باب:گناہ جاہلیت کے کام ہیں اور گناہ کرنے والا گناہ سے کافر نہیں ہوتا۔ ہاں اگر شرک کرے تو کافر ہو جائے گا
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: Sins are from ignorance and a sinner is not a disbeliever unless he worships others along with Allah 'Azza wa Jall)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ابوذر سے فرمایا تھا تو ایسا آدمی ہے جس میں جاہلیت کی بو آتی ہے۔ ( اس برائی کے باوجود آپ ﷺ نے اسے کافر نہیں کہا ) اور اللہ نے سورۃ نساء میں فرمایا ہے :’’ بے شک اللہ شرک کو نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے وہ بخش دے۔‘‘ ( سورۃ حجرات میں فرمایا ) اور اگر ایمانداروں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو ( اس آیت میں اللہ نے اس گناہ کبیرہ قتل و غارت کے باوجود ان لڑنے والوں کو مومن ہی کہا ہے۔
30.
حضرت معرور بیان کرتے ہیں کہ میں ربذه (جگہ) میں حضرت ابوذر غفاری ؓ سے ملا، دیکھا تو انہوں نے اور ان کے غلام نے ایک جیسا جوڑا زیب تن کیا ہوا ہے۔ میں نے ان سے اس کی بابت پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے ایک شخص کو بایں طور گالی دی کہ اسے ماں کی عار دلائی۔ نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: ’’تو نے اسے اس کی ماں سے عار دلائی ہے؟ ابھی تک تجھ میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے تصرف میں رکھا ہے، چنانچہ جس شخص کا بھائی اس کے قبضے میں ہو، اسے چاہیئے کہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی لباس پہنچائے جو وہ خود پہنتا ہے۔ اور ان سے وہ کام نہ لو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ اور اگر ایسے کام کی انہیں زحمت دو تو خود بھی ان کا ہاتھ بٹاؤ۔‘‘
تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف اتنا کہا تھا کہ اے سیاہ فام عورت کے بیٹے! حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عمررسیدگی کے باوجود اس کی سنگینی کا علم نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطور تعجب فرمایا: ’’اے ابو ذر! عمر کے اس دور میں بھی تیرے اندر اس قسم کی جاہلانہ عادات باقی ہیں؟ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6050) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خصلت شرعاً کس قدر مذموم ہے۔ (فتح الباري:1؍ 118) ہمارےمعاشرے میں اس قسم کی بات گالی تو شمار ہی نہیں ہوتی بلکہ صرف مذاق کی ایک قسم سمجھی جاتی ہے جبکہ شریعت نے اسے دور جاہلیت کی یادگارسے تعبیر فرمایا ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ’’معاصی امور جاہلیت سے ہیں۔‘‘ کو ثابت کرنا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی کہ ابو ذر! تیرے اندر ابھی جاہلیت کی بو باقی ہے لیکن اسے ایمان سے خارج نہیں بتلایا اور نہ اسے تجدید ایمان ہی کے لیے کہا۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں مساوات کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ماتحت لوگوں کے ساتھ مساوات کی تلقین کی گئی ہے، جس سے ماتحتوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
30
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
30
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
31
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
30
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
عنوان بالا دو اجزاء پر مشتمل ہے۔1۔معاصی دور کفر کی باقیات ہیں۔ اس سے مرجیہ کی تردید مقصود ہے کہ معاصی کا مضر ایمان ہونا یقینی ہے۔2۔شرک کا مرتکب دین اسلام سے خارج ہے۔ اس سے معتزلہ اور خوارج کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہر مرتکب کبیرہ دین اسلام سے خارج ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ صرف شرک کا مرتکب خارج ہوگا۔
کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ابوذر سے فرمایا تھا تو ایسا آدمی ہے جس میں جاہلیت کی بو آتی ہے۔ ( اس برائی کے باوجود آپ ﷺ نے اسے کافر نہیں کہا ) اور اللہ نے سورۃ نساء میں فرمایا ہے :’’ بے شک اللہ شرک کو نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے وہ بخش دے۔‘‘ ( سورۃ حجرات میں فرمایا ) اور اگر ایمانداروں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو ( اس آیت میں اللہ نے اس گناہ کبیرہ قتل و غارت کے باوجود ان لڑنے والوں کو مومن ہی کہا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت معرور بیان کرتے ہیں کہ میں ربذه (جگہ) میں حضرت ابوذر غفاری ؓ سے ملا، دیکھا تو انہوں نے اور ان کے غلام نے ایک جیسا جوڑا زیب تن کیا ہوا ہے۔ میں نے ان سے اس کی بابت پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے ایک شخص کو بایں طور گالی دی کہ اسے ماں کی عار دلائی۔ نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: ’’تو نے اسے اس کی ماں سے عار دلائی ہے؟ ابھی تک تجھ میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے تصرف میں رکھا ہے، چنانچہ جس شخص کا بھائی اس کے قبضے میں ہو، اسے چاہیئے کہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی لباس پہنچائے جو وہ خود پہنتا ہے۔ اور ان سے وہ کام نہ لو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ اور اگر ایسے کام کی انہیں زحمت دو تو خود بھی ان کا ہاتھ بٹاؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف اتنا کہا تھا کہ اے سیاہ فام عورت کے بیٹے! حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عمررسیدگی کے باوجود اس کی سنگینی کا علم نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطور تعجب فرمایا: ’’اے ابو ذر! عمر کے اس دور میں بھی تیرے اندر اس قسم کی جاہلانہ عادات باقی ہیں؟ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث:6050) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خصلت شرعاً کس قدر مذموم ہے۔ (فتح الباري:1؍ 118) ہمارےمعاشرے میں اس قسم کی بات گالی تو شمار ہی نہیں ہوتی بلکہ صرف مذاق کی ایک قسم سمجھی جاتی ہے جبکہ شریعت نے اسے دور جاہلیت کی یادگارسے تعبیر فرمایا ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ’’معاصی امور جاہلیت سے ہیں۔‘‘ کو ثابت کرنا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی کہ ابو ذر! تیرے اندر ابھی جاہلیت کی بو باقی ہے لیکن اسے ایمان سے خارج نہیں بتلایا اور نہ اسے تجدید ایمان ہی کے لیے کہا۔ واضح رہے کہ اس حدیث میں مساوات کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ماتحت لوگوں کے ساتھ مساوات کی تلقین کی گئی ہے، جس سے ماتحتوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
فرمان نبوی ہے: "(اے ابوذر!) تیرے اندر ابھی جاہلیت کی خصلت باقی ہے۔" اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا، اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے گا بخش دے گا۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے بیان کیا عبدالرحمن بن مبارک نے، کہا ہم سے بیان کیا حماد بن زید نے، کہا ہم سے بیان کیا ایوب اور یونس نے، انھوں نے حسن سے، انھوں نے احنف بن قیس سے، کہا کہ میں ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے اسے واصل احدب سے، انھوں نے معرور سے، کہا میں ابوذر سے ربذہ میں ملا وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص یعنی غلام کو برا بھلا کہا تھا اور اس کی ماں کی غیرت دلائی (یعنی گالی دی) تو رسول اللہ ﷺ نے یہ معلوم کر کے مجھ سے فرمایا: ’’اے ابوذر! تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی، بے شک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ (یاد رکھو) ماتحت لوگ تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے (اپنی کسی مصلحت کی بنا پر) انھیں تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے تو جس کے ماتحت اس کا کوئی بھائی ہو تو اس کو بھی وہی کھلائے جو آپ کھاتا ہے اور وہی کپڑا اسے پہنائے جو آپ پہنتا ہے اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوذر غفاری ؓ قدیم الاسلام ہیں بہت ہی بڑے زاہد عابد تھے۔ ربذہ مدینہ سے تین منازل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے، وہاں ان کا قیام تھا۔ بخاری شریف میں ان سے چودہ احادیث مروی ہیں۔ جس شخص کو انھوں نے عاردلائی تھی وہ حضرت بلال ؓ تھے اور ان کو انھوں نے ان کی والدہ کے سیاہ فام ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ جس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوذر ابھی تم میں جاہلیت کا فخر باقی رہ گیا۔ یہ سن کر حضرت ابوذرؓ اپنے رخسار کے بل خاک پر لیٹ گئے۔ اور کہنے لگے کہ جب تک بلال میرے رخسار پر اپنا قدم نہ رکھیں گے۔ مٹی سے نہ اٹھوں گا۔ حلہ دو چادروں کو کہتے ہیں۔ جو ایک تہمد کی جگہ اور دوسری بالائی حصہ جسم پر استعمال ہو۔ حضرت امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابوذر ؓ کو آپ نے تنبیہ فرمائی لیکن ایمان سے خارج نہیں بتلایا۔ ثابت ہوا کہ معصیت بڑی ہو یا چھوٹی محض اس کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں ہوتا۔ پس معتزلہ وخوارج کا مذہب باطل ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص معصیت کا ارتکاب کرے اور اسے حلال جان کرکرے تواس کے کفر میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ یہ حدودِالٰہی کا توڑنا ہے، جس کے لیے ارشادِ باری ہے: ﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ (البقرة: 229) جو شخص حدودِ الٰہی کو توڑے وہ لوگ یقیناً ظالم ہیں۔ شیطان کو اس ذیل میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس نے خدا کی نافرمانی کی اور اس پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنے لگا خدا نے اسی کی وجہ سے اسے مردود و مطرود قرار دیا۔ پس گنہگاروں کے بارے میں اس فرق کا ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Ma'rur (RA): At Ar-Rabadha I met Abu Dhar (RA) who was wearing a cloak, and his slave, too, was wearing a similar one. I asked about the reason for it. He replied, "I abused a person by calling his mother with bad names." The Prophet (ﷺ) said to me, 'O Abu Dhar! Did you abuse him by calling his mother with bad names? You still have some characteristics of ignorance. Your slaves are your brothers and Allah has put them under your command. So whoever has a brother under his command should feed him of what he eats and dress him of what he wears. Do not ask them (slaves) to do things beyond their capacity (power) and if you do so, then help them.'