باب : اپنے تئیں قید کرا دینا اورجو شخص قید نہ کرائے اس کا حکم
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The performance of a two Rak'a Salat before being put to death)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنا۔
3045.
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دس صحابہ پر مشتمل ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے روانہ فرمائی۔ آپ نے اس جماعت کا امیر حضرت عاصم بن عمربن خطاب ؓکے نانا حضرت عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو مقرر فرمایا، چنانچہ وہ لوگ (مدینے سے)چلے گئے۔ جب وہ مقام "هداة" پر پہنچےجو عسفان اور مکہ کے درمیان ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو کسی نے ان کی آمد کی خبر دی۔ اس قبیلے کے تقریباً دو سوتیرا نداز ان کی تلاش میں نکلے اور ان کے قدموں کے نشانات سے اندازہ لگاتے ہوئے آخر ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ کرام ؓنے بیٹھ کرکھجوریں کھائی تھیں جو وہ مدینہ طیبہ سے اپنے ہمراہ لے کر چلے تھے۔ تعاقب والوں نے کہا: یہ تو یثرب کی کھجوریں معلوم ہوتی ہیں۔ بالآخر وہ ان کے قدموں کے نشانات سے اندازہ لگاتے ہوئے آگے بڑھے۔ جب عاصم اور ان کے ساتھیوں نے انھیں دیکھ لیا تو انھوں نے پہاڑ کی ایک چوٹی پر پناہ لے لی۔ مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے آجاؤ، تم سے ہمارا عہدو پیمان ہے کہ ہم تم میں سے کسی شخص کو قتل نہیں کریں گے۔ مہم کے امیر حضرت عاصم بن ثابت انصاری ؓنے کہا : اللہ کی قسم! میں تو آج کسی صورت میں کافر کی پناہ قبول نہیں کروں گا، پھر دعا کی: اے اللہ !ہماری طرف سے اپنے نبی کو ان حالات کی اطلاع کردے۔ بہر حال ان پر کافروں نے تیر برسانے شروع کردیے اور حضرت عاصم کو سات ساتھیوں سمیت شہید کر ڈالا۔ باقی تین صحابی حضرت خبیب انصاریؓ ، ابن دثنہ ؓ اور ایک تیسرا شخص ان کے عہدوپیمان پر چوٹی سے نیچے اتر آئے۔ جب یہ تینوں صحابی پوری طرح ان کے نرغے میں آگئے تو انھوں نے اپنی کمانوں کی تانتیں اتار کر انھیں باندھ دیا۔ تیسرے آدمی نے کہا: اللہ کی قسم!یہ تمھاری پہلی غداری ہے، اس لیے میں تو تمھارے ساتھ ہر گز نہیں جاؤں گا بلکہ میں تو اپنے پیش روؤں کا نمونہ اختیار کروں گا، ان کی مراد شہداء سے تھی، چنانچہ مشرکین انھیں گھسیٹنےلگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا۔ جب وہ کسی بھی طرح ساتھ جانے پر آمادہ نہ ہوئےتو ان لوگوں نے انھیں شہید کردیا۔ اب یہ حضرت خبیب ؓ اور ابن دثنہ ؓ کو ساتھ لے کر چلے اور مکہ پہنچ کر انھیں فروخت کردیا۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے، چنانچہ حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے بیٹوں نے خرید لیا کیونکہ حضرت خبیب ؓنے غزوہ بدرمیں حارث بن عامر ؓ کو قتل کیا تھا۔ حضرت خبیب ان کے ہاں چند دن قید رہے۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے عبید اللہ بن عیاض نے بتایا، انھیں حارث کی بیٹی نے خبر دی کہ جب انھوں نے خبیب ؓ کو قتل کرنے پر اتفاق کر لیا تو حضرت خبیب نے زیر ناف بالوں کی صفائی کے لیے اس سے استرا مانگا، تو اس نے عاریتاً انھیں استرا فراہم کردیا۔ میری بے خبری میں میرا بیٹا حضرت خبیب ؓ کے پاس آیا تو انھوں نے اسے پکڑ کر اپنی ران پر بٹھا لیا جبکہ استران کے ہاتھ میں تھا۔ میں اس قدر پریشان ہوئی کہ حضرت خبیب نے میری گھبراہٹ کو میرے چہرے سے بھانپ لیا۔ انھوں نے کہا: تمھیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ میں اسے قتل کر دوں گا؟ (نہیں، نہیں) میں یہ اقدام ہر گز نہیں کروں گا، عورت کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! خبیب ؓسے بہتر میں نے کبھی کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن دیکھا کہ خوشئہ انگور ان کے ساتھ میں ہے اور وہ مزے سے انہیں کھا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ مکرمہ میں پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا۔ وہ کہتی تھی۔ بلا شبہ یہ تو اللہ کی طرف سے رزق تھا جو اس نے حضرت خبیب ؓ کو عطا کیا تھا۔ بہر حال جب وہ لوگ انھیں قتل کرنے کے لیے حرم کی حدود سے باہر لے گئے تو ان سےحضرت خبیب ؓنے کہا: مجھے دو رکعتیں ادا کرنے کی مہلت دو تو انھوں نے چھوڑدیا۔ حضرت خبیب ؓنے دو رکعتیں ادا کیں، پھرکہا: اگر تم میرے متعلق بدگمانی نہ کرتے کہ میں قتل سے گھبراگیا ہوں تو میں اپنی نماز کو ضرور طویل کرتا۔ پھر انھوں نے دعا کی: اے اللہ!ان کو چن چن کر صفحہ ہستی سے مٹادے۔ پھر یہ اشعارپڑھے:
