Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The spy)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ میں فرمایاکہ “ مسلمانو ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ “ لفظ جاسوس تجسّس سے نکلا ہے یعنی کسی بات کو کھود کر نکالنا ۔
3007.
حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر ؓاور حضرت مقداد بن اسود ؓ کو ایک مہم پرروانہ کیا اور فرمایا: ’’تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچ جاؤ۔ وہاں تمھیں اونٹ پر سوار ایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے آؤ۔‘‘ ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں لیے تیز ی سے دوڑے جا رہے تھے یہاں تک کہ ہم روضہ خاک پہنچ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں اونٹ سوار ایک عورت ہے۔ ہم نے اسے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا: خط نکال دو ورنہ ہم تیرے کپڑے اتاردیں گے، چنانچہ اس نے اپنے سر کے جوڑے سےخط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے خط کھول کر پڑھا تو اس میں یہ مضمون تھا: یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کی طرف سے چند مشرکین کے نام ہے، وہ انھیں رسول اللہ ﷺ کے بعض حالات کی خبر دے رہےہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے حاطب !یہ کیسا خط ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! مجھے سزا دینے میں جلدی نہ کریں بلکہ میرا عذر سن لیں۔ میرا قریش سے کوئی نسبی رشتہ نہیں بلکہ میں باہر سے آکر ان سے ملا ہوں۔ آپ کے ہمراہ جو مہاجرین ہیں ان سب کی مکہ مکرمہ میں رشتہ داریاں ہیں جن کی وجہ سے قریش، ان کے اہل و عیال اور مال واسباب کی حفاظت کریں گے۔ میں نے سوچا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ تو نہیں ہے تو میں ان پر کوئی ایسا احسان کروں جس کی وجہ سے وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں گے۔ میں نے یہ کام کفر کی بنا پر نہیں کیا اور نہ ہی میں دین اسلام سے پھر گیا ہوں اور نہ اسلام کے بعدکفر ہی پر راضی ہوا ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے تمھیں سچ سچ بتادیاہے۔‘‘ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’چونکہ یہ شخص غزوہ بدر میں حاضر تھا، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھ کر فرمایا ہے کہ تم جو چاہو عمل کرو یقیناً میں تمھیں بخش چکا ہوں۔‘‘ حضرت سفیان نے کہا کہ اس حدیث کی سند کیسی عجیب اور عمدہ ہے!
تشریح:
1۔علامہ عینی ؒنےسُہیلی ؒ کے حوالے سے حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے خط کا مضمون ان الفاظ میں لکھا ہے۔ ’’أمابعد! قریش کے لوگو! تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ ایک لشکر جرار لے کر مکہ کی طرف آرہے ہیں۔ اگر آپ اکیلے بھی آجائیں تو بھی اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا اور اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ اب تم اپنا بچاؤ کر لو۔‘‘ (عمدة القاري:321/10) حضرت عمر ؓ نے حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے متعلق جو رائے دی وہ شرعی اور سیاسی قانون کے عین مطابق تھی کہ انسان اپنی قوم یا حکومت کی خبر دشمن تک پہنچائے وہ قابل گردن زونی ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے بعض مصالح کے پیش نظر اس رائے سے اتفاق نہ کیا ۔ 2۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ دار حضرات کے بعض انفرادی یا اجتماعی معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں سنگین غلطیوں کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان کے تحت ایک آیت کا حوالہ دیا ہے۔حدیث میں اس آیت کا پس منظر بیان ہوا ہے اس سے کفار کے جاسوس کا حکم معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی مسلمان کو اس کی جاسوسی کا علم ہو جائے تو اس کا معاملہ حاکم وقت تک پہنچانا چاہیے تاکہ وہ اس کے متعلق مناسب رائے قائم کر کے کوئی فیصلہ دے۔ 3۔ہمارے نزدیک جاسوسی کا حکم یہ ہے کہ جب وہ کفار کی طرف سے ہو تو محض شرہے اور اگر مسلمانوں کی طرف سے ہو تو وہ جنگی مصلحت کی وجہ سے خیر پر مبنی ہوتی ہے امام بخاری ؒ نے کفار کی طرف سے جاسوسی کا حکم اور مسلمانوں کی طرف سے اس کی مشروعیت بتانے کے لیے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث ذکر کی ہے۔ واللہ أعلم۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ میں فرمایاکہ “ مسلمانو ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ “ لفظ جاسوس تجسّس سے نکلا ہے یعنی کسی بات کو کھود کر نکالنا ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر ؓاور حضرت مقداد بن اسود ؓ کو ایک مہم پرروانہ کیا اور فرمایا: ’’تم چلتے رہو حتی کہ روضہ خاخ پہنچ جاؤ۔ وہاں تمھیں اونٹ پر سوار ایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہے وہ اس سے لے آؤ۔‘‘ ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور ہمارے گھوڑے ہمیں لیے تیز ی سے دوڑے جا رہے تھے یہاں تک کہ ہم روضہ خاک پہنچ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں اونٹ سوار ایک عورت ہے۔ ہم نے اسے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے کہا: خط نکال دو ورنہ ہم تیرے کپڑے اتاردیں گے، چنانچہ اس نے اپنے سر کے جوڑے سےخط نکالا۔ ہم وہ خط لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے خط کھول کر پڑھا تو اس میں یہ مضمون تھا: یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کی طرف سے چند مشرکین کے نام ہے، وہ انھیں رسول اللہ ﷺ کے بعض حالات کی خبر دے رہےہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے حاطب !یہ کیسا خط ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! مجھے سزا دینے میں جلدی نہ کریں بلکہ میرا عذر سن لیں۔ میرا قریش سے کوئی نسبی رشتہ نہیں بلکہ میں باہر سے آکر ان سے ملا ہوں۔ آپ کے ہمراہ جو مہاجرین ہیں ان سب کی مکہ مکرمہ میں رشتہ داریاں ہیں جن کی وجہ سے قریش، ان کے اہل و عیال اور مال واسباب کی حفاظت کریں گے۔ میں نے سوچا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ تو نہیں ہے تو میں ان پر کوئی ایسا احسان کروں جس کی وجہ سے وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں گے۔ میں نے یہ کام کفر کی بنا پر نہیں کیا اور نہ ہی میں دین اسلام سے پھر گیا ہوں اور نہ اسلام کے بعدکفر ہی پر راضی ہوا ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے تمھیں سچ سچ بتادیاہے۔‘‘ حضرت عمر ؓنے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’چونکہ یہ شخص غزوہ بدر میں حاضر تھا، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھ کر فرمایا ہے کہ تم جو چاہو عمل کرو یقیناً میں تمھیں بخش چکا ہوں۔‘‘ حضرت سفیان نے کہا کہ اس حدیث کی سند کیسی عجیب اور عمدہ ہے!
