Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The burning of houses and date-palms)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3020.
حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تم مجھے ذی الخلصہ سے راحت کیوں نہیں دیتے؟‘‘ یہ قبیلہ خشعم میں ایک گھر تھا جس کو کعبہ یمانیہ کہاجاتا تھا۔ حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں آپ کا فرمان سن کر قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کے ہمراہ چلا جن کے پاس گھوڑے تھے، لیکن میرا پاؤں گھوڑے پر نہیں جمتا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا جس سے میں نے آپ کي انگلیوں کے نشانات اپنے سینے پر دیکھے اور آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ!اس کو گھوڑے پر جمادے۔ اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔‘‘ الغرض حضرت جریر ؓوہاں گئے اور اس بت کوتوڑ کر جلادیا، پھر رسول اللہ ﷺ کو ایک آدمی کے ذریعے سے اس کی اطلاع دی۔ حضرت جریر ؓ کے قاصد نے بیان کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں آپ کے پاس اس وقت آیا ہوں جبکہ وہ بت خالی پیٹ والے (کھوکھلے) یا (انھوں نے کہا) خارشی اونٹ کی طرح خاکستر ہوچکاتھا۔ راوی کا بیان ہے کہ آپ نے قبیلہ احمس کے گھوڑوں اور شہ سواروں کے لیے جانچ مرتبہ برکت کی دعا فرمائی۔
تشریح:
مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ کفار و مشرکین کی قوت کو ہرطرح سے کمزور کریں۔ان کے رعب و دبدبے اور ان کی طاقت کو کمزور کرکے مسلمانوں کے لیے کامیابی کا راستہ آستان کریں۔ ان پر ہر قسم کی تنگی کرکے انھیں تباہ و برباد کردیا جائے۔جب دشمن کا اخراج کسی اور طریقے سے ممکن نہ ہو تو ان کے مکانات گرادینے اور باغات جلادینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ بعض صحابہ کرام ؓسے باغات جلانے کی کراہت منقول ہے۔ شاید انھیں قرائن سے ان کے فتح ہونے کا یقین ہوگیا ہو،اس لیے انھوں نے مکانات وباغات کوتباہ کرنا اچھاخیال نہ کیاتاکہ وہ مسلمانوں کے کام آسکیں۔ (عمدةالقاري:342/10)
حضرت جریر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’تم مجھے ذی الخلصہ سے راحت کیوں نہیں دیتے؟‘‘ یہ قبیلہ خشعم میں ایک گھر تھا جس کو کعبہ یمانیہ کہاجاتا تھا۔ حضرت جریر ؓ کہتے ہیں کہ میں آپ کا فرمان سن کر قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کے ہمراہ چلا جن کے پاس گھوڑے تھے، لیکن میرا پاؤں گھوڑے پر نہیں جمتا تھا۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا جس سے میں نے آپ کي انگلیوں کے نشانات اپنے سینے پر دیکھے اور آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ!اس کو گھوڑے پر جمادے۔ اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنادے۔‘‘ الغرض حضرت جریر ؓوہاں گئے اور اس بت کوتوڑ کر جلادیا، پھر رسول اللہ ﷺ کو ایک آدمی کے ذریعے سے اس کی اطلاع دی۔ حضرت جریر ؓ کے قاصد نے بیان کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں آپ کے پاس اس وقت آیا ہوں جبکہ وہ بت خالی پیٹ والے (کھوکھلے) یا (انھوں نے کہا) خارشی اونٹ کی طرح خاکستر ہوچکاتھا۔ راوی کا بیان ہے کہ آپ نے قبیلہ احمس کے گھوڑوں اور شہ سواروں کے لیے جانچ مرتبہ برکت کی دعا فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ کفار و مشرکین کی قوت کو ہرطرح سے کمزور کریں۔ان کے رعب و دبدبے اور ان کی طاقت کو کمزور کرکے مسلمانوں کے لیے کامیابی کا راستہ آستان کریں۔ ان پر ہر قسم کی تنگی کرکے انھیں تباہ و برباد کردیا جائے۔