’’جب میں مسلمان ہوکر قتل کیا جارہا ہوں تو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر گرکر مرنا ہوگا۔ یہ سب کچھ اللہ کی خوشنودی کے لیے ہے۔ اگر اللہ چاہے تو میرے بریدہ جسم کے جوڑ جوڑ میں برکت پیدا فر دے۔‘‘
آخر حارث کے بیٹے (عقبہ)نے ان کو شہید کردیا۔ حضرت خبیب ؓنے ہر مسلمان کے لیے دو رکعتیں پڑھنے کا طریقہ جاری کردیا جسے باندھ کر قتل کیاجائے۔ دوسری طرف حضرت عاصم بن ثابت ؓ کی دعا کو اللہ نے شرف قبولیت سے نوازا۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اس جگر پاش واقعے کی اطلاع دی اور جن جن آزمائشوں سے وہ دوچار ہوئے تھے ان سب حالات سے انھیں آگاہ کیا، نیز کفار قریش کو جب حضرت عاصم ؓ کے شہید ہونے کی خبر ملی تو انھوں نے کچھ آدمی روانہ کیے تاکہ ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ممکن ہو کیونکہ انھوں نے بدر کی لڑائی میں ان کے بڑے سردار کو جہنم واصل کیا تھا۔ حضرت عاصم ؓ پر سیاہ بادل کی طرح شہد کی مکھیوں کا ایک جتھا بھیج دیا گیا جنھوں نے کفار کے قاصدوں سے ان کے جسم کو محفوظ رکھا، چنانچہ وہ ان کے گوشت سے کچھ بھی کاٹنے پر قادرنہ ہوسکے۔
تشریح:
1۔ حضرت خبیب ؓ کو شہید کرنے والے ابو سروعہ عقبہ بن حارث ہیں۔ (صحیح البخاري، المغازی، حدیث:3989)یہ بعد میں مسلمان ہو گئے تھے نیز یہ وہی عقبہ بن حارث ہیں جنھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے شادی کی تھی ۔پھر ایک سیاہ فام عورت نے بتایا کہ میں نے تجھے اور تیری بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے تو انھوں نے مسئلے کی تحقیق کے لیے مکہ سے مدینہ طیبہ کا سفر کیا بالآخر انھوں نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:88) 2۔امام بخاری ؒ کا عنوان تین اجزاء پر مشتمل ہے ایک یہ کہ کیا انسان خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر سکتا ہے؟ اس کے ثبوت کے لیے حضرت خبیب ؓ اور حضرت ابن دثنہ ؓ کا واقعہ ہے کہ انھوں نے خود کو کفار کے سامنے گرفتاری کے لیے پیش کیا بالآخرجام شہادت نوش فرمایا۔ دوسرا یہ کہ انسان خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرنے کی بجائے اپنی جان پر کھیل جائے اور سرد ھڑکی بازی لگا دے ایسا کرنا بھی جائز بلکہ بہتر ہے کیونکہ حضرت عاصم بن ثابت ؓنے گرفتاری دینے کی بجائے اپنی جان پر کھیلنے کو ترجیح دی اور اپنے ساتھیوں سمیت میدان کار زار میں کام آئے۔ تیسرا یہ ہے کہ عین شہادت کے موقع پر دورکعت پڑھنا ۔اس کے ثبوت کے لیے حضرت خبیب ؓ کا کردار پیش کیا کہ انھوں نے رب سے حقیقی ملاقات سے قبل روحانی ملاقات کی خواہش کی اور اسے عملی جامہ پہنایا۔ 3۔ہمارے نزدیک عزیمت یہ ہے کہ انسان گرفتاری دینے کی بجائے خود کو اللہ کے حضور قربانی کے لیے پیش کردے کیونکہ گرفتاری دینے سے ممکن ہے کہ اس سے کوئی ملکی یا قومی راز حاصل کیے جاسکیں جو ملک و ملت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں ہاں اگر حضرت خبیب ؓ جیسا مستقل مزاج مجاہد ہو تو گرفتاری دینے کی اجازت ہے البتہ عزیمت کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکے گا۔ واضح رہے کہ اس واقعے سے خود کش حملوں کا جواز کشیدہ کرنا محل نظر ہے۔ 4۔مقام غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عاصم بن ثابت ؓ کے جسم کی بھڑوں کے ذریعے سے حفاظت کی لیکن کفار کے ہاتھوں انھیں قتل ہونے سے محفوظ نہ کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ شہادت تو مومن کا مقصود مطلوب ہے لیکن مرنے کے بعد ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹنا ان کی توہین تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسا بند و بست فرمایا کہ کافروں کو ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹنے کی جرات نہ ہوئی۔ واللہ أعلم۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے دس صحابہ پر مشتمل ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے روانہ فرمائی۔ آپ نے اس جماعت کا امیر حضرت عاصم بن عمربن خطاب ؓکے نانا حضرت عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو مقرر فرمایا، چنانچہ وہ لوگ (مدینے سے)چلے گئے۔ جب وہ مقام "هداة" پر پہنچےجو عسفان اور مکہ کے درمیان ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو کسی نے ان کی آمد کی خبر دی۔ اس قبیلے کے تقریباً دو سوتیرا نداز ان کی تلاش میں نکلے اور ان کے قدموں کے نشانات سے اندازہ لگاتے ہوئے آخر ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ کرام ؓنے بیٹھ کرکھجوریں کھائی تھیں جو وہ مدینہ طیبہ سے اپنے ہمراہ لے کر چلے تھے۔ تعاقب والوں نے کہا: یہ تو یثرب کی کھجوریں معلوم ہوتی ہیں۔ بالآخر وہ ان کے قدموں کے نشانات سے اندازہ لگاتے ہوئے آگے بڑھے۔ جب عاصم اور ان کے ساتھیوں نے انھیں دیکھ لیا تو انھوں نے پہاڑ کی ایک چوٹی پر پناہ لے لی۔ مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے آجاؤ، تم سے ہمارا عہدو پیمان ہے کہ ہم تم میں سے کسی شخص کو قتل نہیں کریں گے۔ مہم کے امیر حضرت عاصم بن ثابت انصاری ؓنے کہا : اللہ کی قسم! میں تو آج کسی صورت میں کافر کی پناہ قبول نہیں کروں گا، پھر دعا کی: اے اللہ !ہماری طرف سے اپنے نبی کو ان حالات کی اطلاع کردے۔ بہر حال ان پر کافروں نے تیر برسانے شروع کردیے اور حضرت عاصم کو سات ساتھیوں سمیت شہید کر ڈالا۔ باقی تین صحابی حضرت خبیب انصاریؓ ، ابن دثنہ ؓ اور ایک تیسرا شخص ان کے عہدوپیمان پر چوٹی سے نیچے اتر آئے۔ جب یہ تینوں صحابی پوری طرح ان کے نرغے میں آگئے تو انھوں نے اپنی کمانوں کی تانتیں اتار کر انھیں باندھ دیا۔ تیسرے آدمی نے کہا: اللہ کی قسم!یہ تمھاری پہلی غداری ہے، اس لیے میں تو تمھارے ساتھ ہر گز نہیں جاؤں گا بلکہ میں تو اپنے پیش روؤں کا نمونہ اختیار کروں گا، ان کی مراد شہداء سے تھی، چنانچہ مشرکین انھیں گھسیٹنےلگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا۔ جب وہ کسی بھی طرح ساتھ جانے پر آمادہ نہ ہوئےتو ان لوگوں نے انھیں شہید کردیا۔ اب یہ حضرت خبیب ؓ اور ابن دثنہ ؓ کو ساتھ لے کر چلے اور مکہ پہنچ کر انھیں فروخت کردیا۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے، چنانچہ حضرت خبیب ؓ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے بیٹوں نے خرید لیا کیونکہ حضرت خبیب ؓنے غزوہ بدرمیں حارث بن عامر ؓ کو قتل کیا تھا۔ حضرت خبیب ان کے ہاں چند دن قید رہے۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے عبید اللہ بن عیاض نے بتایا، انھیں حارث کی بیٹی نے خبر دی کہ جب انھوں نے خبیب ؓ کو قتل کرنے پر اتفاق کر لیا تو حضرت خبیب نے زیر ناف بالوں کی صفائی کے لیے اس سے استرا مانگا، تو اس نے عاریتاً انھیں استرا فراہم کردیا۔ میری بے خبری میں میرا بیٹا حضرت خبیب ؓ کے پاس آیا تو انھوں نے اسے پکڑ کر اپنی ران پر بٹھا لیا جبکہ استران کے ہاتھ میں تھا۔ میں اس قدر پریشان ہوئی کہ حضرت خبیب نے میری گھبراہٹ کو میرے چہرے سے بھانپ لیا۔ انھوں نے کہا: تمھیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ میں اسے قتل کر دوں گا؟ (نہیں، نہیں) میں یہ اقدام ہر گز نہیں کروں گا، عورت کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! خبیب ؓسے بہتر میں نے کبھی کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن دیکھا کہ خوشئہ انگور ان کے ساتھ میں ہے اور وہ مزے سے انہیں کھا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ مکرمہ میں پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا۔ وہ کہتی تھی۔ بلا شبہ یہ تو اللہ کی طرف سے رزق تھا جو اس نے حضرت خبیب ؓ کو عطا کیا تھا۔ بہر حال جب وہ لوگ انھیں قتل کرنے کے لیے حرم کی حدود سے باہر لے گئے تو ان سےحضرت خبیب ؓنے کہا: مجھے دو رکعتیں ادا کرنے کی مہلت دو تو انھوں نے چھوڑدیا۔ حضرت خبیب ؓنے دو رکعتیں ادا کیں، پھرکہا: اگر تم میرے متعلق بدگمانی نہ کرتے کہ میں قتل سے گھبراگیا ہوں تو میں اپنی نماز کو ضرور طویل کرتا۔ پھر انھوں نے دعا کی: اے اللہ!ان کو چن چن کر صفحہ ہستی سے مٹادے۔ پھر یہ اشعارپڑھے:
