وہ پڑھا جاچکا تو اس کے دربار میں ہنگامہ برپا ہوگیا (چاروں طرف سے) آواز بلند ہونے لگی۔ اور ہمیں باہر نکال دیاگیا۔ جب ہم باہر کر دئیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہ ﷺ سے ہے) کا معاملہ تو اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔
حدیث حاشیہ:
شام کا ملک جہاں اس وقت ہرقل تھا مدینہ سے ایک مہینہ کی راہ پر ہے‘ تو باب کا مطلب نکل آیا کہ آنحضرتﷺ کا رعب ایک مہینے کی راہ سے ہرقل پر پڑا۔ آپ کے بے شمار معجزات میں سے یہ بھی آپ کا اہم معجزہ تھا۔ آپ کے دشمن جو آپ سے صدہا میلوں کے فاصلے پر رہتے تھے وہ وہاں سے ہی بیٹھے ہوئے آپ کے رعب سے مرعوب رہا کرتے تھے۔ (ﷺ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): Abu Sufyan (RA) said, "Heraclius sent for me when I was in 'llya' (i.e. Jerusalem). Then he asked for the letter of Allah's Apostle (ﷺ) and when he had finished its reading there was a great hue and cry around him and the voices grew louder and we were asked to quit the place. When we were turned out, I said to my companions, 'The cause of Ibn Abi Kabsha has become conspicuous as the King of Bani Al-Asfar is afraid of him.'