Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: To say Takbir on ascending a high place)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2995.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ جب حج و عمرہ کے سفر سے واپس ہوتے، اور میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نے سفر جہاد کا بھی ذکر فرمایا: جب بھی کسی بلندی پر چڑھتے یا (نشیب سے) کنکریوں والے کھلے میدان میں پہنچتے تو تین مرتبہ اللہ أکبر کہتے۔ پھر یوں دعا کرتے: ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ وہی چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم واپس ہو رہے ہیں، توبہ کرتے ہوئے، اس کی عبادت بجا لاتے ہوئے، اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ کرتے ہوئے، اس کی حمد پڑھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس اکیلے نے لشکروں کو شکست سے دوچار کیا۔‘‘ (راوی حدیث) صالح نے کہا: میں نے ان (اپنے شیخ حضرت سالم بن عبداللہ)سے پوچھا : کیا حضرت عبد اللہ ؓنے إن شاء اللہ کے الفاظ نہیں کہے تھے؟ انھوں نے بتایا کہ نہیں۔
تشریح:
1۔رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ الفاظ غزوہ خندق کے موقع پر ارشاد فرمائے تھے۔ حجۃ الوداع سے واپسی پر آپ نے ان کلمات کو دہرایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرمایا :اور جذبہ شکر کے طور پر آپ نے یہ الفاظ کہے۔ ہم بھی ایسے مبارک مواقع پر انھیں پڑھ سکتے ہیں۔ 2۔امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جب انسان کسی بلندی پر چڑھے تو اللہ أکبر کہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اظہار ہو۔ بلندی پر چڑھتے ہوئے یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ ہم بلند ہو رہے ہیں بلندی كے لائق صرف ذات کبریا ہے ۔ ہم تو اس کے عاجز بندے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ جب حج و عمرہ کے سفر سے واپس ہوتے، اور میں خوب جانتا ہوں کہ آپ نے سفر جہاد کا بھی ذکر فرمایا: جب بھی کسی بلندی پر چڑھتے یا (نشیب سے) کنکریوں والے کھلے میدان میں پہنچتے تو تین مرتبہ اللہ أکبر کہتے۔ پھر یوں دعا کرتے: ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ وہی چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ہم واپس ہو رہے ہیں، توبہ کرتے ہوئے، اس کی عبادت بجا لاتے ہوئے، اپنے پروردگار کی بارگاہ میں سجدہ کرتے ہوئے، اس کی حمد پڑھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس اکیلے نے لشکروں کو شکست سے دوچار کیا۔‘‘ (راوی حدیث) صالح نے کہا: میں نے ان (اپنے شیخ حضرت سالم بن عبداللہ)سے پوچھا : کیا حضرت عبد اللہ ؓنے إن شاء اللہ کے الفاظ نہیں کہے تھے؟ انھوں نے بتایا کہ نہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ الفاظ غزوہ خندق کے موقع پر ارشاد فرمائے تھے۔ حجۃ الوداع سے واپسی پر آپ نے ان کلمات کو دہرایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرمایا :اور جذبہ شکر کے طور پر آپ نے یہ الفاظ کہے۔ ہم بھی ایسے مبارک مواقع پر انھیں پڑھ سکتے ہیں۔ 2۔امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جب انسان کسی بلندی پر چڑھے تو اللہ أکبر کہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا اظہار ہو۔ بلندی پر چڑھتے ہوئے یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ ہم بلند ہو رہے ہیں بلندی كے لائق صرف ذات کبریا ہے ۔ ہم تو اس کے عاجز بندے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ حج یا عمرہ سے واپس ہوتے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یوں کہا جب آپ جہاد سے لوٹتے، تو جب بھی آپ کسی بلندی پر چڑھتے یا (نشیب سے) کنکریلے میدان میں آتے تو تین مرتبہ اللہ أکبر کہتے ۔ پھر فرماتے، اللہ کے سوار اور کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ ملک اس کا ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے۔ ہم واپس ہو رہے ہیں توبہ کرتے ہوئے، عبادت کرتے ہوئے۔ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے اور اس کی حمد پڑھتے ہوئے، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا (کفار کی) تمام جماعتوں کو شکست دے دی۔ صالح نے کہا کہ میں نے سالم بن عبداللہ سے پوچھا کیا عبداللہ بن عمر ؓ نے لفظ آئبون کے بعد إن شاءاللہ نہیں کہا تھا تو انہوں نے بتایا کہ نہیں۔
حدیث حاشیہ:
رسول کریمﷺ نے حمد مذکورہ میں صدق اللہ وعدہ الخ کے الفاظ غزوہ خندق کے موقع پر ارشاد فرمائے تھے‘ اور حجۃ الوداع سے واپسی پر بھی جب کہ اسلام کو فتح کامل ہوچکی تھی اب بھی ان پاک ایام کی یاد تازہ کرنے کے لئے ان جملہ کلمات طیبات کو ایسے مبارک مواقع پر پڑھا جاسکتا ہے۔ لفظ مبارک إن شاء اللہ کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے نہ کہ ماضی کے اسی لئے اس موقع پر جو ماضی سے متعلق تھا‘ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے لفظ إن شاء اللہ نہیں کہا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah bin Umar (RA): Whenever the Prophet (ﷺ) returned from the Hajj or the 'Umra or a Ghazwa, he would say Takbir thrice. Whenever he came upon a mountain path or wasteland, and then he would say, "None has the right to be worshipped but Allah, Alone Who has no partner. All the Kingdom belongs to Him and all the praises are for Him and He is Omnipotent. We are returning with repentance, worshipping, prostrating ourselves and praising our Lord. Allah fulfilled His Promise, granted victory to His slave and He Alone defeated all the clans."