’’جب میں مسلمان ہوکر قتل کیا جارہا ہوں تو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر گرکر مرنا ہوگا۔ یہ سب کچھ اللہ کی خوشنودی کے لیے ہے۔ اگر اللہ چاہے تو میرے بریدہ جسم کے جوڑ جوڑ میں برکت پیدا فر دے۔‘‘
آخر حارث کے بیٹے (عقبہ)نے ان کو شہید کردیا۔ حضرت خبیب ؓنے ہر مسلمان کے لیے دو رکعتیں پڑھنے کا طریقہ جاری کردیا جسے باندھ کر قتل کیاجائے۔ دوسری طرف حضرت عاصم بن ثابت ؓ کی دعا کو اللہ نے شرف قبولیت سے نوازا۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اس جگر پاش واقعے کی اطلاع دی اور جن جن آزمائشوں سے وہ دوچار ہوئے تھے ان سب حالات سے انھیں آگاہ کیا، نیز کفار قریش کو جب حضرت عاصم ؓ کے شہید ہونے کی خبر ملی تو انھوں نے کچھ آدمی روانہ کیے تاکہ ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ممکن ہو کیونکہ انھوں نے بدر کی لڑائی میں ان کے بڑے سردار کو جہنم واصل کیا تھا۔ حضرت عاصم ؓ پر سیاہ بادل کی طرح شہد کی مکھیوں کا ایک جتھا بھیج دیا گیا جنھوں نے کفار کے قاصدوں سے ان کے جسم کو محفوظ رکھا، چنانچہ وہ ان کے گوشت سے کچھ بھی کاٹنے پر قادرنہ ہوسکے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت خبیب ؓ کو شہید کرنے والے ابو سروعہ عقبہ بن حارث ہیں۔ (صحیح البخاري، المغازی، حدیث:3989)یہ بعد میں مسلمان ہو گئے تھے نیز یہ وہی عقبہ بن حارث ہیں جنھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے شادی کی تھی ۔پھر ایک سیاہ فام عورت نے بتایا کہ میں نے تجھے اور تیری بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے تو انھوں نے مسئلے کی تحقیق کے لیے مکہ سے مدینہ طیبہ کا سفر کیا بالآخر انھوں نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:88) 2۔امام بخاری ؒ کا عنوان تین اجزاء پر مشتمل ہے ایک یہ کہ کیا انسان خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر سکتا ہے؟ اس کے ثبوت کے لیے حضرت خبیب ؓ اور حضرت ابن دثنہ ؓ کا واقعہ ہے کہ انھوں نے خود کو کفار کے سامنے گرفتاری کے لیے پیش کیا بالآخرجام شہادت نوش فرمایا۔ دوسرا یہ کہ انسان خود کو گرفتاری کے لیے پیش کرنے کی بجائے اپنی جان پر کھیل جائے اور سرد ھڑکی بازی لگا دے ایسا کرنا بھی جائز بلکہ بہتر ہے کیونکہ حضرت عاصم بن ثابت ؓنے گرفتاری دینے کی بجائے اپنی جان پر کھیلنے کو ترجیح دی اور اپنے ساتھیوں سمیت میدان کار زار میں کام آئے۔ تیسرا یہ ہے کہ عین شہادت کے موقع پر دورکعت پڑھنا ۔اس کے ثبوت کے لیے حضرت خبیب ؓ کا کردار پیش کیا کہ انھوں نے رب سے حقیقی ملاقات سے قبل روحانی ملاقات کی خواہش کی اور اسے عملی جامہ پہنایا۔ 3۔ہمارے نزدیک عزیمت یہ ہے کہ انسان گرفتاری دینے کی بجائے خود کو اللہ کے حضور قربانی کے لیے پیش کردے کیونکہ گرفتاری دینے سے ممکن ہے کہ اس سے کوئی ملکی یا قومی راز حاصل کیے جاسکیں جو ملک و ملت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں ہاں اگر حضرت خبیب ؓ جیسا مستقل مزاج مجاہد ہو تو گرفتاری دینے کی اجازت ہے البتہ عزیمت کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکے گا۔ واضح رہے کہ اس واقعے سے خود کش حملوں کا جواز کشیدہ کرنا محل نظر ہے۔ 4۔