باب : اگر کسی سے فساد یا شرارت کا اندیشہ ہو تو اس سے مکر و فریب کر سکتے ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: What tricks and means of security may be adopted)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3033.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ابن صیاد کے حالات معلوم کرنے کے لیے روانہ ہوئے آپ کے ہمراہ حضرت ابی بن کعب ؓ بھی تھے۔ آپ کو اطلاع ملی کہ ابن صیاد ایک نخلستان میں ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ اس نخلستان میں داخل ہوئے تو آپ کھجوروں کے تنوں کی آڑ لیتے ہوئے وہاں پہنچے جبکہ ابن صیاد ایک چادر میں لپٹا ہوا تھا اور اس کے اندر ہی آواز کررہا تھا۔ ابن صیاد کی ماں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر کہا: اے صاف!یہ محمد ہیں، چنانچہ ابن صیاد اچھل کر اٹھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ (اس کی ماں) اسے چھوڑے رکھتی تو کئی ایک معاملات کی وضاحت ہوجاتی۔‘‘
تشریح:
1۔ابن صیاد مدینہ طیبہ میں ایک یہودی بچہ تھا جو کاہنوں اور نجومیوں کی طرح لوگوں کو بہکایا کرتاتھا۔ اپنے دجل وفریب کی بنا پروہ بھی ایک قسم کا دجال تھا۔حضرت عمر ؓ کی رائے اسے قتل کردینی کی تھی لیکن رسول اللہ ﷺنے مصلحت کی بنا پر اسے قتل کرنا مناسب خیال نہ کیا، البتہ اس کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے شاخوں کی آڑ میں چل کر اس تک پہنچے تاکہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے۔ 2۔یہ ایک حیلہ تھا جس کے باعث آپ ابن صیاد اور اس کی ماں کے شر سے بچنے کی کوشش کررہے تھے اگراس کی ماں رسول اللہ ﷺ کی آمد کا انکشاف نہ کرتی اور اسے اپنے حال پر چھوڑدیتی تو ابن صیاد سے متعلق کئی ایک امور کی وضاحت ہوجاتی لیکن:(ما شاء الله كان و ما لم يشأ لم يكن وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ابن صیاد کے حالات معلوم کرنے کے لیے روانہ ہوئے آپ کے ہمراہ حضرت ابی بن کعب ؓ بھی تھے۔ آپ کو اطلاع ملی کہ ابن صیاد ایک نخلستان میں ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ اس نخلستان میں داخل ہوئے تو آپ کھجوروں کے تنوں کی آڑ لیتے ہوئے وہاں پہنچے جبکہ ابن صیاد ایک چادر میں لپٹا ہوا تھا اور اس کے اندر ہی آواز کررہا تھا۔ ابن صیاد کی ماں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر کہا: اے صاف!یہ محمد ہیں، چنانچہ ابن صیاد اچھل کر اٹھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر یہ (اس کی ماں) اسے چھوڑے رکھتی تو کئی ایک معاملات کی وضاحت ہوجاتی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ابن صیاد مدینہ طیبہ میں ایک یہودی بچہ تھا جو کاہنوں اور نجومیوں کی طرح لوگوں کو بہکایا کرتاتھا۔ اپنے دجل وفریب کی بنا پروہ بھی ایک قسم کا دجال تھا۔حضرت عمر ؓ کی رائے اسے قتل کردینی کی تھی لیکن رسول اللہ ﷺنے مصلحت کی بنا پر اسے قتل کرنا مناسب خیال نہ کیا، البتہ اس کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے شاخوں کی آڑ میں چل کر اس تک پہنچے تاکہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے۔ 2۔