جب دشمن کا اخراج کسی اور طریقے سے ممکن نہ ہو تو ان کے مکانات گرادینے اور باغات جلادینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ بعض صحابہ کرام ؓسے باغات جلانے کی کراہت منقول ہے۔ شاید انھیں قرائن سے ان کے فتح ہونے کا یقین ہوگیا ہو،اس لیے انھوں نے مکانات وباغات کوتباہ کرنا اچھاخیال نہ کیاتاکہ وہ مسلمانوں کے کام آسکیں۔ (عمدةالقاري:342/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا‘ ان سے اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے جریر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ ذوالخلصہ کو (برباد کر کے) مجھے راحت کیوں نہیں دے دیتے۔ یہ ذوالخلصہ قبیلہ خثعم کا ایک بت خانہ تھا اور اسے کعبۃ الیمانیہ کہتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر چلا۔ یہ سب حضرات بڑے اچھے گھوڑ سوار تھے ۔ لیکن میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کرپاتا تھا ۔ آنحضرت ﷺ نے میرے سینے پر ( اپنے ہاتھ سے ) مارا‘ میں نے انگشت ہائے مبارک کا نشان اپنے سینے پر دیکھا ۔ فرمایا اے اللہ ! گھوڑے کی پشت پر اسے ثبات عطا فرمائیو‘ اور اسے دوسروں کو ہدایت کی راہ دکھانے والا اور خود ہدایت پایا ہوا بنائیو‘ اس کے بعد جریر ؓ روانہ ہوئے‘ اور ذولخلصہ کی عمارت کو گرا کر اس میں آگ لگادی۔ پھر رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر بھجوائی ۔ جریر ؓ کے قاصد (ابو ارطاۃ حصین بن ربیعہ) نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا اس ذات کی قسم! جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا‘ جب تک ہم نے ذوالخلصہ کو ایک خالی پیٹ والے اونٹ کی طرح نہیں بنا دیا‘ یا (انہوں نے کہا) خارش والے اونٹ کی طرح (مراد ویرانی سے ہے) جریر ؓ نے بیان کیا کہ یہ سن کر آپ ﷺ نے قبیلہ احمس کے سواروں اور قبیلوں کے تمام لوگوں کے لئے پانچ مرتبہ برکتوں کی دعا فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
ذی الخلصہ نامی بت خانہ حربی کافروں کا مندر تھا‘ جہاں وہ جمع ہوتے‘ اور اسلام کی نہ صرف توہین کرتے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی مختلف تدابیر سوچا کرتے تھے۔ اس لئے آنحضرتﷺ نے اسے ختم کرا کر ایک فساد کے مرکز کو ختم کرا دیا تاکہ عام مسلمان سکون حاصل کرسکیں۔ ذمی کافروں کے عبادت خانے مسلمانوں کی حفاظت میں آجاتے ہیں۔ لہٰذا ان کے لئے ہر دور میں اسلامی سربراہوں نے بڑے بڑے اوقاف مقرر کئے ہیں اور ان کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھا ہے جیسا کہ تاریخ شاہد ہے۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jarir (RA): Allah's Apostles said to me, "Will you relieve me from Dhul-Khalasa? Dhul-Khalasa was a house (of an idol) belonging to the tribe of Khath'am called Al-Ka’bah Al-Yama-niya. So, I proceeded with one hundred and fifty cavalry men from the tribe of Ahmas, who were excellent knights. It happened that I could not sit firm on horses, so the Prophet (ﷺ) , stroke me over my chest till I saw his finger-marks over my chest, he said, 'O Allah! Make him firm and make him a guiding and rightly guided man.' " Jarir proceeded towards that house, and dismantled and burnt it. Then he sent a messenger to Allah's Apostle (ﷺ) informing him of that. Jarir's messenger said, "By Him Who has sent you with the Truth, I did not come to you till I had left it like an emancipated or gabby camel (i.e. completely marred and spoilt)." Jarir added, "The Prophet (ﷺ) asked for Allah's Blessings for the horses and the men of Ahmas five times."