مقام غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عاصم بن ثابت ؓ کے جسم کی بھڑوں کے ذریعے سے حفاظت کی لیکن کفار کے ہاتھوں انھیں قتل ہونے سے محفوظ نہ کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ شہادت تو مومن کا مقصود مطلوب ہے لیکن مرنے کے بعد ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹنا ان کی توہین تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسا بند و بست فرمایا کہ کافروں کو ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹنے کی جرات نہ ہوئی۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی‘ اس سے زہری نے بیان کیا‘ انہیں عمرو بن سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی‘ وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کے دوست‘ انہوں نے کہا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دس صحابہ کی ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لئے بھیجی‘ اس جماعت کا امیر عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا عاصم بن ثابت انصاری ؓ کو بنایا اور جماعت روانہ ہوگئی۔ جب یہ لوگ مقام ھداۃ پر پہنچے جو عسفان اورمکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو کسی نے خبر دے دی اوراس قبیلہ کے دو سو تیر اندازوں کی جماعت ان کی تلاش میں نکلی‘ یہ سب صحابہ کے نشانات قدم سے اندازہ لگاتے ہوئے چلتے چلتے آخر ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ نے بیٹھ کر کھجوریں کھائی تھیں‘ جو وہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔ پیچھا کرنے والوں نے کہا کہ یہ (گٹھلیاں) تو یثرب (مدینہ) کی (کھجوروں کی) ہیں اور پھر قدم کے نشانوں سے اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ آخر عاصم ؓ اور ان کے ساتھیوں نے جب انہیں دیکھا تو ان سب نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی‘ مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے اتر آؤ‘ تم سے ہمارا عہد وپیمان ہے۔ ہم کسی شخص کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت ؓ مہم کے امیر نے کہا کہ میں تو آج کسی صورت میں بھی ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا۔ اے اللہ ! ہماری حالت سے اپنے نبی کو مطلع کر دے۔ اس پر ان کافروں نے تیر برسانے شروع کر دئيے اور عاصم ؓ اور سات دوسرے صحابہ کو شہید کرڈالا باقی تین صحابی ان کے عہد و پیمان پر اتر آئے ، یہ خبیب انصاری ؓ ابن دثنہ ؓ اور ایک تیسرے صحابی (عبداللہ بن طارق بلوی ؓ) تھے۔ جب یہ صحابی ان کے قابو میں آ گئے تو انہوں نے اپنی کمانوں کے تانت اتار کران کو ان سے باندھ لیا‘ حضرت عبداللہ بن طارق ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم ! یہ تمہاری پہلی غداری ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا‘ بلکہ میں تو انہیں حضرت کا اسوہ اختیار کروں گا‘ ان کی مراد شہداء سے تھی‘ مگر مشرکین انہیں کھنچنے لگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا جب وہ کسی طرح نہ گئے تو ان کو بھی شہید کردیا۔ اب یہ خبیب اور ابن دثنہ ؓ کو ساتھ لے کر چلے اور ان کو مکہ میں لے جا کر بیچ دیا۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے۔ خبیب ؓ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خرید لیا ، خبیب ؓ نے ہی بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ آپ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قید ی بن کر رہے، (زہری نے بیان کیا) کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض خبر دی اور انہیں حارث کی بیٹی (زینب ؓ) نے خبر دی کہ جب (ان کو قتل کرنے کے لئے) لوگ آئے تو زینب سے انہوں نے موئے زیر ناف مونڈنے کے لئے استرا مانگا۔ انہوں نے استرا دے دیا، (زینب نے بیان کیا) پھر انہوں نے میرے ایک بچے کو اپنے پاس بلا لیا‘ جب وہ ان کے پاس گیا تو میں غافل تھی‘ زینب نے بیان کیا کہ پھر جب میں نے اپنے بچے کو ان کی ران پر بیٹھا ہوا دیکھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا‘ تو میں اس بری طرح گھبرا گئی کہ خبیب ؓ بھی میرے چہرے سے سمجھ گئے انہوں نے کہا ‘ تمہیں اس کا خوف ہو گا کہ میں اسے قتل کر ڈالوں گا‘ یقین کرو میں کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ اللہ کی قسم! کوئی قیدی میں نے خبیب سے بہتر کبھی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم ! میں نے ایک دن دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس میں سے کھا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا۔ کہا کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی روزی تھی جو اللہ نے خبیب ؓ کو بھیجی تھی۔ پھر جب مشرکین انہیں حرم سے باہر لائے‘ تاکہ حرم کے حدود سے نکل کر انہیں شہید کر دیں تو خبیب ؓ نے ان سے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی۔ پھرخبیب ؓ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا‘ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں (قتل سے) گھبرا رہا ہوں تو میں ان رکعتوں کو اورلمبا کرتا۔ اے اللہ! ان ظالموں سے ایک ایک کو ختم کر دے، (پھر یہ اشعار پڑھے)
’’جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں‘ تو مجھے کسی قسم کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ خواہ اللہ کے راستے میں مجھے کسی پہلو پر بھی پچھاڑا جائے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہے اور اگر وہ چاہے تو اس جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے سکتا ہے جس کی بوٹی بوٹی کر دی گئی ہو۔‘‘
آخر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے ان کو شہید کردیا۔ حضرت خبیب ؓ سے ہی ہر اس مسلمان کے لئے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے) دو رکعتیں مشروع ہوئی ہیں۔ ادھر حادثہ کے شروع ہی میں حضرت عاصم بن ثابت ؓ (مہم کے امیر) کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی تھی کہ اے اللہ! ہماری حالت کی خبر اپنے نبی کو دے دے اورنبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو وہ سب حالات بتا دیئے تھے جن سے یہ مہم دوچار ہوئی تھی۔ کفار قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عاصم ؓ شہید کر دیئے گئے تو انہوں نے نے ان کی لاش کے لئے اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کی جسم کا کوئی ایسا حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ہو سکتی ہو۔ عاصم ؓ نے بدر کی جنگ میں کفار قریش کے ایک سردار (عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ عاصم کی نعش پر قائم کر دیا انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کی لاش کو بچا لیا اور وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے۔
حدیث حاشیہ:
عاصم بن عمر ؓ کی والدہ جمیلہ عاصم بن ثابت کی بیٹی تھیں۔ بعضوں نے کہا یہ عاصم بن عمر ؓ کے ماموں تھے اور جمیلہ ان کی بہن تھیں۔ خیر ان چھ آدمیوں کو آپﷺ نے عضل اور قارہ والوں کی درخواست پر بھیجا تھا۔ وہ جنگ احد کے بعد آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور آپ سے عرض کیا ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔ ہمارے ساتھ چند صحابہ ؓ کو کر دیجئے جو ہم کو دین کی تعلیم دیں۔ آپ نے مرثد بن ابی مرثد اور خالد بن بکیر اور خبیب بن عدی اور زید بن دثنہ اور عبداللہ بن طارق ؓ کو ان کے ساتھ کر دیا‘ راستے میں بنو لحیان کے لوگوں نے ان پر حملہ کیا‘ اور دغا سے مار ڈالا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) sent a Sariya of ten men as spies under the leadership of 'Asim bin Thabit al-Ansari, the grandfather of 'Asim bin Umar Al-Khattab. They proceeded till they reached Hadaa, a place between 'Usfan, and Makkah, and their news reached a branch of the tribe of Hudhail called Bani Lihyan. About two-hundred men, who were all archers, hurried to follow their tracks till they found the place where they had eaten dates they had brought with them from Medina. They said, "These are the dates of Yathrib (i.e. Medina), "and continued following their tracks When 'Asim and his companions saw their pursuers, they went up a high place and the infidels circled