یہ ایک حیلہ تھا جس کے باعث آپ ابن صیاد اور اس کی ماں کے شر سے بچنے کی کوشش کررہے تھے اگراس کی ماں رسول اللہ ﷺ کی آمد کا انکشاف نہ کرتی اور اسے اپنے حال پر چھوڑدیتی تو ابن صیاد سے متعلق کئی ایک امور کی وضاحت ہوجاتی لیکن:(ما شاء الله كان و ما لم يشأ لم يكن وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے بیان کیا‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سالم بن عبداللہ اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ ابن صیاد (یہودی بچے) کی طرف جا رہے تھے۔ آپ ﷺ کے ساتھ ابی بن کعب ؓ بھی تھے (ابن صیاد کے عجیب وغریب احوال کے متعلق آپ ﷺ خود تحقیق کرنا چاہتے تھے) آپ ﷺ کو اطلاع دی گئی تھی کہ ابن صیاد اس وقت کھجوروں کی آڑ میں موجود ہے۔ جب آپ ﷺ وہاں پہنچے تو شاخوں کی آڑ میں چلنے لگے۔ (تا کہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے) ابن صیاد اس وقت ایک چادر اوڑھے ہوئے چپکے چپکے کچھ گنگنا رہا تھا‘ اس کی ماں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھ لیا اور پکار اٹھی کہ اے ابن صیاد! یہ محمد ﷺ آ پہنچے ‘ وہ چونک اٹھا‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ اس کی خبرنہ کرتی تو وہ کھولتا۔ (یعنی اس کی باتوں سے اس کا حال کھل جاتا)
حدیث حاشیہ:
ابن صیاد مدینہ میں ایک یہودی بچہ تھا‘ جو کاہن اور نجومیوں کی طرح لوگوں کو بہکایا کرتا اور اپنے آپ کو کبھی نبی اور رسول بھی کہنے لگتا‘ وہ بھی ایک قسم کا دجال ہی تھا‘ کیونکہ دجل و فریب اس کا کام تھا۔ حضرت عمرؓ کی رائے اس کے ختم کردینے کی تھی‘ مگر آنحضرتﷺ جو رحمۃ اللعالمین بن کر تشریف لائے تھے آپ نے بہت سی ملکی وملی مصالح کی بنا پر اسے مناسب نہ سمجھا‘ سچ ہے ﴿لَا إِکرَاہَ في الدینِ﴾(البقرة: 256) دینی معاملات میں کسی پر زبردستی کرنا جائز نہیں ہے۔ راہ ہدایت دکھلا دینا اللہ و رسول ﷺ کا کام ہے اور اس پر چلانا صرف اللہ کا کام ہے۔ ﴿اِنَّكَ لَا تَهدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ يَهدِيْ مَنْ يَّشَاءُ﴾(القصص: 56) باب کا مطلب اس سے ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ شاخوں کی آڑ میں چل کر ابن صیاد تک پہنچے تاکہ وہ آپ کو دیکھ نہ سکے‘ ابن صیاد نے آپ کے امیوں کے رسول ہونے کی تصدیق کی‘ جس سے اس نے آپ کی رسالت عامہ سے انکار بھی کیا‘ امی کے معنی ان پڑھ کے ہیں۔ اہل عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا۔ اس کے باوجود وہ ہر فن کے ماہر تھے اور بے پناہ قوت حافظہ رکھتے تھے بلکہ ان کو اپنے امی ہونے پر فخر تھا۔ آنحضرتﷺ بھی ان ہی میں پیدا ہوئے اور اللہ پاک نے آپ کو امی ہونے کے باوجود علوم الأولین والآخرین سے مالا مال فرمایا۔ (ﷺ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Once, Allah's Messenger (ﷺ) accompanied by Ubai bin Ka'b set out to Ibn Saiyyad. He was informed that Ibn Saiyyad was in a garden of date palms. When Allah's Messenger (ﷺ) entered the garden of date-palms, he started hiding himself behind the trunks of the palms while Ibn Saiyyad was covered with a velvet sheet with murmurs emanating from under it. Ibn Saiyyah's mother saw Allah's Messenger (ﷺ) and said, "O Saf! This is Muhammad." So Ibn Saiyyad got up. Allah's Messenger (ﷺ) said, "If she had left him (in his state), the truth would have been clear."