حدیث حاشیہ:
1۔علامہ عینی ؒنےسُہیلی ؒ کے حوالے سے حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے خط کا مضمون ان الفاظ میں لکھا ہے۔ ’’أمابعد! قریش کے لوگو! تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ ایک لشکر جرار لے کر مکہ کی طرف آرہے ہیں۔ اگر آپ اکیلے بھی آجائیں تو بھی اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا اور اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ اب تم اپنا بچاؤ کر لو۔‘‘ (عمدة القاري:321/10) حضرت عمر ؓ نے حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے متعلق جو رائے دی وہ شرعی اور سیاسی قانون کے عین مطابق تھی کہ انسان اپنی قوم یا حکومت کی خبر دشمن تک پہنچائے وہ قابل گردن زونی ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے بعض مصالح کے پیش نظر اس رائے سے اتفاق نہ کیا ۔ 2۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ دار حضرات کے بعض انفرادی یا اجتماعی معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں سنگین غلطیوں کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے عنوان کے تحت ایک آیت کا حوالہ دیا ہے۔حدیث میں اس آیت کا پس منظر بیان ہوا ہے اس سے کفار کے جاسوس کا حکم معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی مسلمان کو اس کی جاسوسی کا علم ہو جائے تو اس کا معاملہ حاکم وقت تک پہنچانا چاہیے تاکہ وہ اس کے متعلق مناسب رائے قائم کر کے کوئی فیصلہ دے۔ 3۔ہمارے نزدیک جاسوسی کا حکم یہ ہے کہ جب وہ کفار کی طرف سے ہو تو محض شرہے اور اگر مسلمانوں کی طرف سے ہو تو وہ جنگی مصلحت کی وجہ سے خیر پر مبنی ہوتی ہے امام بخاری ؒ نے کفار کی طرف سے جاسوسی کا حکم اور مسلمانوں کی طرف سے اس کی مشروعیت بتانے کے لیے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث ذکر کی ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
تجسس، حالات کی چھان بین کرنے کو کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ "اے ایمان والوں!میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا‘ سفیان نے یہ حدیث عمرو بن دینار سے دو مرتبہ سنی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے حسن بن محمد نے خبر دی‘ کہا کہ مجھے عبیداللہ بن ابی رافع نے خبر دی‘ کہا کہ میں نے حضرت علی ؓ سے سنا‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اور زبیر اورمقداد بن اسود ؓ کو ایک مہم پر بھیجا اور آپ نے فرمایا کہ جب تم لوگ روضہ خاخ (جومدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ کا نام ہے) پر پہنچ جاؤ تو وہاں ایک بڑھیا عورت تمہیں اونٹ پر سوار ملے گی اور اس کے پاس ایک خط ہو گا‘ تم لوگ اس سے وہ خط لے لینا۔ ہم روانہ ہوئے اورہمارے گھوڑے ہمیں تیزی کے ساتھ لئے جا رہے تھے۔ آخر ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے اوروہاں واقعی ایک بوڑھی عورت موجود تھی جو اونٹ پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط نکال۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں۔ لیکن جب ہم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تو نے خط نہ نکالا تو تمہارے کپڑے ہم خود اتاردیں گے۔ اس پر اس نے اپنی گندھی ہوئی چوٹی کے اندر سے خط نکال کردیا‘ اور ہم اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے‘ اس کا مضمون یہ تھا‘ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے چند آدمیوں کی طرف‘ اس میں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بعض بھیدوں کی خبر دی تھی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے حاطب! یہ کیا واقعہ ہے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے بارے میں عجلت سے کام نہ لیجئے۔ میری حیثیت (مکہ میں) یہ تھی کہ قریش کے ساتھ میں نے رہنا سہنا اختیار کر لیا تھا‘ ان سے رشتہ ناتہ میرا کچھ بھی نہ تھا۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجرین ہیں ان کی تو مکہ میں سب کی رشتہ داری ہے اور مکہ والے اسی وجہ سے ان کے عزیزوں کی اور ان کے مالوں کی حفاظت وحمایت کریں گے مگر مکہ والوں کے ساتھ میرا کوئی نسبی تعلق نہیں ہے‘ اس لئے میں نے سوچا کہ ان پر کوئی احسان کردوں جس سے اثر لے کر وہ میرے بھی عزیزوں کی مکہ میں حفاظت کریں۔ میں نے یہ کام کفر یا ارتداد کی وجہ سے ہرگز نہیں کیا ہے اور نہ اسلام کے بعد کفر سے خوش ہو کر۔ رسول اللہ ﷺ نے سن کر فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا یارسول اللہ! اجازت دیجئے میں اس منافق کا سر اڑا دوں‘ آپ ﷺ نے فرمایا‘ نہیں ‘ یہ بدر کی لڑائی میں (مسلمانوں کے ساتھ مل کر) لڑے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں‘ اللہ تعالیٰ مجاہدین بدر کے احوال (موت تک کے) پہلے ہی سے جانتا تھا‘ اور وہ خود ہی فر ما چکا ہے کہ ’’تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کرچکا ہوں۔‘‘ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ حدیث کی یہ سند بھی کتنی عمدہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
مضمون خط کا یہ تھا ’’أما بعد! قریش کے لوگو! تم کو معلوم رہے کہ آنحضرتﷺ ایک جرار لشکر لئے ہوئے تمہارے سر پر آتے ہیں۔ اگر آپ اکیلے آئیں تو بھی اللہ آپ کی مدد کرے گا اور اپنا وعدہ پورا کرے گا‘ اب تم اپنا بچاؤ کرلو‘ والسلام‘‘۔ حضرت عمر ؓ نے قانون شرعی اور قانون سیاست کے مطابق رائے دی کہ جو کوئی اپنی قوم یا سلطنت کی خبر دشمنوں کو پہنچائے وہ سزائے موت کے قابل ہے لیکن آنحضرتﷺ نے حضرت حاطبؓ کی نیت میں کوئی فتور نہیں دیکھا اور یہ بھی کہ وہ بدری صحابہ میں سے تھے جن کی جزوی لغزشوں کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی معاف کردیا ہے۔ اس لئے ان کی اس سیاسی غلطی کو آنحضرتﷺ نے نظر انداز فرما دیا اور حضرت عمرؓ کی رائے کو پسند نہیں فرمایا۔ معلوم ہوا کہ ذمہ دار لوگوں کے بعض انفرادی یا اجتماعی معاملات ایسے بھی آجاتے ہیں کہ ان میں سخت ترین غلطیوں کو بھی نظر انداز کردینا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ فتویٰ دینے سے قبل معاملے کے ہر ہر پہلو پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ جو لوگ بغیر غور و فکر کئے سرسری طور پر فتویٰ دے دیتے ہیں بعض دفعہ ان کے ایسے فتوے بہت سے فسادات کے اسباب بن جاتے ہیں۔ خاخ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک گاؤں کا نام تھا۔ اس حدیث سے اہل بدر کی بھی فضیلت ثابت ہوئی کہ اللہ پاک نے ان کی جملہ لغزشوں کو معاف فرما دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubaidullah bin Abi Rafi (RA): I heard 'Ali saying, "Allah's Apostle (ﷺ) sent me, Az-Zubair and Al-Miqdad somewhere saying, 'Proceed till you reach Rawdat Khakh. There you will find a lady with a letter. Take the letter from her.' " So, we set out and our horses ran at full pace till we got at Ar-Rawda where we found the lady and said (to her). "Take out the letter." She replied, "I have no letter with me." We said, "Either you take out the letter or else we will take off your clothes." So, she took it out of her braid. We brought the letter to Allah's Apostle (ﷺ) and it contained a statement from Hatib bin Abi Balta a to some of the Makkahn pagans informing them of some of the intentions of Allah's Apostle. Then Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Hatib! What is this?" Hatib replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Don't hasten to give your judgment about me. I was a man closely connected with the Quraish, but I did not belong to this tribe, while the other emigrants with you, had their relatives in Makkah who would protect their dependents and property . So, I wanted to recompense for my lacking blood relation to them by doing them a favor so that they might protect my dependents. I did this neither because of disbelief not apostasy nor out of preferring Kufr (disbelief) to Islam." Allah's Apostle, said, "Hatib has told you the truth." Umar said, O Allah's Apostle (ﷺ) ! Allow me to chop off the head of this hypocrite." Allah's Apostle (ﷺ) said, "Hatib participated in the battle of Badr, and who knows, perhaps Allah has already looked at the Badr warriors and said, 'Do whatever you like, for I have forgiven you."