them. The infidels said to them, "Come down and surrender, and we promise and guarantee you that we will not kill any one of you" 'Asim bin Thabit; the leader of the Sariya said, "By Allah! I will not come down to be under the protection of infidels. O Allah! Convey our news to Your Prophet. Then the infidels threw arrows at them till they martyred 'Asim along with six other men, and three men came down accepting their promise and convention, and they were Khubaib-al-Ansari and Ibn Dathina and another man So, when the infidels captured them, they undid the strings of their bows and tied them. Then the third (of the captives) said, "This is the first betrayal. By Allah! I will not go with you. No doubt these, namely the martyred, have set a good example to us." So, they dragged him and tried to compel him to accompany them, but as he refused, they killed him. They took Khubaid and Ibn Dathina with them and sold them (as slaves) in Makkah (and all that took place) after the battle of Badr. Khubaib was bought by the sons of Al-Harith bin 'Amir bin Naufal bin 'Abd Manaf. It was Khubaib who had killed Al-Harith bin 'Amir on the day (of the battle of) Badr. So, Khubaib remained a prisoner with those people. Narrated Az-Zuhri (RA): 'Ubaidullah bin 'Iyyad said that the daughter of Al-Harith had told him, "When those people gathered (to kill Khubaib) he borrowed a razor from me to shave his pubes and I gave it to him. Then he took a son of mine while I was unaware when he came upon him. I saw him placing my son on his thigh and the razor was in his hand. I got scared so much that Khubaib noticed the agitation on my face and said, 'Are you afraid that I will kill him? No, I will never do so.' By Allah, I never saw a prisoner better than Khubaib. By Allah, one day I saw him eating of a bunch of grapes in his hand while he was chained in irons, and there was no fruit at that time in Makkah." The daughter of Al-Harith used to say, "It was a boon Allah bestowed upon Khubaib." When they took him out of the Sanctuary (of Makkah) to kill him outside its boundaries, Khubaib requested them to let him offer two Rakat (prayer). They allowed him and he offered Two Rakat and then said, "Hadn't I been afraid that you would think that I was afraid (of being killed), I would have prolonged the prayer. O Allah, kill them all with no exception." (He then recited the poetic verse):-- "I being martyred as a Muslim, Do not mind how I am killed in Allah's Cause, For my killing is for Allah's Sake, And if Allah wishes, He will bless the amputated parts of a torn body" Then the son of Al Harith killed him. So, it was Khubaib who set the tradition for any Muslim sentenced to death in captivity, to offer a two-Rak'at prayer (before being killed). Allah fulfilled the invocation of Asim bin Thabit on that very day on which he was martyred. The Prophet (ﷺ) informed his companions of their news and what had happened to them. Later on when some infidels from Quraish were informed that Asim had been killed, they sent some people to fetch a part of his body (i.e. his head) by which he would be recognized. (That was because) 'Asim had killed one of their chiefs on the day (of the battle) of Badr. So, a swarm of wasps, resembling a shady cloud, were sent to hover over Asim and protect him from their messenger and thus they could not cut off anything from his flesh.